किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

’’ماں اور بہن بھائی جنت میں ہیں‘‘راکھ اور انگاروں پر ننگے پاؤں ماں کا آنگن ڈھونڈتی ننھی ورد خلیل

غزہ:31؍مئی:راکھ، خون، انگاروں اور ملبے کے بیچ سے نکلی پانچ سالہ ورد الشیخ خلیل ننگے پاں، حیرت زدہ، گم صم۔ وہ چلتی رہی، جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو۔ماں کی گود، جو جل کر خاک ہو گئی، بہن بھائی، جو اب صرف راکھ میں چھپے بے نام سائے ہیں۔نہ روئی، نہ چیخی لیکن اس کی چال میں سب کچھ عیاں تھا۔ گویا جانتی ہو کہ اب کوئی گھر نہیں رہا، نہ ماں کا لمس، نہ کسی بھائی کا ہاتھ اور نہ ہی وہ زندگی جو کل تک زندگی کہلاتی تھی۔ باپ کی پدرانہ شفقت بھی اب مشکل دکھتی ہے کیونکہ وہ ایک ہسپتال کےآئی سی یو میں بے ہوش ہے۔ ہوش آئے تو دکھ اور تکلیف پھر تازہ ہیں۔یہ سب کچھ ایک لمحے میں بدل گیا، جب قابض نازی درندوں کے جنگی طیاروں نے بغیر کسی وارننگ کے فہمی الجرجاوی سکول کو نشانہ بنایا۔ وہی سکول جو سینکڑوں بے گھر فلسطینیوں کے لیے پناہ کی آخری امید تھا، ایک لمحے میں آگ، چیخوں اور راکھ کی عبرتناک داستان میں بدل گیا۔ یہ کوئی معمولی حملہ نہ تھا، بلکہ ایک مکمل جنگی جرم تھا، ایک ایسی صہیونی درندگی جس نے انسانیت کو دفن کر دیا۔
ایک تاریک خوفناک رات، ایک بے معنی قتل عام
وہ سب سورہے تھے۔ کسی کے پاس ہتھیار تھا نہ کسی نے کسی کو للکارا تھا۔ ورد اپنی ماں ہبہ کے سینے سے لگی سو رہی تھی، جو آخری لمحے میں اپنی تین سالہ بیٹی امل کو بھی سینے سے لگا کر اس آگ سے بچانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ہبہ زندہ جل گئی، امل بھی اس کے ساتھ عازم جنت ہوگئی، عبد الرحمن، محمد، ماریا، سلوان پانچ معصوم بہن بھائی راکھ بن کر رہ گئے۔ ان کے نام صرف ایک پریس ریلیز میں "ٹوٹی پھوٹی لاشیں بن کر گزر گئے اور دفن بھی ایسے ہوئے کہ نہ کوئی وداع، نہ کوئی آخری لمس۔ان کا باپ جلال الشیخ خلیل بچ تو گیا، مگر اب ہسپتال کی انتہائی نگہداشت میں زندگی اور موت کی ڈور سے بندھا ہے۔ جب ہوش آتا ہے تو اپنے بچوں کو پکارتا ہیاور رشتہ دار دل تھام کر جھوٹ بولتے ہیں "سب خیریت سے ہیں، بس کسی محفوظ مقام پر ہیں۔ شاید یہ جھوٹ بھی سچ ہو گیا ہے کیونکہ اس دوزخ نما غزہ سے دور، واقعی ہر جگہ کہیں نہ کہیں "محفوظ ہی ہے۔
وہ زندہ ہے مگر جیتی نہیں
اب ورد ایک خیمے میں بیٹھی ہے، اسی سکول سے کچھ فاصلے پر جس نے اس کے خواب نگل لیے۔ وہ کم بولتی ہے۔ جب کوئی ماں کا پوچھتا ہے تو دھیرے سے کہتی ہے "ماما اور بھائی بہن جنت میں ہیں۔ اپنی چھوٹی سی بچی کھچی گڑیا کو سینے سے لگا لیتی ہے۔وہی گڑیا جو آگ سے بچ گئی اور شاید اسی کے ساتھ بچا ہے ورد کا آخری ٹکڑا "بچپن۔ورد اب نہیں روتی۔ کیونکہ شاید وہ رونا بھول چکی ہے یا شاید وہ اب اتنی بڑی ہو چکی ہے کہ آنسو اب اس کی آنکھوں پر نہیں۔ورد کے چچا ایاد الشیخ خلیل کہتے ہیں "ورد بدل گئی ہے۔ وہ ورد نہیں رہی۔ اس کی آنکھوں میں ہزار سوال ہیں، لیکن وہ الفاظ نہیں ڈھونڈ پاتی کہ اپنے درد کو بیان کر سکے۔ ایاد نے ایک ہی دن میں اپنے چھ قریبی رشتہ داروں کو دفنایا۔ صرف ان کے کپڑوں کے باقیات سے ان کی شناخت ہوئی۔ایاد کا کہنا تھا: "ایسا لگتا ہے جیسے غزہ میں موت ایک معمول بن گئی ہو۔ہر روز ایک نئی قیامت اور دنیا کی ایک بھی طاقت کا دل نہیں دہلتا۔
خاموش دنیا کی دیواروں پر لکھے اعداد
ورد اکیلی نہیں۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے پچاس ہزار سے زائد فلسطینی بچے شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔لیکن سوال یہ ہیجب کبھی کوئی عالمی تحقیقات کا دروازہ کھلے گا، کیا ورد کو کوئی یاد رکھے گا؟ کیا کوئی عالمی ادارہ اس کی خاموش چیخ سن سکے گا؟ کیا کسی حقوق انسانی کی رپورٹ میں یہ لکھا جا سکے گا کہ غزہ میں بچپن، بچپن نہیں بلکہ درد اور الم کی ایک بے رحم منزل بن چکی ہے؟قابض اسرائیل نے سکول، یونیورسٹیاں، مساجد، چوراہے، پناہ گاہیں ہر وہ جگہ جہاں "محفوظ لکھا تھاسب کو نشانہ بنایا۔ الفاظ بے معنی ہو گئے، سچائی پر دنیا کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ بچی، جو ننگے پاں شعلوں میں چلتی رہی، بنا ایک آنسو بہائے۔وہ اب کسی ثبوت کی محتاج نہیں۔ وہ زندہ ثبوت ہے کہ درندگی کی زبان کو اب کسی بیان کی ضرورت نہیں۔
غزہ کی راکھ سے ایک پکار: بچپن جل رہا ہے
ورد ایک معصوم بچی جس نے وہ سب دیکھ لیا جو کسی معصوم کو کبھی نہ دیکھنا چاہیے۔وہ آج صرف ایک مظلوم بچی نہیں، بلکہ ایک علامت بن چکی ہے۔ظلم کے مارے ان لاکھوں چہروں کی علامت، جو عالمی ضمیر کی بے حسی کا شکار ہو گئے۔وہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر ایک "اعداد کے پیچھے ایک چہرہ ہوتا ہے، ایک چھوٹا ہاتھ ہوتا ہے جو ماں کی چادر تھامنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے، ایک خواب ہوتا ہے جس کا نام "سکول تھاجو ایک قبر بن گیا۔ورد ملبے، شعلوں اور لاشوں کے بیچ سے چل کر نکلی۔محض زندہ رہنے کے لیے نہیں بلکہ ہمیں یہ بتانے کے لیے کہ غزہ میں صرف لوگ نہیں مرتے، بلکہ خواب دفن ہوتے ہیں، خاندان مٹتے ہیں اور بچپن جلا دیے جاتے ہیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے