किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

شب برات شب قدر کی بے قدری کا سبب؟ (ایک نقطہ نظر)

تحریر:ذکی نور عظیم ندوی - لکھنؤ

نزول قرآن کے سلسلہ میں قران کریم میں خاص طور پر سورہ دخان کی پہلی آیت "(میں نے (قرآن) ایک مبارک رات میں نازل کیا)” اور سورہ قدر ” (میں نے(قرآن) قدر و منزلت والی رات میں نازل کیا)۔۔” خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جب کہ سورہ بقرہ کی آیت 185 ماہ رمضان میں نزول قرآن کی صراحت کرتی ہے، قرآن کی ان قطعی،صریح اور واضح آیات کے باوجود بھی امت میں اختلاف کا اتنا زور اور عمومی مزاج پایا جاتا ہے کہ اس کے باوجود نزول قرآن کے سلسلہ میں بعض اہل علم شعبان کی 15 ویں شب مراد لیتے ہیں تو دوسرا بڑا طبقہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں آنے والی القدر” مراد لیتا ہے۔
سورہ دخان کی پہلی آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں بعض مفسرین سیایک قول شعبان کی 15 ویں شب مراد لینے اور بعض ان اقوال کی بنیاد پر جن کو حدیث قرار دیاجاتا ہے کی وجہ سے اس رات کو سالانہ تقسیم امور، گناہوں کی مغفرت اور خصوصی رحمت کی رات مانتے ہوئے اس میں بیدار رہ کر عبادت کرنے، خاص طور پر قبرستان جانے اور اس دن کے روزہ کا اس قدر اہتمام کیا جاتا ہے کہ ماہ رمضان اور شب قدر کی راتوں میں بھی وہ اہتمام دیکھنے کو نہیں ملتا۔ جب کہ شیعہ حضرات پندرہ شعبان کو اپنے امام غائب کی پیدائش کا دن مان کر اچھے کھانے، حلوے، آتش بازی، چراغاں، جھنڈے اور چہل پہل کرتے ہوئے اس دن کو تہوار کی طرح مناتے ہیں جس میں دوسرے طبقہ کی بھی ایک تعداد شعوری یا غیر شعوری طور پر یا بطور تفریح بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
یہ غلط نہیں کہ پندرہویں شب کی فضیلت کے سلسلہ میں مختلف کتب حدیث میں تقریباً 10یا اس سے بھی زائد صحابہ کرام سے منسوب حدیثوں کا حوالہ دیا جاتا ہے،جس کی بنیاد پر بعض اہل علم کی رائے ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کہ تحقیق حدیث کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے کسی بھی حدیث کی صحت کے اعلی رتبہ یا قابل استدلال ہونے پر پورا نہ اترنے پر تقریبا تمام معتبر محدثین کا اتفاق ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی نسل در نسل اور آباء و اجداد کے دور سے اس کو منانے والے طبقہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر چہ انفرادی طور پر وہ حدیثیں ضعیف ہیں لیکن وہ سب حدیثیں آپس میں مل کر ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اور اس طرح ان کو بطور استدلال پیش کرتے ہوئے ان کوکسی قدر قابل عمل تصور کرنے میں کیا حرج ہے؟ اور جب معاملہ رات میں عبادت، تلاوت، دن میں روزہ رکھنے اور غریبوں و مسکینوں کو کھانا کھلانے جیسے اعمال صالحہ کا ہے تو پھر اس پر اس قدر واویلا اور اعتراض سمجھ سے پرے ہے۔
اس مسئلہ کی حقیقت تک پہونچنے کے لئے یہا ں ایک اور زاویہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شب برات کے سلسلہ میں کمزور حدیثوں سے وارد تقریبا تمام مشہور فضیلتیں جیسے سالانہ تقسیم امور، گناہوں کی مغفرت، رزق کے فیصلے، فرشتوں کے نزول اور امن و سلامتی کی ضمانت وغیرہ قرآن کی صریح آیتوں اور بیشتر کتب حدیث میں شب قدر کے سلسلہ میں بیان کی گئی ہیں اور وہ تمام امور اعلی ترین سندوں سے اس حد تک وارد ہیں جس کا انکار ناممکن ہیاور ان میں سے بیشتر امور تو قران کریم میں صریح طور پر شب قدر کے تعلق سے سورہ قدر میں ہی مل جاتی ہیں، اور اس رات کا خود اہتمام کرنے کے ساتھ ا ہل خانہ کو بھی اس کی طرف توجہ دلانے اور اس میں بیدار رہ کر تلاوت و عبادت اور دعا کا خود نبی اکرم ؐ کا بھی معمول تھا اور امت سے بھی تاکید کے ساتھ اس کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ سطور لکھتے وقت یہ خوف بھی میرے ذہنوں سے اوجھل نہیں کہ مجھ سے ویسے ہی اعمال صالحہ میں بے شمار کوتاہیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں اور یہاں میں ایک ایسی رات میں خصوصی اہتمام کے ساتھ عبادت، تلاوت ،اور نماز و روزہ سے روکنے پر زور دے رہا ہوں جس کی بے شمار فضیلتیں میرے بعض اساتذہ کرام بھی بیان کرتے نہیں تھکتے۔ کیا مجھے ان محسنین کی مخالفت اور ان کی شان میں گستاخی میں بھی ذرہ برابر جھجھک اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی؟ میرا نفس بھی مجھ سے بار بار سوال کر رہا ہے کہ ذکی میاں! تمھیں کیا ہو گیا ہے تم کس راستہ پر چل پڑے ہو، تم صرف شب برات کے ہی منکر نہیں ، تم تو نبی اکرم ؐ کی یوم پیدائش کی عظمت کو بھی قبول نہیں کرتے، شب معراج کو بھی عام مسلمانوں کے حق میں عام رات کہتے ہو ،خاص موقعوں پر اکابرین کے بتائے گئے وظائف کی مخالفت میں بھی پیچھے نہیں رہتے، نصوص سے ثابت نہ ہونے والے الگ الگ پریشانیوں اور بیماریوں کے لئے بزرگوں کی اپنی طرف سے بتائی گئی الگ الگ دعائیں بھی تمھیں سمجھ میں نہیں آتیں؟ ذرا غور کرو قرآن میں سورہ قلم کی آیت 12 میں نیکیوں اور بھلائیوں سے روکنے والے کا کس انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے اور اس کی کتنی مذمت کی گئی ہے۔ تم نے ملک وبیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے ،ہر موقعہ پر قرآن و حدیث کی رٹ لگائے رہتے ہو،کیا تمہاری نظر اللہ، اس کے رسول اور اسلامی تعلیمات کے راستے میں روڑا بننے والوں کے سلسلہ میں آنے والی آیات پر نہیں پڑی اور ان کے بارے میں وعیدوں کو بھی تم نے نظر انداز کردیا؟
یقینا ہر انسان کو وقتا فوقتا اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اوراپنے محاسبہ سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ میں نے بھی یہ سطور بار بار اللہ سیحق فہمی اور اس کی توفیق کی دعا کے ساتھ کئی سال غورو فکر کے بعد لکھنے کا فیصلہ کیاہے۔کیونکہ میں نے اس پہلو پر کافی غور و خوض کیا کہ اگر 15 شعبان اور دیگر بیان کئے گئے امور سے متعلق دلیلیں کسی قدر قابل قبول تصور کرلیں تب بھی وہ اعمال زیادہ سے زیادہ مستحب ہو سکتے ہیں، لیکن اگر وہ فضیلتیں شب برات نہیں بلکہ شب قدر سے متعلق ہیں تو خواہ اس شب کئے گئے اعمال بذات خود اعمال صالحہ ہوں لیکن اس شب خاص طور پر متعین نہ ہونے کی شکل میں بدعت قرار پائیں گی جن کے بارے میں نبی اکرم ؐکی صریح حدیث ہے کہ بدعت ایسی گمراہی ہے جس کا انجام دوزخ ہے۔ لہذا یہ بات کیسے معقول ہوسکتی ہے کہ ایک مشتبہ و مشکوک مستحب عمل کی خاطر کو ئی شخص ایک ایسے بڑے جرم کا مرتکب ہو جائے جس کی سزا دوزخ قرار دی گئی ہو۔
یہاں اس حقیقت کو بھی ضرور مد نظر رکھیں کہ جب کسی معاشرہ میں بدعتیں رواج پاتی ہیں اور غیر دینی امور دین سمجھ کر انجام دیئے جانے لگتے ہیں تو ثابت شدہ سنتیں کمزور ہونے لگتی ہیں، اس کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہونے لگتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس سماج میں شب برات منایا جاتا ہے وہاں شب قدر جیسی عظیم نعمت کی طرف سے بے توجہی عام ہوجاتی ہے اور اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ شب برات میں غیر ضروری اہتمام شب قدر کی بے قدری کا سبب اور بے شمار محرومیوں کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
zakinoorazeem@gmail.com

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے