किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد: حزب اختلاف کی خاموشی اور نئی حکمت عملی کی ضرورت

تحریر: عبید باحسین

سات سال پہلے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے دوران بہت سے تجزیہ نگاروں نے خبردار کیا تھا کہ ہندوستان میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اُس وقت، میں نے یہ خیال رد کیا تھا، کیونکہ ہندوستان میں حز بِ اختلاف مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا رہا تھا۔ لیکن اب حالات بالکل مختلف ہو چکے ہیں۔گزشتہ کچھ ماہ سے یہ بات اب کھل کر سامنے آنے لگی ہے کہ اس مسابقتی فرقہ وارانہ سیاست میں بھارت کے حزب اختلاف کی بعض پالیسیاں اور رویہ اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ وہ مسلم مسائل پر توجہ نہیں دے رہے جو ان سے متوقع ہے۔ایسا رحجان تو ملک کی ہر ریاست میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں صرف مہاراشٹر کی بات کی جائے تو ایسے کئی معاملات منظر عام پر آئے ہیں۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 12فی صد ہے۔ مہاراشٹر میں مسلمان 50کے قریب حلقہ اسمبلی میں اپنے ووٹ کا اثر رکھتے ہیں۔
مسابقتی فرقہ وارانہ سیاست:مسلم مسائل پر حکومتی بے حسی:
ادھو ٹھاکرے کی حکومت نے مراٹھا سماج اور ان کے ریزرویشن کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات کیے، مگر مسلم ریزرویشن کے معاملے پر خاموشی اختیار کی۔یہ خاموشی اس وقت اور واضح ہوگئی جب ادھوٹھاکرے کی حکومت میں وزیر رہے اشوک چوہان سے سوال کیا گیا توان کا جواب غیر تسلی بخش تھا۔یہی تعصبانہ رویہ تب اور واضح ہوگیا جب اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام تبدیل کئے گئے۔مسلمانوں کی سماجی شناخت اور ان کی ترقی کے لئے ضروری اقدامات کرنے کے بجائے بی جے پی کی طرح کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں کا مسلمانوں کے تئیں امتیازی سلوک کم وبیش ایک جیسا ہی رہا۔مسابقتی سیاست کے کئی معاملے دہلی،تلنگانہ، ہماچل پردیش اور دیگر کئی ریاستوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اقتدار کی سیاست میں مسلمانوں کی غیر موجودگی:فرقہ وارانہ امتیاز کا بڑھتا ہوارحجان:
‘2002 ءکے گجرات فسادات کے بعد مسلمانوں کو اقتدار میں نمائندگی سے محروم رکھنا ایک روایت بن چکی ہے، جو اب دیگر ریاستوں میں بھی پھیل رہی ہے۔سنہ 2002ءسے مسلسل 2022ءتک گجرات اسمبلی کے انتخابات میں ایک بھی مسلم کو بی جے پی کی جانب سے امیدواری نہیں دے کر مسلمانوں کو ریاست کے اقتدار سے دور رکھا گیا۔یہ پوچھنے پر کہ بی جے پی ایک بھی مسلم کو امیدواری کیوں نہیں دی تویہی بات دُہرائی گئی کہ ہم مذہب کی بنیاد پر امیدواری نہیں دیتے، جن میں جیتنے کی طاقت ہوتی ہے، امیدواری انھیں ہی دی جاتی ہے۔سنہ 2024ءکے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے بھی یہی کیا۔ بی جےپی کی طرح کانگریس نے بھی گجرات میں ایک بھی مسلم کو امیدواری نہیں دی۔غیر بی جے پی جماعتوں نے 2019ءمیں 115مسلمانوں کو لوک سبھا انتخابات میں ٹکٹ دیے تھے لیکن2024ءکے لوک سبھا انتخابات میں انڈیا الائنس نے صرف 78مسلمانوں کو میدان میں اُتارا۔ لوک سبھا میں کل 543نشستیں ہیں۔ مہاراشٹر میں بی جے پی اتحاد اور کانگریس کے اتحاد نے بھی ایک بھی مسلم امیدوار کو موقع نہیں دیا۔جب سوال سنجے راؤت سے کیا گیا تو انھوں نے یہی بات دُہرائی کہ امیدواری جیتنے کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے مسلمان ممبران پارلیمنٹ کا 2014،2019اور 2024ءکے لوک سبھا میں تناسب اوسطاً 5فی صد سے کم رہاہے۔
مہاراشٹر کے ایم ایل سی وجاہت مرزا اور باباجانی دُرّانی جو کے ایوان قانون ساز اسمبلی کے آخری مسلم ممبر تھے۔ وجاہت مرزا کی جگہ کانگریس نے پارٹی مخالف کام کرنے کے باوجودپردنیاساتو کو امیدواری دی اور راشٹروادی (اجیت پوار) نے باباجانی کی جگہ پرراجیش وٹے کر کو جگہ دی۔ جب کہ مہاراشٹر سے کئی کانگریسی مسلم قائدین ایم ایل سی بننے کے لئے خواہش مند تھے۔مہاراشٹر کی جدید تاریخ میں پہلی مرتبہ قانون ساز کونسل کو مسلم مکت بنانے کا کام بی جے پی اور کانگریس اتحادیوں نے مل کر کیا۔اس کے بعد اس ناراضگی کو دور کرنے کے لیے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مہاراشٹر کے مسلم قائد کو تلنگانہ سے خالی ہوئی راجیہ سبھا سیٹ پر امیدواری دی جائے گی، لیکن اس جگہ پر کانگریس کے قائد ابھیشیک منو سنگھوی کو موقع دیا گیا۔ یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلم مخالف فرقہ وارانہ سیاست محض بی جے پی کا ایجنڈا نہیں رہا، بلکہ حزبِ اختلاف بھی اب اسی راہ پر گامزن ہے۔
حالیہ واقعات اور سیاسی رویے:
ہندوستان میں فرقہ وارانہ سیاست کرنے میں سبقت حاصل کرنے کا عمل مختلف جماعتوں میں دیکھا جارہا ہے، جس سے مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
1  ستمبر2023ءمیں مہاراشٹر کے پوسے ساؤلی ضلع ستارا کے فسادات کے بعد بھی کانگریس اور راشٹروادی کے کسی بڑے قائدجیسے شردپوار، ادھو ٹھاکرے، ناناپٹولے نے اس گاؤں کا دورہ کر مقتول نوجوان انجینئر نورالحسن کے گھر والوں سے ملاقات نہیں کی۔ شیوسینا ادھو ٹھاکرے سے تو امید لگانا بے معنی ہے۔
2  جولائی 2024 ءکولہاپور ضلع کے وشال گڑھ اور غازہ پور میں مسلم بستی، مسجد اور درگاہوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس پر کسی بھی سیکولر جماعت نے راستہ پر اتر کر احتجاج نہیں کیا۔
3  اگست 2024ءمیں رام گیری مہاراج اور نتیش رانے کے اشتعال انگیز بیانات آئے، مہاراشٹر میں حز ب اختلاف نے صرف بیان بازی سے کام لیا۔
30 اگست 2024 ءکو ممبئی کو ٹرین سے سفر کر رہے ایک72سالہ بزرگ کو شرارتی نوجوانوں نے گوشت رکھنے کے الزام میں ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا تو مہاوکاس آگھاڑی کی جانب سے صرف جتیندر آوھاڑسرگرم دکھائی دئے۔ ان کی سرگرمی کی دوسری وجہہ ان کے علاقہ اسمبلی کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً 50فی صد ہے۔
جب ملک بھرمیں وقف بورڈقانون میں ترمیم پر بحث عروج پر تھی اسی درمیان 5ستمبر 2024ءکو ہماچل پردیش اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر انیرودھ سنگھ نے شملہ میں واقع مسجدکو دو دن میں منہدم کرنے کی مانگ اسمبلی میں کی۔یاد رہے کہ ریاست میں کانگریس زیر اقتدار ہے۔ وہ صرف اتنے پر نہیں رُکے بلکہ مسلمانوں کے تئیں شدید تعصب کرتے ہوئے لو جہاداور مسلمانوں کی آبادی پر غیر مناسب بات کہی۔ان کے بیان کا اثر یہ ہواکہ سنجولی شملہ کی اس مسجد کے خلاف بی جے پی اور ہندوتوادی تنظیموں نے دوسرے دن شدیداحتجاج کیا۔
9  ستمبر2024 ءکومہاراشٹر کے چند رپور سے کانگریس کے نو منتخبہ لوک سبھا ممبرنے کُنبی سماج کے ایک اجلاس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو مقامی سطح پر پارٹی میں اہم عہدے دینے کی وہ سخت مخالفت کرتے ہیں اورپارٹی کے اعلیٰ قائدین سے کہا کہ مسلمانوں کی قیادت میں مقامی سطح پر کام کرنے کی روایت کوجلد بدلا جائے۔
10  ستمبر2024ءکو کانگریس کے قائد راہول گاندھی امریکی دورے پر گئے۔اپنے دورہ میں ایک انٹرویومیں انھوں نے سکھ سماج کا نام لے کر ان پر ظلم کی بات تو کہی لیکن مسلمانوں کے نام سے پرہیز کیا۔
11 ستمبر 2024ءکو کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی جانب سے امیدواروں کی فہرست کا اعلان کیا گیا۔ اس میں ایک نام نے تنازعہ کھڑا کردیا۔بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اورکٹھوا میں ایک نابالغ مسلم لڑکی آصفہ کی عصمت ریزی اور قتل کے بعد ملزمین کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے والے چودھری لعل سنگھ کو امیدواری دی گئی۔
حزب اختلاف کی بے حسی اور مسلمانوں کا سیاسی استحصال:
مسلمانوں کے حوالے سے سیاسی بے حسی کا اصل سبب یہ ہے کہ حزبِ اختلاف جانتا ہے کہ بی جے پی حکومت میں جتنا زیادہ مسلمانوں پر ظلم ہوگا، وہ اتنے ہی زیادہ کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے۔حزبِ اختلاف کی بعض جماعتیں مسلمانوںکے مسائل پر وہ فعال کردار ادا نہیں کر پارہی ہیں جو ان سے متوقع ہے۔ اسی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مہاوکاس آگھاڑی نے گزشتہ لوک سبھا میں ایک بھی مسلم کو امیدوار نہیں بنایا۔ ملک میں ایسے کئی معاملے ہوئے جہاں مسلمانوں پر ظلم زیادتی ہوئی ہے لیکن راہل گاندھی اور دیگر حزب اختلاف قائدین نے کبھی مظلومین کے گھر جاکر لواحقین کو پُرسہ نہیں دیا۔ راہول گاندھی اکثر لفظ مسلم کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ حزب اختلاف جانتا ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں مسلمانوں پر جتنا ظلم ہوگا، مسلمان اتنا ہی ان کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے۔ اسی وجہ سے وہ خاموش رہ کر تماشہ دیکھتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمان ان کی جانب متوجہ رہیں گے۔مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے بعد حزب اختلاف کی خاموشی بی جے پی اور آرایس ایس کے ایجنڈے کی توثیق کرتی دکھائی دیتی ہے۔
بی جے پی مخالف سیاست اور مسلمانوں کی ترجیحات:
جہاں بعض سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز کر رہی ہیں، وہاں ایسی بھی جماعتیں ہیں جو ان مسائل پر بیباکی سے بات کرتی ہیں۔مہاراشٹر اور پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ سیاسی حکمت عملی کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ ان سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور عملی اقدامات کی بجائے صرف بی جے پی کو شکست دینے کے قابل جماعتوں کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ طرز عمل طویل المدتی مفاد میں ان جماعتوں کی حمایت پر توجہ دینے کے بجائے ان جماعتوں کے ساتھ ہوتا ہے جو فوری طور پر بی جے پی کے خلاف مضبوط نظر آتی ہیں، کیونکہ بی جے پی کو اکثر اقلیتوں کے حقوق کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM)، ونچت بہوجن آگھاڑی (VBA)، کمیونسٹ پارٹی(CPI, CPI-M) اور سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) جیسی جماعتیں اکثر پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں۔ تاہم انتخابات کے دوران مسلمانوں کی اکثریت ان جماعتوں کو نظر انداز کرتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم اشرافیہ کو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ چھوٹی جماعتوں کی حمایت کرنے سے اپوزیشن کا ووٹ تقسیم ہو سکتا ہے، جو بالآخر بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں کئی انتخابات میں ہوا ہے۔مہاراشٹر میں، ونچت بہوجن آگھاڑی، جس کی قیادت پرکاش امبیڈکر کر رہے ہیں، نے دلتوں اور مسلمانوں جیسے پسماندہ گروہوں کا اتحاد بنانے کی کوشش کی ہے۔اسی کوشش کی کامیابی یہ رہی کہ مہاراشٹر کی اورنگ آباد لوک سبھا نشست پر امتیاز جلیل کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم، ان کی آزادانہ انتخابی حکمت عملی کو بعض اوقات سیکولر اتحاد کو کمزور کرنے کے طور پر دیکھا گیا ہے، جس سے بالواسطہ طور پر بی جے پی کو فائدہ پہنچا ہے۔ اگرچہ VBA نے ہندوتوا سیاست کو چیلنج کرنے اور ‘ونچت یا پسماندہ طبقات کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کام کیا ہے، لیکن ان کا ہمیشہ بڑے مخالف بی جے پی اتحاد میں شامل نہ ہونا ملا جلا نتیجہ رہا ہے۔اس طرح، مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف وہ بڑی جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو ہمیشہ ان کے مسائل کو ترجیح نہیں دیتیں، اور دوسری طرف وہ ان چھوٹی جماعتوں کی حمایت سے کتراتے ہیں جو براہ راست ان کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن قومی یا ریاستی سطح پر اتنی طاقتور نہیں ہیں کہ وہ غالب سیاسی قوتوں کو چیلنج کر سکیں۔
مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
موجودہ سیاسی صورتحال میں، یہ واضح ہے کہ صرف بڑی سیاسی جماعتوں پر انحصار کرنے سے مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کریں اور درج ذیل اقدامات پر غور کریں:
سیاسی بیداری اور خودمختاری: مسلمانوں کو سیاسی شعور پیدا کرنا ہوگا اور اپنی کمیونٹی کی سیاسی آواز کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ووٹنگ کے دوران قائدین کے وعدوں اور ان کے عمل کا جائزہ لے کر سوچ سمجھ کر ووٹ دینا چاہیے۔ صرف ووٹ ڈالنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا؛ بلکہ ایسی جماعتوں اور نمائندوں کو چننا ہوگا جو واقعی مسلمانوں کی بہتری کے لیے کام کریں۔
نئے سیاسی متبادل تلاش کریں: جیسا کہ مضمون میں ذکر ہے، کئی جماعتیں جیسے کہ مجلس اتحادالمسلمین، ونچیت بہوجن آگھاڑی، اور سوشلسٹ جماعتیں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن انہیں انتخابات میں خاطر خواہ حمایت نہیں ملی۔ جن نشستوں پر ممکن ہے کہ یہ جیت سکتی ہیں،مسلمانوں کو ان چھوٹی جماعتوں کے امیدواروں کی طرف دیکھنا چاہیے جو ان کے مفادات کے قریب ہوں، بجائے اس کے کہ وہ ہمیشہ بڑے اور مقبول ناموں کے پیچھے جائیں۔
مسلمانوں کے اندر قیادت کی مضبوطی: مسلمانوں کو اپنی صفوں میں قیادت کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر مسئلے پر دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے، خود اپنے قائدین کو تیار کریں، جو ان کے مسائل کو سامنے لانے اور ان کے حقوق کی لڑائی لڑنے میں معاون ہوں۔
اتحاد کی حکمت عملی: مسلمانوں کو دوسری مظلوم اور پسماندہ کمیونٹیوں کے ساتھ مل کر اتحاد بنانا ہوگا، جیسے کہ دلت، قبائلی اور دیگر اقلیتی گروہ۔ اس سے ان کا اجتماعی سیاسی اثر بڑھے گا اور سیاسی جماعتوں کو ان کے مطالبات پر غور کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا پڑے گا۔
سماجی خدمت اور ترقیاتی کاموں میں کردار: مسلمانوں کو سیاسی عمل سے باہر بھی سماجی خدمت اور کمیونٹی کی ترقی میں حصہ لینا چاہیے۔ اس سے ان کی ساکھ بہتر ہوگی اور عوامی سطح پر ان کی پذیرائی بڑھے گی۔
مضبوط میڈیا اور سوشل میڈیا حکمت عملی: مسلمانوں کو اپنی آواز کو میڈیا میں موثر طریقے سے پہنچانے کے لیے طاقتور حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں تاکہ اپنے مسائل کو اجاگر کرسکیں اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو اس سے آگاہ کریں۔
مسلمانوں کوایک مضبوط اور فعال حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ انہیں اپنی قیادت کو پروان چڑھانا ہوگا، نئی سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کرنا ہوگا، اور سماجی و سیاسی میدان میں خود کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی نمائندگی بہتر بنا سکیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے