किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

ہر باپ کو اپنے بیٹے سے بڑی امید ہوتی ہے!!

تحریر: جاوید بھارتی
javedbharti508@gmail.com

یوں تو ہر انسان کے بڑے ارمان ہوتے ہیں اور بڑی خواہشات ہوتی ہیں ، آرزو بھی ہوتی ہے اور جستجو بھی ہوتی ہے مگر یہ دنیا ہے ہزاروں رنگ بدلتی ہے ، جنازہ بھی اٹھتا ہے اور ڈولی بھی اٹھتی ہے ، کسی گھر سے کھانا پھینکا بھی جاتاہے اور کسی گھر میں فاقہ بھی ہوتاہے ، کوئی کسی کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے تو کوئی سکھ چین چھیننے کی کوشش بھی کرتاہے ، کوئی رات کے اندھیرے میں چپکے سے کسی کی مدد کرتا ہے تو کوئی دن کے اجالے میں چار پیسہ ہتھیلی پر رکھ کر ویڈیو گرافی کرتاہے اور وائرل کرکے اس کی خودداری پر ڈاکہ مارتا ہے ، اس کی غربت کا مذاق اڑاتا ہے ، اس کی عزت کی دھجیاں اڑاتا ہے اس پر بھی صبر نہیں ہوتا ہے تو شاہراہوں اور چوراہوں پر خود اپنی ہی زبان سے اپنے چند سکوں کی مدد کا پرچار کرتاہے،، اسے اس بات کا خیال تو رہتا ہے مگر احساس نہیں رہتاہے کہ کسی کے ساتھ احسان کرکے اسے جتلانا انتہائی گھٹیا بات ہے اس سے نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں اور وہ اجر و ثواب کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ ایسا شخص اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے نہیں بلکہ اپنے نام و نمود کے لئے مدد کرتاہے وہ دنیا میں ہی شہرت چاہتاہے اور اپنی شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں وہ دوسروں کی دلآزاری کر بیٹھتا ہے تو پھر کہاں سے وہ آخرت میں اجر و ثواب کا مستحق ہوگا ،، ایک باپ کا یہ ارمان ہوتا ہے کہ میرا بیٹا میری لاٹھی بنے گا میرے مشن کو آگے بڑھائے گا ، میری تحریک کو چار چاند لگائے گا اب یہ اس باپ کے اوپر منحصر ہے کہ اس کا مشن کیا ہے تعلیم وتربیت ہے کہ مساجد ومدارس کی تعمیر و قیام ہے بہر حال باپ کا جو بھی خواب و مشن ہو اس کو آگے بڑھانے میں وہ اپنے بیٹے سے پرامید ہوتاہے،، حال ہی میں ایک باپ نے ایسا مشن چلایا جس پر آج پوری دنیا فخر کررہی ہے اس ملک میں سات ہزار مسجد تعمیر کروائی ، سواسو سے اوپر دارالعلوم قائم کیا ، ڈھائی ہزار مکتب قائم کیا ، سیکڑوں بستیوں میں سمر سیبل لگواکر پانی پینے کا انتظام کیا، بہت سے علاقوں میں اسپتال بنوایا اس کے علاوہ ایک ایسا مدرسہ قائم کیا جس میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کا انتظام ہے، عالمیت و فضیلت کا عظیم الشان انتظام ہے اور ساتھ ہی میڈیکل کالج ، آئی ٹی آئی ، پال ٹیکنک ، انجینئرنگ ، ڈگری کالج ، بی ایڈ سب کچھ ہے جہاں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں علماء￿ ، حفاظ، قر ، ڈاکٹر ، انجینیر ، پروفیسر بن کر نکلتے ہیں جس ادارے سے ہزاروں افراد کو روزگار ملتا ہے ابھی حال ہی میں اس عظیم شخصیت کا انتقال ہوا ہے تو اب بیٹے کے کاندھے پر ساری ذمہ داری آگئی علمی میدان میں اس مرد مجاہد نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیا ہے جو اس ملک میں اب تک کسی نے نہیں کیا اس کے اندر نیک نیتی کا جذبہ سمندر کی لہروں کی طرح موجیں مارتا ہوا دیکھا گیا اس درویش صفت انسان نے اپنے بیٹے کی تربیت بھی اسی انداز سے کی ہے کہ بیٹا بھی بالکل باپ ہی کی طرح ہے،، اس عظیم الشان ادارے کو دیکھ کر لوگ بلاتفریق مسلک و مذہب و مکتب فکر تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ادارے کا نام جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا اور جس نے قائم کیا اس عظیم شخصیت کا نام مولانا غلام محمد وستانوی جن کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور بیٹے کا نام مولانا حذیفہ وستانوی ہے جو اب رئیس الجامعہ ہیں ،،
آئیے اب دیگر تعلقات کو بھی دیکھتے ہیں سب سے پہلے ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹی کی بھی پرورش کرتاہے اور بیٹا تو ماں باپ کے آنگن میں رہے گا مگر بیٹی ایک دن دوسرے کے گھر چلی جائے گی لیکن عجیب حال ہے کہ ایک بیٹا باپ کے آنگن میں رہتاہے تو اس کی آواز سنائی دیتی ہے مگر ایک بیٹی جو پیدا ہونے کے بعد بیس پچیس سال بعد اپنے سسرال چلی جاتی ہے مگر ان بیس پچیس سالوں میں وہ والدین کے ساتھ ایسا حسن سلوک کرتی ہے کہ جب تک والدین زندہ رہتے ہیں ہر روز وہ اپنی بیٹی کے چہکنے و بولنے کی آواز گھر کی چہار دیواری میں محسوس کرتے ہیں بلکہ آواز سنائی دیتی رہتی ہے جبکہ وہ اپنی سسرال میں ہوتی ہے اور بیٹیاں باپ کا کتنا خیال رکھتی ہیں قارئین کرام آپ ایک واقعے سے اندازہ لگاسکتے ہیں ایک باپ اپنی بیٹی کو مالی حالت خستہ ہونے کے باجود بھی اسکول میں داخلہ کراتا ہے اور مہینے کی فیس اپنی بیٹی کے ہاتھوں میں دیتا ہے ساتھ ہی اس کو گھر سے اسکول کے آمد ورفت کا خرچ بھی دیتاہے کئی ماہ گذرنے کے بعد بیٹی اسکول سے دیر میں آنے لگتی ہے باپ کی پیشانی پر گہری لکیریں پڑنے لگیں ، چہرہ اداس ہونے لگا آخر ایک دن باپ اپنی بیٹی سے پوچھتا ہے کہ تم اسکول سے اتنا لیٹ کیوں آتی ہو آخر کیا وجہ ہے کیا اسکول کا ٹائم ٹیبل تبدیل ہوگیا ہے تو بیٹی نے کہا نہیں ،، باپ نے ایک ہفتے بعد پھر یہی سوال اس وقت کیا جب بیٹی اسکول جارہی تھی تو بیٹی نے باپ کے سوال کو بظاہر نظر انداز کرتے ہوئے اسکول کے لئے روانہ ہوگئی اب باپ کی فکر اور بڑھ گئی وہ بہت کچھ سوچنے لگا کہ کہیں میری بیٹی کوئی ایسی غلطی تو نہیں کررہی ہے کہ ہم سماج و معاشرے میں سر اٹھاکر چل نہ پائیں ، کہیں ہماری پگڑی نیلام نہ ہو جائے مگر بیٹی کا مقصد بھی اسی دن پورا ہونے والا تھا اور وہ اپنے ارادے اور مقصد کو تکمیل سے پہلے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی ،، ادھر مسلسل اسکول سے گھر آنے میں تھوڑی دیر ہوجاتی تھی مگر آج کچھ زیادہ ہی دیر ہوگئی باپ کے چہرے پر اداسی بھی ہے اور غصے کے اثرات بھی ،، باپ انتظار ہی کررہا تھا کہ اتنے میں دروازہ کھلتا ہے اور بیٹی گھر میں داخل ہوتی ہے باپ غصے میں کھڑا ہوجاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ اسکول سے آنے میں اتنی دیر کیوں ہوئی بتا میں تیرا باپ ہوں میری باتوں کا جواب دے بیٹی کہتی ہے کہ اسکول سے گھر پیدل آنے کی وجہ سے دیر ہوگئی آج ایک دکان پر چلی گء اس سے اور زیادہ دیر ہوگئی ،، باپ کہتاہے کہ میں تجھے سواری سے اسکول جانے کے لئے پیسہ دیتا ہوں پھر تو پیدل کیوں آتی جاتی ہے بتا سچائی کیا ہے ،، بیٹی اپنی کاپی کتاب کا بیگ رکھنے کے لئے آگے بڑھتی ہے اور بیگ رکھنے کے بعد ایک تھیلی باپ کے ہاتھوں میں تھماتی ہے باپ کہتاہے کہ اس میں کیا ہے تو بیٹی جواب دیتی ہے کہ آپ کے لئے ایک ضروری سامان باپ جب تھیلی کھولتا ہے تو اس میں ڈبہ ہوتا ہے اور ڈبے میں قیمتی جوتا ہوتاہے اب پھر باپ پوچھتا ہے کہ تیرے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے تم نے کیسے یہ جوتا خریدا ،، بیٹی کچھ دیر خاموش رہی پھر جواب دیا ابو آپ کے دئیے ہوئے پیسے کو میں جمع کرتی رہی اور اسکول پیدل جاتی رہی ، گھر پیدل آتی رہی کیونکہ آپ کے پاؤں میں پھٹے ہوئے جوتے دیکھ کر میرا دل مغموم ہوجاتا تھا اور میں نے تہیہ کرلیا کہ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر پیدل آؤنگی اور پیدل جاؤں گی لیکن اپنے باپ کے پیروں میں جوتے ضرور پہناؤں گی آج میرا خواب پورا ہوگیا ،، ابو جان آپ کی بیٹی کبھی آپ کی پگڑی اچھلنے نہیں دے گی اور آپ کی عزت پر آنچ نہیں آنے دیگی باپ آگے بڑھتا ہے اور اپنی بیٹی کی پیشانی چوم لیتاہے اور کہتاہے کہ او میری بیٹی مجھے تجھ پر ناز ہے بس آج کا جو بگڑا ہوا ماحول ہے بس اسی سے میں تھوڑا ڈرا ہوا سہما ہوا تشویش میں مبتلا تھا،، اسی پڑوس کی ایک اور کہانی تحریر کرنا بہت ہی مناسب معلوم ہوتاہے آج کسی کے پاس بیٹے ہی بیٹے ہیں تو وہ بیٹی کے لئے ترستا ہے تو کسی کے پاس بیٹی ہی بیٹی ہے تو وہ بیٹے کے لئے ترستا ہے اور سچائی یہ ہے کہ جس گھر میں بال بچے ہوتے ہیں بیٹے اور بیٹیاں ہوتی ہیں وہ گھر گلدان اور مرتبان کی طرح ہوتاہے مہکتا بھی ہے چہکتا بھی ہے اور کھنکتا بھی ہے مگر قدرت کی دین ہوتی ہے یہ کوئی ایسا سامان تو نہیں ہے کہ بازار سے خرید کر لایا جائے اس بات کو راقم خود محسوس کرتاہے کیونکہ لڑکھڑاتے وقت کوئی سنبھالنے والا نہیں ، کوئی ہاتھ بنٹانے والا نہیں اپنی ہی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو اپنی ہی آنکھوں سے دیکھنا ہے اور خود اپنے آپ کو تسلی بھی دینا ہے کبھی یوں بھی احساس ہوتا ہے کہ جیتے جی بسا اوقات عوامی جھرمٹ میں رہتے ہیں لیکن مرنے کے بعد قبر پر فاتحہ پڑھنے کون جائے گا ؟ خیر اللہ کریم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اللہ کریم ،، ایک گھرانہ گلدان اور مرتبان کی طرح چہک رہا تھا لیکن کچھ دنوں بعد گھر کا سرپرست ریٹائر ہوجاتاہے بیٹیاں اپنی سسرال رہنے لگیں اور بیٹے ملازمت کرنے لگے تو ان لوگوں نے اپنا الگ الگ دور دراز علاقوں میں گھر بنا لیا اور باپ کو تنہا اسی پرانے گھر میں چھوڑ دیا کبھی کوئی حال معلوم کرنے کا روادار نہیں باپ بیچارہ تنہا گھر میں رہتاہے بیوی کا بھی ساتھ چھوٹ چکا ہے وہ اس دارفانی سے کوچ کرچکی ہے روزانہ صبح صبح اخبار والا آتا ہے اور اخبار دیکر چلاجاتا ہے ایک دن وہی اخبار والا دروازے پر آکر گھنٹی بجاتا ہے تو مکان مالک کو دروازے پر آنے میں تھوڑی دیر ہوجاتی ہے اب اخبار والا کہتاہے کہ اگر اتنی دیر کریں گے تو میں آپ کے لئے اخبار نہیں لاؤں گا مکان مالک کی آنکھوں میں آنسو آگئے بولتا ہے کہ ایسا نہ کہو میری بیوی کا انتقال ہوگیا ، دو بیٹیاں تھیں ان کی شادی ہوگئی بیٹے تھے تو ان بیٹوں نے بھی بہت دور گھر بنانے کے ساتھ دوری بھی اختیار کرلی اب جو رشتہ یا تعلق ہے وہ تمہیں سے ہے مجھے میری ہی اولادوں نے بوجھ سمجھا تو میں نے بھی فیصلہ کرلیا ہے کہ میں کسی کے لئے بوجھ نہیں بنوں گا،، بس تم ایک بات مان جاؤ کہ روزانہ اخبار لاؤ گے اور دروازے پر آکر روزانہ گھنٹی بجاؤ گے میں بھی وقت کا خیال رکھوں گا تم گھنٹی بجاؤ گے میں دو منٹ میں دروازے پر آکر اخبار لے لیا کروں گا یہ تمہارا احسان ہوگا وعدہ کرو کہ تم ایسا کروگے اب اخبار والا کہتاہے کہ انکل ضرور میں ایسا ہی کروں گا مگر آپ مجھ سے یہ وعدہ کیوں کرا رہے ہیں اور ایسی باتیں کیوں کہہ رہے ہیں تو وہ مکان مالک کہتا ہے کہ جب مجھے اپنوں نے ٹھکرا دیا تو میں کسی سے سہارا کیسے مانگوں بس تم روز آنا اور روز گھنٹی بجانا جس دن گھنٹی بجانے کے دو منٹ بعد بھی میں دروازے پر نہ آسکا تو پانچ منٹ اور انتظار کرلینا اور پانچ منٹ بعد بھی نہیں آسکا تو سمجھ لینا کہ میرا حرکت قلب بند ہوچکاہے میری روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہے میں اب اس دنیا میں زندہ نہیں رہا ،، بس اب آگے میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم ،، اس کے بعد تم بھی آزاد ہو کیونکہ وعدہ وفا کی منزل تک پہنچ چکا ،، ارے مرنے کے بعد خاندان ، رشتہ دار، دوست و احباب سارے کے سارے لوگ کاندھے پر لے کر چلے ارے جیتے جی کوئی کاندھے پر ہاتھ رکھ کر سہارا دیا ہوتا ، کانپتے ہوئے ہاتھوں میں لاٹھی تھمائی ہوتی، لڑکھڑاتے ہوئے قدم کو سنبھالنے میں مدد کی ہوتی، جب آنکھوں سے آنسو بہتے تو کسی نے ڈھارس بندھائی ہوتی ، غربت و مصیبت کے عالم میں کسی نے ایک ہاتھ کاندھے پر رکھا ہوتا اور دوسرا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا ہوتا اور پیشانی کو چوما ہوتا تو کچھ اور بات ہوتی۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے