किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

معالج!’تجھے دردِ دل دے میرا خدا‘

ایم شفیع میر،جموں و کشمیر

اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر /طبیب ایک مسیحا ہوتا ہے ، مریض کی خدمت کرنا نہ صرف ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہوتی ہے بلکہ اخلاقی اور انسانی فرض بھی بنتا ہے ،مریض علاج سے زیادہ ڈاکٹر کے اخلاق سے شفا پاتاہے ،ماضی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بے شمار ایسے طبیب ہو گزرے ہیں جنھوں نے مسیحائی کے اِس پیشہ کا سو فیصدی حق ادا کیا ہے۔عملی طور اطباء علم کا مظاہرہ کر کے دکھایا جس کے دور رَس نتائج آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ماضی کے طبیبوں کی لامثال خدمات کی بے شمار مثالیں ہمارے اطراف و اکناف میں بکھری پڑی ہیں جنہیں آج بھی زمانہ بڑے احترام سے یاد کر رہا ہے۔گزرے زمانے کے حقیقی مسیحا(طبیبوں/ڈاکٹروں )کی خدمات واقعی مثالیں تھیں، اِس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کے ماضی کے طبیبوں کوایسی طبی سہولیات یعنی مشیبری میسر نہیں تھی جس کے ذریعے وہ مریضوں کی تشخیص کرسکتے لیکن اْن کے اخلاق اور طرزِ تشخیص میں وہ جادوئی اثر تھا کہ مریض کی نبض دیکھ کر ہی وہ مریض کی بیماری کا پتہ لگاتے تھے۔ماضی کے ڈاکٹر واقعی نبض شناس اورچہرہ شناس تھے جومریضوں کی نبض دیکھ کر اور چہروں کو پڑھ کر بیماری کا مکمل اندازہ لگاتے تھے اور پھر مریض کے علاج و معالجہ کیلئے ہر وہ ممکن کوشش کرتے تھے جووہ کر سکتے تھے۔
نبض عجیب شے ہے ،یہ چپ نہیں رہتی ،بلکہ سب کچھ کہہ دیتی ہے۔نبض کے ذریعے نباض شناس ڈاکٹر مریض کے جسم کی پوشیدہ بیماریوں کے اسباب وعلامات ،ان کے خراب اثرات اور ان سے نجات کیلئے علاج جان لیتے تھے۔نبض پر نباض کی انگلیاں رکھنے کی دیر ہوتی تھی کہ وہ انسانی وجود میں پلنے والے مرض کی داستان سنا دیتے تھے۔سائنس نے امراض کی تشخیص کے لیے جتنی بھی ایجادات کی ہیں ،مثلاً بیش قیمت مشینیں اور آلات ،ان سب کی ساخت نبض کی اساس پر ہے۔پہلے زمانے میں نبض ہی کے ذریعہ تشخیص ہوتی تھی اور امراض کے جان لینے کا انحصار اسی پر کیا جاتا تھا۔بڑے پائے کے نباض آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں اور ہم ان کی علمیت اور مہارت کی داستانیں سن کر انگشت بدندان ہو جاتے ہیں۔
بمشکل آدھ صدی ادھر کی بات ہے کہ تشخیص و علاج کا شعبہ ہمارے سرکاری و غیرسرکار اطباء نے نہایت ہی کامیابی کے ساتھ سنبھالا ہوا تھا۔ ایسے ایسے نام ہو گزرے ہیں جن کے کارناموں اور فنی مہارت کی تفصیلات آج کے جدید انسان کو بھی متحیرکردیتی ہے۔ ایسے مسیحاؤں کی فہرست طویل ہے، جو آج کے اِس مفاد پرستانہ دور کی اندھیر نگر میں ایک جگنو کی طرح چمکتے ہیں،ٹمٹماتے ہیں اِن میں بالخصوص ایک اسم گرامی جن کی طرز خدمات کو دیکھ کر دورِ ماضی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، یہاں ذکر خیر محترم المقام جناب ڈاکٹر اشتیاق احمد میر صاحب کا ہورہا ہے۔موصوف سادگی اور ایمانداری کی ایک مثالی شخصیت ہیں، ڈاکٹر اشتیاق میر صاحب موجودہ وقت میں مریض کیلئے واقعی ایک مسیحا ہیں۔مریض کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں۔موصوف کی حتی ٰالوسع یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ مریض کیلئے آسان علاج کا سبب بنے۔ایسے زمانے اور ایسے دور میں جہاں ڈاکٹروں کا اکثریتی طبقہ مریض کو اپنی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنانے میں کوئی بھی پہلو نہیں چھوڑتے ایسے میں ڈاکٹر اشتیاق احمد میر صاحب کا مریضوں کو آسان طبی امداد فراہم کرنا واقعی قابل ِ ستائش اور قابل فخر ہے۔ ڈاکٹر میر صاحب کی طرزِ خدمات کو دیکھ کر ماضی کا وہ سنہرا دور یاد آتا ہے جب بغیر کسی لالچ یا غرض و غائت کے بیرون ممالک سے طبیب مریضوں کا علاج کرنے کیلئے آتے تھے۔انسان سوچنے پر مجبورہوجاتا ہے کہ وہ کونسی بات تھی جو اِن ڈاکٹروں کو بغیر کسی معاوضے یا قلیل اْجرت کے عوض بیرون ممالک سے یہاں آنے پر رضامند کرتی تھی۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ یہ اْس دور اور زمانے کی بات ہے جب یہاں سڑک جیسی سہولیت بھی دستیاب نہیں تھی اور یہ مسیحا نْما ڈاکٹرہزاروں سینکڑوں میل پیدل سفر طے کر کے یہاں پہنچتے تھے اور پھر خندہ پیشانی سے مریضوں کی طبی خدمات انجام دینے کیلئے ہر وقت حاضر رہتے تھے۔ وسیع سوچ وچار کے بعد یہ سارا معاملہ کچھ اِس طرح سے سمجھ آتا تھا کہ اِن ڈاکٹر/مسیحاؤں کو اِن کی احساس ِ ہمدردی شہروں سے نکال کر اِن دور دراز اور دشوار گزار پہاڑیوں پر پہنچاتی تھی۔یہ احساس ِ ہمدردی ہی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے دْکھ درد ،مشکلات اور پریشانیوں کو اپنا دْکھ درد اور پریشانی سمجھتا ہے۔ بے شک ’’احساسِ ہمدردی‘‘ معاشرت کی بنیاد ہوتی ہے اور جب معاشرت میں ’’احساسِ ہمدردی‘‘ مفقود ہو جاتی ہے تو معاشرت کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں اور جب معاشرت کی بنیادیں کمزور ہوجاتی ہے تو پھر معاشرہ مسیحاؤں اور ہمدردوں کے ہاتھ میں نہیں لْٹیروں اور احساس سے عاری افراد کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔
بڑے ہی افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک طرف ماضی کے ڈاکٹروں کی قابل ستائش ،قابل فخر اور ناقابل ِ فراموش خدمات کی داستانیں پڑھ کر اور سن کر انسان کو اطمنان اور تسکین مل جاتی ہے اور دوسری جانب موجودہ دور کے دنیائے طب میں مریضوں کے لئے دور دور تک بکھراسناٹادیکھ کلیجہ منہ کو آتا ہے ،انسان کو سوائے مایوسی اور پچھتاوے کے کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا۔اخلاقی اقدار سے خالی اور کورے افراد نے اطباء کی جگہ لے لی جو ایک نسخے کیساتھ ہی مریض کیلئے پریشانیوں کا پہاڑ کھڑا کر دیتے ہیں،ڈاکٹر صاحب نسخہ لکھتے ہیں یا مریض کیلئے موت کا پیغام؟؟؟آج معالج کی ہدایت پر مختلف امراض کی تشخیص کے لیے بہت سے ٹیسٹ کروانے پڑ رہے ہیں۔پھر معالج کو ان کی رپورٹ پڑھ کر معلوم یوجاتا ہے کہ مریض فلاں مرض میں مبتلا ہے۔اس کے بعد وہ علاج اور ادویہ تجویز کرتے ہیں۔عام چھوٹے موٹے ڈاکٹروں کا تو ذکر ہی کیا، نامی گرامی ماہر ڈاکٹر صاحبان بھاری فیسیں لیکر بڑے ناموں والی لیبارٹریوں سے ڈھیروں ٹیسٹ کروانے کے بعد بھی صحیح تشخیص کیوں نہیں کرپاتییہ سوال مریضوں کیلئے سم قاتل ہے۔مایوسی میں اگر ڈاکٹر بدل لیا جائے تو وہ نئے سرے سے تمام ممکنہ ٹیسٹ کسی نئی لیبارٹری سے کروانے کی تاکید کرتا ہے۔ مگر ڈھاک کے وہی تین پات، نتیجہ پھر بھی صفر نکلتا ہے، اور اکثر کیسز میں تشخیص نہیں ہو پاتی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ جدید لیبارٹری ٹیسٹوں کے بعد بھی بیماری تک پہنچنے میں کیا امر رکاوٹ ہوتا ہے؟ کیا ڈاکٹر صاحبان نااہل ہیں؟ کیا وہ غفلت کا شکار ہیں اور جان بوجھ کر صرف نظر کر جاتے ہیں۔ یا پھر باہمی مفادات کا معاملہ ہے کہ لیبارٹری والے بھی خوش رہیں اور اطبا ءکے وارے نیارے بھی ہوتے رہیں۔ رہے بیچارے مریض تو وہ جائیں بھاڑ میں۔ مرنا تو ان کا مقدر ٹھہرا، اس بیماری سے نہیں تو کسی اور سے مرجائیں گے۔ڈاکٹروں کی ٹیسٹ کروانے کی تجویز ایک پیچیدہ مسئلہ تو ہے ہی لیکن انسانیت اْس وقت شرمسار ہوکر پانی پانی ہوجاتی ہے جب ڈاکٹر صاحبان ادویہ لکھتے ہیں اور وہ ادویات صرف اْسی کلینک پر دستیاب ملتی ہیں جہاں ڈاکٹر صاحب بیٹھتے ہیں اِس کلینک کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی لکھی گئیں ادویات دنیا کے کسی کونے میں دستیاب نہیں ہوپاتی ہیں۔چند ایک ڈاکٹروں نے تو باضابطہ طور مارکیٹ میں اپنے خیر خواہ شرکت دار رکھے ہیں جو دوائیاں خود تیار کرتے ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب مریضوں کو علاج کیلئے وہی دوائیاں لکھ دیتے ہیں۔ناجائز منافع خوری میں شراکت داری کی اِس مہلک وباء نے اچھے اچھے بھروسہ مند ڈاکٹروں کو قصائی بنا دیا ہے۔ گوکہ ظاہری طور اْن کا رنگ وروپ،چال ڈھال م،طور واطوار انتہائی ہمدردانہ اور دوستانہ ہوتا ہے لیکن پردے کے پیچھے ایسے قصائی نْما مسیحا مریضوں کیلئے موت کا سامان تیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔اب حالات یہاں تک آپہنچے ہیں کہ غریب غرباء مریض ڈاکٹروں کی طرز خدمات کو بھانپ کر علاج کے بجائے مرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحبان مریضوں کی اِس حالت ِ غیر کو محسوس کرنے کے بجائے مکمل طور فراموش کر رہے ہیں ، آج کے دور میں اکثر و بیشتر ڈاکٹر صاحبان کا شعبہ طب سے منسلک ہونے کا مقصد اور مطلب صرف اور صرف منافع ہے،بس منافعے کیلئے ہی ڈاکٹر صاحبان جی رہے ہیں اور اِسی کیلئے مرنے اور مارنے کیلئے تیار ہیں، اِس کے بغیر ہمارے اطباء کی آنکھوں کو کچھ بھی نہیں بہاتا ہے ،بقول شاعر۔۔۔۔۔
اِن طبیبوں کا حال مت پوچھو
یہ مریضوں کے دم پہ جیتے ہیں
ایسی صورتحال کے باجود بھی آج کے اِس مفادپرستانہ دور میں بھی انتہائی خدا ترس اور ماہر ڈاکٹر موجود ہیں جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے وہ صاحب احساس ڈاکٹر صاحبان ٹیسٹ کے بغیر ہی معاملہ کی تہہ کو پہنچ جاتے ہیں۔ غریب غرباءکو لیبارٹیریوں کے چکر کاٹنے کی مشقت میں ڈالے بغیر ہی کام چلا لیا جاتا ہیاور ان کی نیک نیتی کی اوپر والا لاج بھی رکھ لیتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اِس مقدس پیشہ سے منسلک ہر فرد کویہ توفیق عطا ہو کہ وہ اپنے فرائض ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دیکر انسانیت کی لاج رکھیں ،شعبہ طب کی لاج رکھیں ،انسانیت زندباد، انسانیت پائندہ باد!!

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے