किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

کربلا: مقتل سے محراب تک وفا کا سفر

تحریر: خان اجمیری(عرف خان میڈیم)
زوجہ ڈاکٹر خان خرم زبیر
B.sc [Cs & C.B.Z ] B.Ed MCA
ڈائریکٹر اسٹڈی اسمارٹ کوچنگ کلاسیس اردھاپور ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا

حضرت محمد ﷺ کے وصال کے بعد اسلام کی روشنی پھیلتی گئی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نور پر دنیاوی سایے گہرے ہوتے چلے گئے۔ مدینہ میں جہاں کبھی عدل، اخلاق اور تقویٰ کا بول بالا تھا، اب وہاں طاقت، سیاست اور مصلحتوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ خلافت کا تصور جو مشورے اور شفافیت پر مبنی تھا، اب ملوکیت کی شکل اختیار کر رہا تھا۔ یہی وہ نکتۂ آغاز تھا جہاں سے ایک ایسی داستان نے جنم لیا جس کا ہر لمحہ صبر، قربانی، جرات اور وفا سے روشن ہے—اور یہی ہے واقعۂ کربلا۔
جب حضرت معاویہؓ نے خلافت کو اپنے بیٹے یزید کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ عمل اسلامی روایات کے منافی تھا۔ یزید نہ صرف بے دین، شرابی اور ظالم تھا بلکہ اسلامی معاشرے کی قیادت کے قابل ہرگز نہ تھا۔ جب اُس نے تختِ خلافت پر بیٹھ کر تمام مسلم دنیا سے بیعت کا مطالبہ کیا، تو مدینہ منورہ میں چند عظیم المرتبت ہستیوں نے صاف انکار کر دیا۔ ان میں سب سے نمایاں نام حضرت حسینؓ ابن علی کا تھا—نواسۂ رسول ﷺ، جگر گوشۂ فاطمہؓ، اور وارثِ امامت۔
یہاں ہمیں حضرت حسنؓ ابن علی کا تذکرہ ضرور کرنا چاہیے، جنہوں نے اپنے دور میں مسلمانوں کے خون سے بچاؤ کے لیے امیر معاویہؓ سے صلح کی تھی۔ حضرت حسنؓ نے جب دیکھا کہ جنگ سے امتِ مسلمہ تقسیم ہو رہی ہے تو انہوں نے صلح کو ترجیح دی، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ معاویہ کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ ان کا مقصد تھا کہ وقتی طور پر خونریزی سے بچا جائے اور مسلمانوں کو سنبھلنے کا موقع ملے۔ حضرت حسنؓ کی صلح دراصل امام حسینؓ کی کربلا میں قربانی کے لیے ایک تمہید تھی۔ حسنؓ نے صلح کی، حسینؓ نے شہادت دی—دونوں نے دین کو بچانے کے لیے مختلف راستے اختیار کیے، مگر مقصد ایک ہی تھا: حق کو بلند رکھنا۔
یزید کا مطالبہ تھا کہ حضرت حسینؓ اس کی بیعت کریں، مگر امام جانتے تھے کہ اگر وہ ایک فاسق کو خلیفہ مان لیں گے تو آنے والی نسلیں باطل کو حق سمجھنے لگیں گی۔ وہ بیعت کرتے تو شاید خونریزی سے بچ جاتے، خاندان محفوظ رہتا، مگر دین کا جوہر مٹ جاتا۔ چنانچہ امام حسینؓ نے فیصلہ کیا کہ وہ حق پر قائم رہیں گے، چاہے دنیا ان کے خلاف ہو جائے، چاہے جان چلی جائے۔
مدینہ کو چھوڑنا آسان نہ تھا۔ وہی شہر جہاں رسول اللہ ﷺ کا مزار تھا، جہاں فاطمہؓ اور حسنؓ کی یادیں بکھری ہوئی تھیں۔ مگر حسینؓ کے لیے مدینہ میں خاموشی اختیار کرنا، اپنے نانا کی تعلیمات سے خیانت کے مترادف تھا۔ اس لیے وہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ حالات کا بغور جائزہ لے سکیں۔ مکہ میں قیام کے دوران اہلِ کوفہ کے خطوط آنے لگے۔ ان خطوط میں امام سے التجا کی گئی کہ وہ کوفہ آئیں اور یزید کے ظلم سے نجات دلائیں۔ ہزاروں افراد نے وفاداری کے عہد کیے، یہاں تک کہ امام حسینؓ نے اپنے چچا زاد مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ حالات کی تحقیق کریں۔
مسلم بن عقیل کو کوفہ میں ابتدائی طور پر بھرپور حمایت ملی، بیعتوں کا تانتا بندھ گیا، مگر جب ابن زیاد نے سختی اور خوف کا ماحول پیدا کیا، تو وہی لوگ جو کل تک وفاداری کے دعویدار تھے، کنارہ کش ہو گئے۔ مسلم تنہا رہ گئے، گرفتار ہوئے اور شہید کر دیے گئے۔ امام حسینؓ کو یہ خبر اس وقت ملی جب وہ کوفہ کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ اب واپسی ممکن تھی، مگر حسینؓ نے راہِ قربانی کا انتخاب کیا۔
کربلا کی بے آب و گیاہ زمین پر 2 محرم 61 ہجری کو امام حسینؓ کا قافلہ خیمہ زن ہوا۔ ان کے ہمراہ خاندان کے افراد، بچے، عورتیں اور چند جاں نثار اصحاب تھے، کل ملا کر 72 افراد۔ جبکہ یزیدی لشکر ہزاروں پر مشتمل تھا۔ سب سے پہلا ظلم پانی بند کر کے کیا گیا۔ دریائے فرات بہتا رہا مگر حسینؓ کے خیمے پیاس سے تڑپتے رہے۔ بچوں کے لب خشک ہو گئے، عورتوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، مگر امام حسینؓ کے عزم میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی۔
10 محرم، یومِ عاشورہ، وہ دن تھا جسے تاریخ نے اپنے سینے میں سنبھال رکھا ہے۔ امام نے صبح اصحاب کو جمع کیا اور فرمایا کہ رات کا اندھیرا ہے، تمہیں اجازت ہے، دشمن مجھے چاہتا ہے، تم جا سکتے ہو۔ مگر کسی نے ساتھ چھوڑنے کا نام نہ لیا۔ سب نے کہا: "ہم آپ کو چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟”
پھر جنگ کا آغاز ہوا۔ ایک ایک کر کے امام کے جاں نثار شہید ہوتے گئے۔ حضرت علی اکبرؓ، وہ جوان جن کے چہرے میں لوگ رسول اللہ ﷺ کی جھلک دیکھتے تھے، پہلے شہید ہوئے۔ حضرت قاسمؓ، امام کے بھتیجے، جن کی عمر صرف 13 سال تھی، خون میں لت پت ہو کر گرے۔ حضرت عباسؓ، جنہیں "باب الحوائج” کہا جاتا ہے، پانی لانے نکلے، بازو کٹوا بیٹھے، مگر خیموں تک نہ پہنچ سکے۔
جب امام حسینؓ نے اپنے شیرخوار بیٹے علی اصغرؓ کو اٹھا کر پانی مانگا تو ظالم لشکر کے حرملہ نے تیر مارا۔ وہ معصوم بچہ باپ کی گود میں تڑپ کر شہید ہو گیا۔ ظلم انتہا پر پہنچ چکا تھا، مگر حسینؓ کے صبر کا دامن نہ چھوٹا۔
آخرکار امام خود میدان میں اترے۔ زخموں سے چور، پیاس سے نڈھال، مگر ایمان سے بھرپور۔ دشمنوں نے ہر طرف سے حملہ کیا۔ کسی نے نیزہ مارا، کسی نے تیر چلایا، اور شمر ملعون نے امام حسینؓ کا سر تن سے جدا کیا۔ سر نیزے پر بلند کیا گیا، اور لاش بے گور و کفن میدان میں پڑی رہی۔
خیمے جلا دیے گئے، عورتوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ حضرت زینبؓ نے دربارِ یزید میں ایسی خطابت کی کہ سروں کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔ امام زین العابدینؑ، جو بیمار تھے، نے اپنے مختصر مگر دل میں اتر جانے والے کلمات سے ظلم کو ننگا کر دیا۔ یزید کی فتح وقتی تھی، مگر حسینؓ کا پیغام ابدی ثابت ہوا۔
کربلا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ وفا، غیرت، صداقت اور قربانی صرف الفاظ نہیں، بلکہ جینے کے اصول ہیں۔ امام حسینؓ نے اپنے لہو سے وہ چراغ جلایا جو آج بھی اندھیروں میں روشنی دیتا ہے۔ ان کی قربانی نے بتایا کہ حق اور باطل کے معرکے میں نیام میں تلوار رکھنا ظلم کی حمایت کے مترادف ہے۔ امام حسینؓ کا سفرِ کربلا دراصل ایک مسلسل اذیت، صبر، شجاعت، اور عبادت کا سفر تھا، جس میں انہوں نے محراب کی طرح سجدہ کر کے شہادت کو گلے لگایا۔
یقیناً حسینؓ شہید ہوئے، مگر ان کا پیغام زندہ ہے۔ وہ قتل ہو گئے، مگر ان کی قربانی نے قیامت تک کے لیے ایک معیار قائم کر دیا۔ ہم جب بھی وفا، جرات، اور صداقت کا تصور کرتے ہیں، حسینؓ ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ کربلا کی مٹی صرف خون سے تر نہیں، بلکہ وہ ہر اس دل کی ترجمان ہے جو حق پر قائم رہنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
یہی وہ سبق ہے جو ہمیں آج بھی درکار ہے—کہ سچ کے لیے ڈٹ جانا، ظلم کے سامنے جھکنے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جان دے دے۔ امام حسینؓ نے ہمیں یہی سکھایا کہ
’’ظلم کے آگے سر نہ جھکانا، یہی حسینیت ہے۔‘‘
اور یہی ہے کربلا: مقتل سے محراب تک وفا کا لازوال سفر۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے