किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

احمد آباد طیارہ حادثہ خوابوں کا خون آلود زوال

تحریر: سید شاہ واصف حسن واعظی
رابطہ: 9235555776

ایئر انڈیا کا بوئنگ 787 ڈریم لائنر جیسے ہی شمال مغربی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کی فضا میں بلند ہوا، کون جانتا تھا کہ یہ پرواز اپنے ساتھ صرف جسموں کو نہیں، بلکہ خوابوں، دعاؤں، محبتوں اور مستقبل کی امیدوں کو بھی لے کر روانہ ہو رہی ہے — ایک ایسے اختتام کی جانب، جو تاریخ میں ہمیشہ ایک سیاہ باب کے طور پر لکھا جائے گا۔12 جون 2025 کو پیش آنے والا یہ طیارہ حادثہ نہ صرف احمد آباد بلکہ پورے بھارت کے لیے ایک روح فرسا سانحہ ہے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق اس حادثے میں کم از کم 265 افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان میں طیارے کے اندر موجود 241 مسافر اور عملے کے ارکان شامل ہیں، جبکہ طیارہ جس مقام پر گرا، وہاں موجود بی جے میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں موجود کم از کم 24 افراد بھی اس حادثے کا شکار ہو گئے۔
حکام نے بتایا کہ یہ گزشتہ دہائی کا سب سے ہلاکت خیز طیارہ حادثہ ہے۔ واقعے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طیارے کا ملبہ پوری طرح ہوسٹل کی عمارت پر گرنے کے بعد آگ کی لپیٹ میں آگیا، اور بلڈنگ مکمل طور پر جل کر راکھ ہو گئی۔ جائے حادثہ کی تصاویر میں طیارے کا پچھلا حصہ بلڈنگ سے لٹکتا دکھائی دیتا ہے، جبکہ اگلا حصہ ملبے میں دفن ہو چکا ہے، جس سے دھوئیں کے سیاہ بادل بلند ہوتے نظر آئے۔واقعے میں صرف ایک مسافر معجزانہ طور پر زندہ بچا۔ اس کی شناخت وشواس کمار رمیش کے طور پر ہوئی ہے، جو بھارتی نڑاد برطانوی شہری ہیں۔ یہ تنہا وجود اس قیامت خیز حادثے کی داستان کا زندہ گواہ ہے۔ اسپتال میں داخل وشواس کے مطابق، حادثے کے وقت ایک زور دار دھماکہ ہوا اور طیارہ شدید لرزنے لگا، پھر اچانک زمین کی طرف تیزی سے جھک گیا۔ آنکھ کھلی تو خود کو آگ اور دھوئیں کے درمیان پایا۔ اس کی کہانی انسانی حوصلے اور قدرت کی حکمت کی ایک مثال ہے۔
سانحہ کی تفصیلات سن کر دل دہل جاتا ہے۔ بی جے میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں موجود کئی طلبہ دوپہر کے وقت لنچ کے لیے کینٹین میں تھے یا اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے۔ اسی دوران آسمان سے آیا موت کا پرندہ ان پر آن گرا۔ کچھ طلبہ نے دوسری منزل سے کود کر اپنی جان بچائی، کچھ کو معمولی چوٹیں آئیں، مگر درجنوں ایسے بھی تھے جو ملبے میں دب گئے۔ ان میں سے کئی کے جسم اب بھی شناخت کے منتظر ہیں۔ ہاسٹل کے احاطے میں رشتہ داروں کی چیخ و پکار اور ماؤں کی بین کرتی صدائیں اب بھی گونج رہی ہیں۔حادثے کے فوراً بعد این ڈی آر ایف کی پانچ ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا۔ زخمیوں کو احمد آباد کے سول اسپتال منتقل کرنے کے لیے گرین کوریڈور بنایا گیا۔ اسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ سوشل میڈیا پر خون عطیہ کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں، اور ہر طرف ایک بیچینی سی چھائی ہوئی ہے۔یہ محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ ایک ایسا لمحہ ہے جس نے وقت کو روک دیا ہے۔ ہر ماں، ہر باپ، ہر دوست، ہر استاد اب اپنی نظریں اس فہرست پر جمائے بیٹھا ہے کہ کہیں اس کا کوئی اپنا تو اس میں شامل نہیں۔ یہ وہ لمحے ہیں جو صرف جسم کو نہیں، دل و دماغ کو بھی جھنجھوڑ دیتے ہیں۔
پریس کانفرنس میں ایئر انڈیا کے افسران نے بتایا کہ جہاز کے پرواز کے صرف چھ منٹ بعد ہی ریڈار سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ سوال یہ ہے کیا یہ پائلٹ کی غلطی تھی؟ کیا یہ تکنیکی خرابی کا نتیجہ تھا؟ یا کیا کنٹرول ٹاور کی کسی کوتاہی نے یہ قیامت نازل کی؟ ان سوالوں کے جواب وقت کے ساتھ آئیں گے، لیکن جن کے پیارے اب اس دنیا میں نہیں، ان کے لیے کوئی جواب کافی نہیں۔ ان کے لیے وقت تھم چکا ہے، اور صبر ہی اب واحد سہارا ہے۔ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں ہوائی سفر عام ہو چکا ہے، لیکن زندگی مسلسل غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے۔ جب ایک جدید، بین الاقوامی سطح کے طیارے کے ساتھ ایسا سانحہ ہو جائے، تو یہ صرف ٹیکنالوجی یا انتظامیہ کا مسئلہ نہیں رہتا — یہ ایک اجتماعی بیداری کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہمیں ان تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا جو ایسے حادثات کا سبب بنتے ہیں، تاکہ آئندہ کوئی ماں اپنے لخت جگر کو ایک یونیورسٹی میں چھوڑنے کے بعد اس کی لاش لینے پر مجبور نہ ہو۔
حادثے کے بعد وزیراعظم نے واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔ شہری ہوا بازی کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ بوئنگ کمپنی کے تکنیکی ماہرین کو بھی بھارت مدعو کیا گیا ہے تاکہ وہ بھی تحقیقات میں شامل ہوں۔ لیکن یہ سب تب تک بے معنی ہیں جب تک زمینی سطح پر اصلاحات نہ ہوں، جہازوں کے معائنے میں سختی نہ کی جائے، پائلٹس کی تربیت اور دماغی صحت پر سنجیدگی سے کام نہ ہو، اور ایمرجنسی انتظامات کا از سر نو جائزہ نہ لیا جائے۔یہ حادثہ ہر حساس دل پر ایک چوٹ ہے، ہر باضمیر انسان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ میڈیا کی چیخ و پکار، سیاستدانوں کے بیانات، اور سرکاری تحقیقات کے وعدے سب وقتی ہیں۔ لیکن جو چہرے ملبے کے نیچے سو گئے، ان کے لیے وقت ہمیشہ کے لیے رک گیا ہے۔ہمیں بطور قوم اس لمحے کو صرف سوگ میں نہیں، سبق میں بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنی پالیسیوں، ہوابازی کے نظام، ایمرجنسی مینجمنٹ، اور انسانی حفاظت کے لیے سخت اور پائیدار اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیونکہ ہر حادثہ صرف خبر نہیں ہوتا، وہ کل کسی اور کے ساتھ پیش آ سکتا ہے، اور شاید اس کے بعد موقع بھی نہ ملے۔اس سانحے نے نہ صرف جسموں کو جلا ڈالا بلکہ ایک پوری نسل کے خواب بھی اس آگ کی نذر ہو گئے۔ ایک لڑکی جو لندن میں طب کی تعلیم کے لیے جا رہی تھی، ایک بزرگ جو اپنے بیٹے سے ملنے جا رہے تھے، ایک نوجوان جو بیرون ملک نوکری کے لیے جا رہا تھا — سب کے خواب، امیدیں، اور منزلیں راکھ ہو گئیں۔اس دردناک حادثے نے ہمیں یہ باور کرایا ہے کہ انسانی زندگی کتنی نازک اور قیمتی ہے۔ یہ سانحہ ہمارے لیے ایک گہری سوچ کا موقع ہے کہ ہم اپنی حفاظت، ٹیکنالوجی، اور انتظامیہ میں کیا تبدیلیاں لائیں تاکہ ایسی آفات دوبارہ نہ ہوں۔ اس کے علاوہ، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس کرنا ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے کتنے اہم ہیں، اور کس طرح ایک دوسرے کا ساتھ دے کر مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
آخر میں، یہ وہ لمحہ ہے جہاں انسان اپنی کمزوری، ناتوانی اور فانی ہونے کا شدید احساس کرتا ہے۔ یہی احساس ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی زندگی کو محفوظ بنانا ہے بلکہ اپنی آخرت کی تیاری بھی کرنی ہے، کیونکہ نہ موت کا وقت معلوم ہوتا ہے، نہ اس کی صورت۔یہ سانحہ صرف ایک طیارے کا حادثہ نہیں، یہ ایک پوری نسل کے خوابوں کا گر جانا ہے۔ دعائیں ان کے لیے جو جا چکے، ہمدردی ان کے لیے جو زخمی ہیں، اور بیداری ہمارے لیے جو ابھی زندہ ہیں۔

 

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے