किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

غزہ اور مہذب دنیا

محمد صادق کھوکھر لیسٹر

غزہ اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ نے دنیا میں مغربی اقوام کی منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ خود کو مہذب کہلانے والے ممالک اس بار پوری طرح عیاں ہوئے ہیں لیکن ان کی ہٹ دھرمی دیکھئے اب بھی یہ ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہوئی بلکہ دل اندھے ہو چکے ہیں۔ اکیسویں صدی کی تہذیب پر نازاں ہونے والوں کا رویہ پتھر کے زمانے کے انسان سے چنداں مختلف نہیں، ورنہ نو مولود بچوں کو بموں سے اڑانے والوں کی طرف داری کرنا انتہائی سفاکی، بد دیانتی، بد تہذیبی، منافقت اور ہٹ دھرمی ہی کہلائے گی، یہی وجہ ہے کہ عوام بھی برسرِ اقتدار طبقے کی ہٹ دھرمی سے تنگ آچکے ہیں، شدید ترین سردی میں یورپی ممالک میں بڑے بڑے جلوس اسی حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں، امریکی رویے کو دیکھئے، غزہ پر اسرائیلی چڑھائی ہوتے ہی امریکی صدر بائیڈن اسرائیل جا پہنچے، یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی امریکی صدر لڑائی کے دوران اسرائیل گیا ہے۔ ورنہ اسرائیل کی عربوں کے ساتھ کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔ کوئی امریکی صدر ایسی صورتِ حال میں اسرائیل نہیں گیا، ساتھ ہی اسرائیل کیلئے بحری بیڑے بھی بھیجے ہیں، امریکی صدر کی ذہنی پستی کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ عارضی جنگ بندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دوران ضروریاتِ زندگی غزہ نہیں پہنچائی جا سکتی، جب انسان اس حد تک گر جائے تو اس سے انسانی ہمدردی کی توقع کرنا پرلے درجے کی بے وقوفی ہوتی ہے، غزہ کی پٹی دس میل چوڑی ہے جس میں 23 لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔ ایک طرف سمندر اور باقی اسرائیل نے گھیرا ہوا ہے، صرف تھوڑی سی سر حد مصر سے ملتی ہے، مصر بھی در حقیقت اسرائیل کا ہمنوا ہے، اس طرح فلسطینی چاروں طرف سے محصور ہیں،اسرائیل نے زمینی فضائی اور سمندری محاصرہ کیا ہوا ہے، حالیہ جنگ کو تقریبا دو ماہ ہو چکے ہیں، اسرائیل کی بے پناہ گولہ باری سے ابھی تک فلسطینی عوام کے حوصلے بلند ہیں، وہ پامردی سے ظلم و ستم کا مقابلہ کر رہے ہیں، اتنی طویل جنگ اسرائیل نے کبھی بھی کسی قوم سے نہیں لڑی، اسرائیلی شرم و حیا سے بالکل عاری ہو چکے ہیں انہوں نے آج تک اقوامِ متحدہ کی کسی قرارداد کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ان قرار دادوں کی بار بار پامالی ان کا وتیرہ بن چکی ہے، حضرت موسی کے ان نام لیواوں کا کردار فرعون جیسا ہے جو بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر دیا کرتا تھا تاکہ کوئی مقابلے کیلئے پیدا نہ ہو سکے، آج یہی فرعونی عمل اسرائیلی دوہرا رہے ہیں، بلکہ اسرائیل پوری نسل کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے، درجنوں صحافی غزہ میں رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنی جان سے ھاتھ دھو بیٹھے ہیں، ہسپتال، سکول اور رفاعی ادارے چن چن کر تباہ کیے جا رہے ہیں تاکہ زخمیوں کا علاج معالجہ تک بھی نہ ہو سکے، مظلوم سسک سسک کر جان توڑ دیں، یورپی ممالک کی حکومتیں اس ظالمانہ عمل میں اسرائیل کے شانہ بشانہ ہیں، یورپی ممالک میں صرف آئرلینڈ اور سپین نے اسرائیل کی مذمت کی ہے اس کے برعکس لاطینی امریکہ کے تقریبا سارے ممالک اسرائیل کی مذمت میں پیش پیش ہیں، کئی ممالک نیاسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی منقطع کر لیے ہیں، دن بدن اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا حرکت میں آرہی ہے، مسلم ممالک جو آمریت کے شکنجے میں جھکڑے ہوئے ہیں، وہ خاموش ہیں،وہاں بھی آمریت کی چولیں ہلنے کے قریب ہیں، عقل ضمیر اور تہذیب کا تقاضا ہے کہ ظلم کا کبھی ساتھ نہیں دینا چاہئے، ساتھ دینے والے بھی بالآخر ظلم کا نشانہ بنتے ہیں، ہمیں اپنے معاشروں میں عوام کے سامنے مسئلہ فلسطین کو احسن طریقے سے پیش کرنا چاہئے، یہ کام منظم انداز سے ہی سر انجام دیا جا سکتا ہے، ہم جلسے جلوسوں سے رائے عامہ کو تبدیل کر سکتے ہیں، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے اس پر دباو ڈال سکتے ہیں، ممبرانِ پارلیمنٹ سے رابطہ کر کے انہیں مسئلہ کی سنگینی سے اگاہ کر سکتے ہیں، یہ سارے کام وقتی نہیں بلکہ طویل اور ہمہ گیر جدو جہد کا تقاضہ کرتے ہیں، مظلوم فلسطینی عوام کے لیے ہم کم از کم اتنا کچھ تو کر سکتے ہیں، دعا ہے کہ اللہ تعالی فلسطینی عوام کی مدد فرمائے، آمین۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے