किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

شب برأت احادیث کی روشنی میں

ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی

اَحادیث مبارکہ سے شعبان المعظم کی 15 ویں رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں، لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسولؐنے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔
شب برأت کے پانچ خصائص:شب برأت کو اللہ تعالیٰ نے پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا:اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔اس رات میں عبادت کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتاہے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف سوفرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں۔رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ حضورؐنے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ اس رات بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے۔‘‘گناہوں کی بخشش اور معافی کے حصول کی رات ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: بے شک اس رات اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری پر اصرار کرنے والے کے۔اس رات اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو مکمل شفاعت عطا فرمائی اور وہ اس طرح کہ حضورؐ نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو آپؐ کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپؐ نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ ؐ کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپؐ نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپؐ کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی سوائے اس شخض کے جو مالک سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے (یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو)۔
شبِ برأت میں حضور ؐ کا عمل مبارک:امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے طویل حدیث مبارکہ بیان کی:’’حضورؐ رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں: میںنبی کریمؐ کے پیچھے گئی تو میں نے آپؐ کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں، عورتوں اور شہداء کے لیے استغفار کرتے پایا، پس میں واپس آگئی۔ رسول ؐ تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے تمام صورتحال بیان کی تو آپؐنے فرمایا: ابھی جبریل میرے پاس آئے اور کہا: آج شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے مگر مشرکین، دل میں بغض رکھنے والوں، رشتہ داریاں ختم کرنے والوں، تکبر سے پائنچے لٹکانے والوں، والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ اس رات بھی توجہ نہیں فرماتا (جب تک کہ وہ خلوص دل سے توبہ نہ کرلیں)۔ اس کے بعد حضور ؐ نماز میں کھڑے ہو گئے۔ قیام کے بعد حضور ؐ نے ایک طویل سجدہ کیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: مجھے گمان ہوا کہ حالت سجدہ میں آپ ؐکا وصال ہوگیا ہے۔ میں پریشان ہو گئی اور میں نے آپؐ کے تلوئوں کو چھوا اور ان پر ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی۔ اس پر مجھے خوشی ہوئی۔ اس وقت حالت سجدہ میں حضور ؐ یہ دعا پڑھ رہے تھے:’’اے اللہ میں تیرے عفو کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں، تیری رضا کے ساتھ تیرے غضب سے پناہ چاہتا ہوں اور تیرے کرم کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں کماحقہ تیری تعریف نہیں بیان کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے‘‘۔صبح جب حضرت عائشہؓ نے حضورؐ سے ان دعائوں کا تذکرہ کیا تو آپ ؐ نے فرمایا: اے عائشہ! یہ دعائیں خود بھی یاد کر لو اور دوسروں کو بھی سکھائو۔ مجھے جبریل نے (اپنے ربّ کی طرف سے) یہ کلمات سکھائے ہیں اور انہیں حالت سجدہ میں بار بار پڑھنے کو کہا ہے۔‘‘
علامہ البانیؒ نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کی رات کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں تو ان لوگوں کا یہ کہنا جلد بازی کا نتیجہ ہے، ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ (سلسلۃالاحادیث) آپ نے اصلاح المساجد کے مؤلف علامہ شام محمد جمال الدین القاسمی کے اس شب کے سلسلہ میں کسی صحیح حدیث کے نہ ہونے کے حکم و فیصلہ پر کلام فرمایا ہے کہ حدیث بطریق مالک بن عامر بن معاذ ابن جبل عن النبی مروی ہے (جو اوپر گزری ہے) اس حدیث کی تخریج حضرت ابن ابی عاصمؒ نے ’السنہ‘‘ میں اور حضرت ابن حبان نے ’’صحیح‘‘ میں کی ہے، اس کے رجال ثقہ ہیں اور حدیث صحیح ہے اس لئے مصنف کا قول کہ شعبان کی پندرہویں رات کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے، ناقابل توجہ ہے، ہاں اس سے بدعات کا جواز البتہ نہیں نکلتا۔ (اصلاح المساجد) شب برأت کے سلسلہ میں بعض مروی احادیث ’’صحیح‘‘ کچھ ’’حسن‘‘ اور ایک حدیث ’’مرسل جید‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ساری احادیث کی سند کمزور ہے لیکن اس سلسلہ میں حضرات صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد سے روایات موجود ہیں۔ حضرت حسن بصریؒ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی روایات نقل کی ہیں اور علامہ سیوطیؒ نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب ’’الدرالمنثور‘‘ میں پندرہ سے زائد احادیث مرفوعہ موقوفہ ذکر فرمائی ہے۔ اسی تعداد کی طرف اور کثرت روایات کی بنا پر ان ضعیف روایات کو بھی ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوریؒ نے شب برأت سے متعلق مروی احادیث بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ’’یہ احادیث مجموعی اعتبار سے ان لوگوں کے خلاف حجت و دلیل ہیں، جن کا یہ خیال ہے کہ پندرہویں شعبان کی فضیلت کے سلسلے میں کچھ ثابت نہیں ہے۔ (تحفۃ الاحوذی) مذکورہ بالا مسلمہ حقیقت کے باوجود امت مسلمہ کی ایک تعداد شب برأت کی مشروعیت کی منکرہے اور دن رات میں کئے جانے والے اعمال خیر کو لغو اور بدعت قرار دیتی ہے اور اس سلسلہ کی ساری احادیث کو ضعیف، موضوع اور من گھڑت خیال کرتی ہے لیکن ان لوگوں کا یہ فکر و خیال بالکل حقیقت سے دور ہے بلکہ صحیح اسلام کے بالکل برعکس ہے کیونکہ شب برأت کے سلسلہ میں مروی احادیث مبارکہ اور اکابرین امت حضرات محدثین و محققین کے اقوال کے ساتھ ساتھ اسلاف امت حضرات تابعین عظام خالد بن معدان، لقمان بن عامر اور مکحول رحمہم اللہ اور امام اسحاق ابن راہویہؒکے عملی نمونے سے بھی اس رات کی فضیلت و اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ (ماثبت بالسنہ) دعا ہے کہ اللہ رب العزت تمام امت مسلمہ کو بدعات و خرافات اور تمام غیر اسلامی مروجہ رسومات سے اجتناب کرتے ہوئے اس اہم اور مبارک رات کی سعادتوں، رحمتوں اور برکتوں سے مستفیض فرمائے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے