किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

گوشۂ ڈاکٹر محمد عبدالرافع

ترتیب و تزئین: عبدالملک نظامی، ناندیڑ 

تاثراتِ سبکدوشی

بادشاہوں کو سکھایا ہے قلندر ہونا
آپ آسان سمجھتے ہیں ڈاکٹر رافع ہونا
(منور رانا)
31 مئی 2025 بروز سنیچر کا سورج میرے تدریسی سفر کے آخری پڑاؤ کی گواہی دے رہا ہے۔آج میں جس آخری دستخط کو قلم کے حوالے کر رہا ہوں، وہ محض ایک رسمی کارروائی نہیں، بلکہ برسوں کی محنت، لگن، خوابوں، جذبوں اور یادوں کا نچوڑ ہے۔ہر صبح کی حاضری، ننھے منے بچوں کی شوخ مسکراہٹیں، جماعتوں میں گونجتی آوازیں، ساتھی اساتذہ کی پرخلوص باتیں — یہ سب لمحے آج دل کے پردے پر ایک فلم کی مانند چل رہے ہیں۔عمر کی چاندی بالوں میں تو آ گئی، مگر ان برسوں نے مجھے جو بصیرت، حکمت اور قلبی قربتیں عطا کیں، وہ میری اصل پونجی ہے۔مدرسہ مدینۃ العلوم میرے لیے محض ایک ادارہ نہیں، بلکہ ایک خاندان رہا، — ایک ایسا علمی خاندان، جہاں میں نے علم کے چراغ جلائے، ذہنوں کو روشنی دی، اور خود بھی سیکھنے کے سفر میں برابر شریک رہا۔میرے رفقائے کار نے جو محبت، عزت اور تعاون بخشا، وہ میری زندگی کے انمول اثاثوں میں شامل ہے۔میں دل کی گہرائیوں سے اپنے تمام ساتھی اساتذہ، طلبہ، والدین، اور انتظامیہ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے تعلیمی سفر کو یادگار اور بامقصد بنایا۔آج میں بظاہر سبکدوش ہو رہا ہوں، لیکن میرا دل اور میری دعائیں ہمیشہ اس درسگاہ کے ساتھ وابستہ رہیں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ ادارہ ہمیشہ علم و ادب کا مینارِ نور بنا رہے، اور نسلِ نو کی راہوں کو روشن کرتا رہے۔آمین

والسلام
ڈاکٹر محمد عبدالرافع
صدر مدرس
(مدرسہ مدینۃ العلوم، اردو پرائمری اسکول، لال باڑہ، ناندیڑ)

ڈاکٹر محمد عبد الرافع

از : عبدالملک نظامی، ناندیڑ

ڈاکٹر محمد عبد الرافع صاحب سے میرا تعلق بہت پرانا ہے۔ ان کے تایا زاد بھائی اور برادر نسبتی جناب عبدالماجد صاحب میرے کالج اور بی ایڈ کے ہم جماعت ہیں۔ اساتذہ کی تربیت کے سلسلہ میں میری عبدالرافع سے دوستی ہوئی۔ حکومت مہاراشٹر کے تعلیمی ادارے ایس سی ای آرٹی پونے میں ساتھ رہنے سے یہ دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ جب انہوں نے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور بتایا کہ کسی شاعر پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو میں نے حضرت خواجہ حسن نظامی دہلوی پر تحقیق کرنے کی طرف رغبت دلائی۔ انہوں نے اپنے گائیڈ محترم محمد شفیع چوبدار صاحب سے مشورہ کیا اور عنوان طے ہوا۔ حضرت محمد مجیب حسن خان نظامی صاحب ( خلیفہ حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی فخر دہلی ) کے توسط سے حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی فخر دہلی سے اجازت حاصل کی گئی۔ حضرت خواجہ صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور اجازت مرحمت فرمائی۔ اس طرح انہوں نے ’’حضرت خواجہ حسن نظامیؒ حیات اور کارنامے ‘‘ کے عنوان سے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ حضرت خواجہ سید محمد نظامی صاحب مدظلہ العالی سجادہ نشین درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہیؒ و جانشین حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی فخر دہلیؒ نے اس مقالے کی خوب پذیرائی کی اور اسے اپنی طرف سے طبع کرکے شائع کیا۔ اس کتاب کی دو سو کاپیاں ناندیڑ روانہ کیں۔ اس کام کے اعتراف میں انہیں پہلا حضرت خواجہ حسن نظامی دہلوی ایوارڈ سے بھی نوازا۔ اس ایوارڈ میں توصیف نامے کے علاوہ پچیس ہزار روپے نقد رقم بھی بطور نذر پیش کی۔ ڈاکٹر محمد عبدالرافع کے ساتھ میرے دیرینہ تعلقات پر کئی صفحات لکھے جاسکتے ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ تفصیلات لکھوں گا۔ اپنی بات پر جملے پر ختم کرتا ہوں کہ’’وہ میرے رفیق یار ہی نہیں ایک چھوٹے بھائی کی طرح میری خدمت کرتے ہیں۔‘‘اللہ تعالے سے دعا گو ہوں کہ ان کے علم میں مزید اضافہ کرے اور ان کی آئندہ زندگی صحت وسلامتی سے گزرے اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے آمین۔

اردو ادب کا روشن ستارہ :ڈاکٹر محمد عبدالرافع

از قلم: ہاشمی ایس اے۔ساجد ایس۔اے۔وحید
ریسرچ اسکالر ساوتری بائی پھلے پونے یونیورسٹی، پونے،
موبائل نمبر:-9665710701

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور انسان نے اللہ کی دی ہوئی ہدایتوں کو بروئے کار لاکر اپنے صلاحیتوں سے زمین کو سینچا ہے ، ایسی کئی ہستیوں نے ہر دن ایک نئی روشنی بکھیری ہے ، ایسے روشن ستاروں کا شمار جب کیا جائے گا تو اس میں ناندیڑ کی مشہور و معروف شخصیت ڈاکٹر عبدالرافع سر کا شمار رہے گا ، مدینتہ العلوم تحتانیہ ذکور لال باڑہ ناندیڑ مہاراشٹر کے صدر مدرس ڈاکٹر عبدالرافع سر علمی و قلمی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے ، تعلیمی میدان میں ڈاکٹر محمد عبدالرافع نے اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
خود سے چل کے نہ یہ طرز سخن آیا ہے
پیر دابے ہیں بزرگوں کے، تو یہ ہنر آیا ہے
واقعی یہ طرزِ سخن خود سے نہیں آیا ، بلکہ برسوں کی بزرگوں خدمت قربانی اور استادوں کے قدموں میں بیٹھنے کی برکت سے آتا ہے۔ یہی وصف ہم نے ڈاکٹر عبدالرافع صاحب میں پایا۔ کچھ لوگ اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ خدمت خلوص اور علم کے لیے وقف ہوتا ہے۔ ان کا جانا صرف ایک فرد کا رخصت ہونا نہیں بلکہ ایک عہد کا خاتمہ محسوس ہوتا ہے۔ڈاکٹر محمد عبدالرافع صاحب کی سبکدوشی اسی نوعیت کی ایک اہم اور تاریخی گھڑی ہے ایک ایسا علمی چراغ جس کی روشنی نے دہائیوں تک ناندیڑ مراٹھواڈہ اور ریاستی سطح پر اردو تعلیم کی فضا کو منور رکھا۔ڈاکٹر محمد عبدالرافع صاحب کی سبکدوشی محض ایک فرد کی ریٹائرمنٹ نہیں، بلکہ ایک ایسے علمی چراغ کا خاموش ہو جانا ہے جس کی روشنی نے کئی دہائیوں تک ناندیڑ اور ریاست مہاراشٹر کی تعلیمی فضا کو منور رکھا۔
اردو کی خدمت کا آخری لمحہ بھی وقفِ قوم و ملت
راجیہ شیکشنک سنشودھن و پرشکشن پریشد، پونے کے تاریخی ہال میں 28 تا 30 مئی ریاستی سطح پر اردو اساتذہ کی ایک اہم تین روزہ تربیتی ورکشاپ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، جس کا انعقاد توصیف پرویز سر کی قیادت اور نگرانی میں عمل میں آیا۔ اس تربیت کا مقصد نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت جماعتِ اول کے نئے نصاب، تعلیمی مقاصد اور جدید تدریسی طریقہ کار سے اردو اساتذہ کو واقف کرانا تھا۔
گل پوشی و الوداعی تقریب
یہ بات باعثِ فخر ہے کہ اس اہم تربیتی نشست میں ڈاکٹر محمد عبدالرافع صاحب بھی سرگرمِ عمل نظر آئے۔ تصاویر گواہ ہیں کہ وہ اپنے سبکدوشی کے آخری ایام میں بھی اردو زبان کی بقا، ترقی اور فروغ کے لیے نہایت اخلاص اور محنت سے کام کرتے رہے۔اس تربیت شعبہ ابھیاس کرم کے محترم راجندر واکڑے صاحب کی اجازت سے و شعبہ اردو کے روح روان جناب توصیف پرویزصاحب و دیگر اسٹاف و ماہرین اساتذہ کی موجودگی میں ڈاکٹر محمد عبدالرافع کی ادارے ایس سی ای آر ٹی پونہ کے تاریخی ہال مہاتما پھلے ہال میں وداعی تقریب 30/5/2025 بروز جمعہ منعقد کی گئی ،اس میں ریاست بھر کے ماہرین ادب ،صدر مدرسین،اساتذہ اکرام و دوست احباب کی تقریبا 250سے زائد شرکاء کی موجوگی میں شال پوشی و گلپوشی کے ساتھ ڈاکٹر محمد عبدالرافع کی ادبی، تعلیمی و تربیت کیاعتراف کے ساتھ اعزازی استقبال کیا گیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالرافع صاحب نے اپنی زندگی نہ صرف اپنے لیے، نہ ہی محض اپنے اہلِ خانہ کے لیے، بلکہ پوری یکسوئی کے ساتھ قوم و ملت، نسلِ نو اور اردو زبان کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ ان کی یہ بیلوث جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
اپنے اساتذہ کے ساتھ حسن سلوک
ہم نے بارہا مشاہدہ کیا کہ جب بھی ریاست میں اردو نصاب، تعلیمی منصوبہ بندی یا علمی رہنمائی کی بات ہوئی، تو محترم توصیف پرویز سر کی دعوت پر ناندیڑ سے ڈاکٹر عبدالرافع صاحب اور ملک نظامی صاحب ہمیشہ صفِ اول میں نظر آئے۔ان کی علمی بصیرت، نرم مزاجی، اور خلوص سے بھرا انداز ہم سب کے لیے ہمیشہ رہنمائی کا ذریعہ رہا۔ جب وہ کسی تربیتی نشست میں ریسرچ پرسن کے طور پر شریک ہوتے، تو ماحول علمی بھی ہوتا اور دوستانہ بھی۔ ان کا اندازِ بیان، لب و لہجہ، اور پراثر گفتگو سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیتی۔ان کی ایک اور نمایاں خوبی یہ رہی کہ کوئی بھی استاد اگر کسی پریشانی یا علمی سوال کے ساتھ ان کے پاس پہنچتا، تو ڈاکٹر صاحب نہ صرف سنجیدگی سے سنتے، بلکہ پورے خلوص کے ساتھ اس کی رہنمائی بھی کرتے۔ڈاکٹر عبدالرافع صاحب آج باضابطہ طور پر تدریسی خدمات سے سبکدوش ہو رہے ہیں، لیکن اردو زبان و تعلیم کی خدمت کا جو مشن وہ برسوں سے انجام دے رہے ہیں، وہ اب بھی باقی ہے — بلکہ اب ہم ان سے ایک آزاد، فعال اور وسیع تر کردار کی توقع رکھتے ہیں۔
مختصر تعارف
ڈاکٹر محمد عبدالرافع محمد عبد السمیع، آپ کا قلمی نام ڈاکٹر محمد عبدالرافع مدھولی ہے ،آپ 19 مئی 1967 کو دیوی گلی ، دھرم آباد، ضلع ناندیڑ (مہاراشٹر) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اردو، تاریخ، فارسی اور عربی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں اور اردو میں پی ایچ ڈی کی سند شولاپور یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ پیشہ ورانہ قابلیت کے طور پر بی ایڈ کی تکمیل بھی کی۔آپ کو اردو، مراٹھی، ہندی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔
ادبی و سماجی خدمات
مدینہ العلوم اردو پرائمری اسکول لال باڑا ،ناندیڑ
علمی و تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے ادبی اور سماجی میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آپ جز وقتی طور پر وِسنت راؤ کالے سینئر کالج، دیگلور ناکہ (ناندیڑ) میں بحیثیت لکچرر بھی تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ڈاکٹر عبدالرافع نے مختلف ضلعی، علاقائی، ریاستی اور بین الاقوامی ادبی سیمیناروں، مشاعروں اور ورکشاپس میں شرکت کی اور علمی و تنقیدی مضامین اور مقالات پیش کیے، جن کی اشاعت مقامی و بین الریاستی اخبارات و رسائل میں ہوتی رہی۔ آپ نے ادارہ ’’بال بھارتی، پونہ‘‘ کے تحت مختلف جماعتوں کے نصابی کتب پر منعقدہ ورکشاپس میں بھرپور شرکت کی اور نصاب سازی کے عمل میں حصہ لیا۔
آپ کی تصانیف
1. حضرت خواجہ حسن نظامی: حیات و ادبی خدمات (جو منظر عام پر آچکی ہے)
2. مراٹھواڑہ کے منتخب شعراء کے کلام پر تبصرہ (1950 تا 2022) (زیرِ طباعت)
3. میرے منتخب مضامین و تبصرے (زیرِ طباعت)
ادارتی، تنظیمی و اعزازی خدمات
ڈاکٹر محمد عبدالرافع نہ صرف ایک ممتاز معلم اور محقق ہیں بلکہ ادبی و تعلیمی تنظیمات میں بھی ان کا فعال کردار قابلِ ذکر ہے۔ آپ آن لائن علمی و ادبی رسالے’’رہنمائے تعلیم و تربیت‘‘ (ناندیڑ) کے مدیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سفرنامہ و بین الاقوامی شرکت:-
آپ کو سعودی عرب (مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ) کی زیارت اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ نیپال میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار اور ایوارڈ فنکشن میں بھی شرکت کی۔
تنظیمی وابستگیاں
سکریٹری: الفلاح ایجوکیشن و ویلفیئر سوسائٹی، دھرم آباد۔ ضلع ناندیڑ مہاراشٹر
سکریٹری: فروغ اردو سوسائٹی، ناندیڑ مہاراشٹر
رکن:لسانی کمیٹی، ادارہ MSERT پونہ
رکن:ترجمہ کمیٹی، پرائمری نصاب 2012، جماعت اول تا ہشتم، مہاراشٹر
رکن:ترقی یافتہ مہاراشٹر ترجمہ کمیٹی، MSERT، پونہ
رکن : درسی نصاب (یومیہ، ماہانہ، سالانہ) کی منصوبہ بندی اور جماعت اول تا ہشتم کی نصابی تدوین
رکن : اسکالرشپ کی مشقی بیاض (جماعت پنجم تا ہشتم) کی تیاری، پریکشا پریشد، پونہ
اعزازات و ایوارڈز:-
مختلف اداروں اور ضلعی و علاقائی سطح کی جانب سے مثالی مدرس ایوارڈ
اردو ساہتیہ اکیڈمی، حکومت مہاراشٹر کی جانب سے 2018 میں مثالی مدرس ایوارڈ
انٹرنیشنل بھاشا بھوشن ایوارڈ، نیپال، 2022
اردو زبان کے فروغ میں خدمات ایوارڈ، علم ویلفیئر سوسائٹی، پونہ، 2023
شمس العلما و حضرت خواجہ حسن نظامی ایوارڈ، عالمی جماعتِ نظامیہ دہلی، 2023۔
اہلِ خانہ
آپ کی شریکِ حیات محترمہ مسعودہ سلطانہ ایک باوقار، باصلاحیت اور تعلیم یافتہ خاتون ہیں، جو ضلع پریشد ہائی اسکول، اردھاپور، ضلع ناندیڑ میں بطور اْستاد تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ ایم اے اور بی ایڈ کی سند یافتہ ہیں، اور آپ کی زندگی میں علم، رفاقت اور تعاون کی روشن مثال ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین لائق و فاضل اولادوں سے نوازا، جنہوں نے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جس میں
1. منزہ گوہر بنت عبدالرافعB.Tech (کمپیوٹر سائنس)(ٹھاکر کالج، ممبئی)
2. ڈاکٹر مدیحہ فاطمہ بنت عبدالرافع BAMS(دتا میگھے میڈیکل کالج، وردھا)
3. عبدالرحمٰن وَلَد عبدالرافع B.Tech (کمپیوٹر سائنس)(زیرِ تعلیم، تِلاک کالج، ممبئی)
آپ کا خاندان علم، تہذیب، محنت اور وقار کی ایک روشن علامت ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال ہے۔
تدریسی خدمات
محترم ڈاکٹر عبدالرافع کا تعلیمی و تدریسی سفر نہایت باوقار، نتیجہ خیز اور مثالیت سے بھرپور رہا۔ آپ کا پہلا تقرر آپ ہی کے آبائی وطن دھرم آباد کے اسی اردو پرائمری اسکول میں ہوا، جہاں سے آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔4 ستمبر 1986سے 30 اپریل 1987 کو تقرری عمل میں آئی، جو تک جاری رہی۔ یہ تقرر تقریباً 7 ماہ 26 دن پر مشتمل تھا۔بعد ازاں، یکم اگست 1987 کو آپ کا تقرر مدرسہ مدینۃ العلوم پرائمری اسکول، لال باڑہ، ناندیڑ میں عمل میں آیا۔ اس ادارے میں آپ نے مسلسل 38 برس تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ آپ کی محنت، لگن، طلبہ سے خلوص، اور تعلیمی معیار کی بلندی نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا کہ 1 جنوری 2023 کو آپ کو صدر مدرس کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ آپ نے 31 مئی 2025 کو وقار اور عزت کے ساتھ تدریسی خدمات سے سبکدوشی اختیار کی۔
تعلیمی سفر
ڈاکٹر عبدالرافع نے اپنے تعلیمی سفر کی ابتدا اردو پرائمری اسکول، دھرم آباد سے کی۔ 1984 میں ایس ایس سی کامیاب کیا اور 1986 میں ڈی ایڈ کی سند حاصل کی۔ عام طور پر ملازمت کے بعد لوگ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو ترک کر دیتے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب ان معدودے چند افراد میں شامل ہیں جنہوں نے تعلیم کو محض روزگار کا ذریعہ نہیں، بلکہ اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔آپ نے تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں مسلسل ترقی کرتے ہوئے متعدد اعلیٰ اسناد حاصل کیں:
بی اے – 1991 (پرتیبھا نیکیتن کالج، ناندیڑ)
بی ایڈ – 2006 (مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی، حیدرآباد)
ایم اے (تاریخ) – 2007 (مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی، حیدرآباد)
ایم اے (اردو) – 2008 (سوامی ریمانند ترتھ مرٹھوارہ یونیورسٹی، ناندیڑ)
پی ایچ ڈی (اردو) – 2016 (شولاپور یونیورسٹی، مہاراشٹر)
ایم اے (فارسی) – 2018 (گاڑگے بابا یونیورسٹی، ناگپور)
ایم اے (عربی) – 2020 (ناگپور یونیورسٹی)
ایم اے (اسلامیات) – زیرِ تعلیم (2023 سے جاری)
یہ تمام ڈگریاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ تعلیم آپ کے لیے صرف پیشہ نہیں، بلکہ عشق، ذوق، اور تسلسل کا نام ہے۔ جہاں لوگ 58 سال کی عمر میں آرام کو ترجیح دیتے ہیں، وہاں آپ نے اس عمر میں بھی حصولِ علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ آپ کی یہ جستجو نئی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال اور مشعلِ راہ ہے۔آپ نے اپنی عملی زندگی سے یہ ثابت کر دیا کہ
’’تعلیم صرف روزگار کا ذریعہ نہیں، بلکہ انسان کی شخصیت کو سنوارنے اور اس کی روح کو جِلا بخشنے کا ذریعہ ہے۔ علم کی کوئی عمر نہیں، یہ وہ دولت ہے جو ماں کی گود سے لے کر قبر تک حاصل کی جاتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالرافع کی تعلیمی، تدریسی اور تحقیقی خدمات، خصوصاً اردو زبان و ادب اور نظامِ تعلیم کے لیے نہایت وقیع، مؤثر اور قابلِ ستائش ہیں۔ آپ کی کوششوں سے علم کے چراغ نہ صرف روشن ہوئے، بلکہ کئی نسلوں کو روشنی عطا ہوئی۔ہم اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ الحاج ڈاکٹر عبدالرافع صاحب کو صحت، عزت، طویل عمر، اور مزید خدمتِ علم کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کا وجود اردو دنیا کے لیے باعثِ خیر ہے، اور ان کا سایہ ہمیشہ سلامت رہے۔آمین ثم آمین

نرم گفتار، علم دوست، ادبی شعور کا پیکر — ڈاکٹر محمد عبدالرافع

از: محمد عبدالعلیم
موظف مدرس، مدینۃالعلوم ہائی اسکول، ناندیڑ

مدینۃالعلوم پرائمری اسکول (ذکور)، لال باڑہ، ناندیڑ کے صدر مدرس ڈاکٹر محمد عبدالرافع کی سبکدوشی (31 مئی 2025) محض ایک تعلیمی ذمہ داری سے کنارہ کشی نہیں، بلکہ ایک عہد کے خاموش ہو جانے کا نام ہے۔ وہ عہد جو علم و ادب کی روشنی سے منور تھا، جو طلبہ کے ذہنوں میں چراغ جلانے کا ہنر جانتا تھا، جو رفقائے کار کے لیے مشعلِ راہ تھا اور جو اردو زبان و تعلیم کے لیے خلوص بھرا استعارہ بن چکا تھا۔ڈاکٹر صاحب کی ذات علم و ادب کا وہ چشمہ رہی ہے جس سے کئی نسلوں نے سیرابی حاصل کی ہے۔ان کی تدریسی خدمات، فکری گہرائیاں اور اخلاص کی شدت — یہ سب صفات اس دور میں نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ ان کے طلبہ ہمیشہ ان کے اندازِ تدریس، سنجیدگی اور علمی رہنمائی کے معترف رہے ہیں۔ان کی شخصیت میں اپنے کام کے تئیں غیر معمولی سنجیدگی اور متانت پائی جاتی ہے۔ جو ذمہ داری قبول کی، اسے کبھی کل پر نہیں ٹالا۔ جو کام ہاتھ میں آیا، اسے فوری طور پر مکمل کیا — نہ سستی، نہ غفلت۔ ان کی مستقل مزاجی میں ایک وقار جھلکتا ہے۔ مگر اس سنجیدگی کے ساتھ ان کی طبیعت میں ایک لطیف سا لاابالی پن بھی موجود ہے۔ وہ اپنی پسند، ذوق اور ترجیحات پر مضبوطی سے قائم رہتے ہیں اور دوسروں کی رائے یا مشورے سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔ یہی مزاج ان کی انفرادیت کا پہلو ہے — سادگی کے ساتھ اپنی راہ پر اعتماد سے چلنے کا سلیقہ۔ وہ نہ دکھاوے کے قائل ہیں نہ رسمی تعلقات کے؛ سچائی، خلوص اور ذاتی شعور کو ہمیشہ فوقیت دیتے ہیں۔ادب سے انہیں جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ خواجہ حسن نظامی پر ان کی پی ایچ ڈی، ان کے گہرے ادبی مطالعے اور علمی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی کتاب ’’حضرت خواجہ حسن نظامی: حیات و ادبی خدمات‘‘ منظرِ عام پر آ چکی ہے، جبکہ ’’مراٹھواڑہ کے منتخب شعراء کے کلام پر تبصرہ (1950 تا 2022)‘‘ اور’’میرے منتخب مضامین و تبصرے‘‘ زیرِ طباعت ہیں۔ علاوہ ازیں، ’’مراٹھواڑہ کے نثر نگار اور مشاہیرِ ادب‘‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی پروجیکٹ NCPUL کو ارسال کیا گیا ہے، اور ان کی کتاب ’’مراٹھواڑہ کے جدید نثر نگار‘‘ جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی ہے، جس کا اردو تحقیق کے میدان میں خاصا خیرمقدم متوقع ہے۔ڈاکٹر صاحب آن لائن علمی و ادبی رسالہ’’رہنمائے تعلیم و تربیت‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔ وہ مختلف ادبی و لسانی انجمنوں کے رکن اور کئی مقامات پر سیکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔ انہوں نے مقامی، علاقائی، ریاستی و بین الاقوامی سطح کے سیمینارز اور ویبینارز میں شرکت کر کے متعدد مقالے پیش کیے، اور متعدد اعزازات و ایوارڈز حاصل کیے، جن میں’’مثالی معلم‘‘ جیسے اعزازات شامل ہیں۔ادبی شخصیات سے ملاقات، ان کی تصاویر کو محفوظ رکھنا، مشاعروں میں شرکت کرنا، شہروں کی لائبریریوں اور میوزیمز کا سفر کرنا، اور چنندہ احباب سے مسلسل رابطے میں رہنا — یہ سب ان کی علمی و ادبی زندگی کا ایک مستقل اور خوشگوار حصہ رہا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک ایسی چمک دیکھی گئی جو کسی نئی چیز کو سیکھنے کی بےپایاں جستجو سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ صرف استاد نہیں، بلکہ مسلسل سیکھنے والے ہمہ جہت طالبِ علم بھی رہے۔ڈاکٹر صاحب کو سفر سے بھی خاص شغف ہے۔ وہ سفر سے کبھی انکار نہیں کرتے۔ ان کے لیے سفر محض ایک مقام سے دوسرے مقام کی تبدیلی نہیں بلکہ تجربے، مشاہدے، سیکھنے اور تہذیبی وسعت کا ذریعہ ہے۔ ان کی یہ علمی سیاحت ان کے تجربات اور مہارتوں میں مسلسل اضافہ کرتی رہی، جس نے ان کی شخصیت کو مزید ہمہ گیر اور پراثر بنا دیا۔میرے اور ڈاکٹر صاحب کے تعلقات رسمی نوعیت کے نہیں، بلکہ قلبی نوعیت کے رہے ہیں۔ ہمارے درمیان ایک مشترکہ شخصیت، میرے بچپن کے عزیز دوست جناب عبدالملک نظامی، کا وجود ہمیشہ ایک فکری اور جذباتی ربط کا ذریعہ رہا۔ وہ اکثر مجھے ڈاکٹر صاحب کی علمی، ادبی اور تربیتی سرگرمیوں سے باخبر رکھتے رہتے۔میں نے خود بھی بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ جب کبھی ریاستی سطح پر اردو نصاب، تربیتی ورکشاپ یا ادبی نشست کی بات ہوتی، تو ڈاکٹر صاحب کی شرکت محفل کے علمی وقار کو نہ صرف بڑھاتی بلکہ ماحول میں ایک سنجیدہ اور بامعنی خاموشی بھی پیدا کرتی۔حال ہی میں پونے میں منعقدہ ریاستی سطح کی اردو اساتذہ ورکشاپ میں ان کی شرکت اور باوقار وداعی تقریب ایک ناقابلِ فراموش لمحہ بن گئی۔ سبکدوشی کے آخری ایام میں بھی وہ پوری تندہی سے اردو زبان کی خدمت کرتے دکھائی دیے، گویا ان کے نزدیک سبکدوشی کسی ذمہ داری سے نجات کا نام نہیں بلکہ خدمتِ علم و ادب کے ایک نئے مرحلے کی ابتدا ہے۔ڈاکٹر محمد عبدالرافع کی سبکدوشی یقیناً ایک خلاء پیدا کر گئی ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ اس خلاء کو اپنے قلم، اپنے علم اور اپنی بصیرت سے پُر کرتے رہیں گے۔ وہ اب رسمی فرائض سے آزاد ہیں، مگر اردو دنیا ان سے مزید تحریروں، تقریروں اور تربیتی خدمات کی منتظر ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صحت، عزت، طویل عمر اور نئی توانائیوں کے ساتھ مزید خدمتِ علم کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی موجودگی اردو برادری کے لیے ایک نعمت ہے، اور ان کا سایہ تادیر سلامت رہے۔آمین ثم آمین

ایک فعال صدر معلم کی سبکدوشی
(محمد عبدالرافع کے نام)

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے وجود سے ایک چراغ روشن کر دیتی ہیں، جو علم کی شمع تھامے نسلوں کی راہوں کو منور کرتی ہیں۔ محمد عبدالرافع صاحب کا شمار انہی گوہر نایاب میں ہوتا ہے۔ ایک معلم، ایک رہنما، ایک محسن — جنہوں نے اردو زبان کی بقا، اس کی تدریج اور تنوین کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ان کی تدریسی زندگی علم و محبت کا ایک ایسا سفر تھی، جس میں ہر قدم پر اخلاص، محنت اور قربانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ عبدالرافع صاحب نہ صرف علم کے پیاسوں کو سیراب کرتے رہے بلکہ وہ خود بھی مسلسل سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں مصروف عمل رہے۔ ان کی کلاس روم میں موجودگی محض ایک رسمی تدریس نہ تھی، بلکہ طلبہ کے لیے علم و ادب کی ایک دنیا آباد ہو جاتی تھی۔اردو زبان کی ترویج کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ جب کبھی اردو کو عصری چیلنجز کا سامنا ہوا، عبدالرافع صاحب ایک سپاہی کی طرح سامنے آئے، قلم اور تدبیر سے اردو کے وقار کی حفاظت کی۔ ان کی تحریریں، ان کے خطبات اور ان کی تربیتی نشستیں اردو زبان کے فروغ میں ایک نئی روح پھونکنے کا سبب بنیں۔آج جب ہم ان کی سبکدوشی کا لمحہ دیکھ رہے ہیں، تو دل خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات سے لبریز ہے۔ خوشی اس بات کی کہ ہم نے ان کی صورت میں ایک عظیم معلم اور محب اردو پایا؛ اور افسوس اس لیے کہ اب وہ روزانہ کی مصروفیات سے رخصت ہو کر ہمیں اپنی مخلصانہ موجودگی سے محروم کر جائیں گے۔مگر عبدالرافع صاحب کا چراغ بجھنے والا نہیں۔ ان کی روشن کی ہوئی روشنی نسلوں تک پھیلتی رہے گی۔ ان کے شاگرد، ان کے افکار، ان کی تعلیمات، سب زندہ رہیں گے اور اردو زبان کے آسمان پر ایک تابندہ ستارہ بن کر چمکتے رہیں گے۔ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ محمد عبدالرافع صاحب کو صحت مند، خوشحال اور باوقار زندگی عطا فرمائے۔ وہ جہاں بھی رہیں، علم و ادب کے پھول کھلاتے رہیں اور ان کی خدمات کا اجر ان کے لیے ذخیرۂ آخرت بنے۔محمد عبدالرافع صاحب! آپ کا شکریہ — کہ آپ نے ہماری دنیا کو علم، محبت اور خدمت کے رنگوں سے سنوارا۔

عبدالقیوم خان (رکن لسانی کمیٹی بال بھارتی)
شہادہ نندربار

فکر و عمل کی بانگِ درا ۔۔۔۔۔

فاصلہ اک درمیاں ہے، سلسلہ در سلسلہ
اک سفر کی انتہا ہے، اک سفر کی ابتداء
سبکدوشی ایک مرحلہ ہے۔ایک سنگِ میل، جس سے ہم میں سے ہر ایک نے کبھی نہ کبھی گزرنا ہے۔ باضابطہ طور پر کام کی مہلت کا ملنا بلاشبہ ایک سعادت ہے، مگر اس سعادت کو حقیقی معنوں میں کرامت میں بدلنے والی چیز ہماری کام کے تئیں وابستگی، اخلاص اور حساسیت ہے۔ یہ صرف وقت گزارنے کی بات نہیں، بلکہ زندگی بھر کے جذبے کو نبھانے کا نام ہے۔ وہ لوگ جو سبکدوشی کے بعد بھی علم، تجربے اور رہنمائی کے ذریعے معاشرے سے جڑے رہتے ہیں، دراصل یہ وہی لوگ ہیں جو وقت کے دائرے سے آگے نکل کر یادوں میں، دلوں میں، اور رویوں میں زندہ رہتے ہیں۔ وہ آفاقیت کی معراج کو چھو لیتے ہیں۔
ڈاکٹر رافع صاحب!آپ کی سبکدوشی کا یہ مرحلہ جہاں ایک رسمی ذمہ داری کے اختتام کی نوید لاتا ہے، وہیں ایک غیر رسمی، مگر کہیں زیادہ مؤثر کردار کی شروعات کا اعلان بھی کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب تقرری کی رسمی زنجیروں سے آزاد ہو کر، شخصیت کی تاثیر مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ اب آپ کی موجودگی محض تدریسی اوقات تک محدود نہیں، بلکہ راہ دکھانے، حوصلہ بڑھانے، اور نئی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بننے کے وسیع تر منصب کی متقاضی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کا فعال، بصیرت افروز اور روشن کردار،جس نے برسوں سماج اور اپنے ادارے کو فیض پہنچایا ہے اب اور بھی بے ساختہ، اور بےلوث انداز میں جاری رہے گا۔ یہ اختتام نہیں، ایک نئی ابتداء ہے۔ایسی ابتداء جو خاموش نہ ہوگی، بلکہ فکر و عمل کی بانگِ درا بنے گی۔

عارف مہیمتلے
بھیونڈی ،تھانہ

_السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
محترم، عبدالرافع سر،
الحمدللہ!آپ وظیفہ حسن پر اپنی تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوئے ہیں، بہت کم مگر انتہائی زبردست ملاقاتیں آپ کی خداداد صلاحیتوں کا مظہر رہی ہیں،آپ محترم کا اخلاص، محنت، علم کے تئیں آپ کا ذوق و شوق یقیناًہم جیسے خاکساروں کے لئے ایک عملی مثال ہے، ہمیشہ ہی آپ کی صلاحیتوں اور خدمات کی قدر کرتا رہا ہوں۔مجھے امید ہے، ان شاءاللہ وظیفہ یابی کے بعد بھی تعلیمی میدان میں آپ اپنی خدمات جاری رکھیں گے، فرصت کے ان لمحات میں ہم بھی آپ سے مستفیض ہوگے، ان شاءاللہ ۔اللہ پاک آپ کی محنتوں کو ملت کے نونہالوں کے لئے سودمند بنائے، آپ کو اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمائیے۔آمین

دعا گو۔۔۔۔
عابد خان حمید خان
مدرس ضلع پریشد
امیرخادمین امت
_ریاستی صدر _ قومی اردو شکشک کرمچاری سنگھ،مہاراشٹر

درس وتدریس کا خوبصورت باب
محترم استاد رافع سر !

ایک بھائی نے ایک بہت بڑی خاموشی کو کچھ الفاظ کے سہارے توڑنے کی کوشش کی ہے ۔ آپ کی سبکدوشی ایک ایسی خلا ، ایک ایسی کمی ہےجسے الفاظ کسی بھی حال میں پر نہیں کرسکتے ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ درس و تدریس کے پیشے میں سرپرستی کی کمی ہوگئی ۔ ہم لوگ اپنے آپ کو ایک بڑے سے میدان میں تنہا محسوس کررہے ہیں ۔
اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں
دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا
(امید فاضلی)
استاد محترم سے بچپن سے جو سیکھا وہ آج بھی ایسا ذہن میں محسوس ہے جیسے پتھر پر تراشی ہوئی تحریر۔ سیکھنے کا شوق، آگے بڑھنے کی جستجو ، اپنے اندر کی صلاحیتوں کو پہچاننا اور ایسے کئی ان گنت باب ہیں جو بیان سے قاصر ہیں ۔ محترم کی سزائیں بھی اتنی دلچسپ رہتی تھی کہ جسے سوچ کر آج بھی خوشی اور احترام کا جذبہ محسوس ہوتا ہے ۔ غالباً میری تیسری یا چوتھی جماعت کا ایک واقعہ ہے جو آج تک اچھی طرح یاد ہے ۔ ایک مرتبہ میں نے گھر کام مکمل نہیں کیا تھا ۔ محترم باری باری دیکھ رہے تھے ۔ میری باری آئی تو محترم نے مجھے ایک فرش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس پر کھڑے رہنے کے لئے کہا میں بہت ڈری ہوئی سہمی ہوئی تھی ۔ کیونکہ محترم سے غالباً یہ پہلا اور آخری موقع رہا سزا کا اور مجھے محسوس ہوا کہ استاد محترم بہت غصّہ میں ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔ محترم سزا دینے کے لئے آئے تو مسکراتے ہوئے کہا کہ میں چھڑی سے ماروں گا تو تم اس فرش کے باہر نہیں نکلنا ۔ ایک دم سے سزا کا ڈر ، سر کی ناراضگی سب دور ہوتی محسوس ہوئی اور سزا بھی مل گئی ۔ ایسی سزا جو سزا بھی تھی اور دلچسپ بھی۔اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ محترم کی محنتوں کا دنیا و آخرت میں بہترین بدلہ دے ۔ محترم کے ہر ہر طالب علم کو محترم کے لئے ثواب جاریہ بنا دے ۔ اور اللّٰہ پاک آپ سے راضی ہو جائے ۔ آمین ثم آمین

آپ کی ایک ناچیز طالبہ

استادِ محترم عبدالرافع سر کی سبکدوشی پر نذرانۂ عقیدت
مدینتہ العلوم لال باڑہ کے ایک سابقہ شاگرد کی جانب سے
ریاستی سطح پر جب بات اردو زبان و ادب کی ہو، تو عبدالرافع سر کا نام عزت، خلوص، علم اور خدمات کا مرقع بن کر سامنے آتا ہے۔ مدینتہ العلوم لال باڑہ، میں آپ کی برسوں کی تدریسی خدمات اور ریاستی سطح پر اردو زبان کی ترویج کے لیے آپ کی محنت، لگن اور اخلاص قابلِ تحسین ہی نہیں، قابلِ تقلید بھی ہیں۔
سر! آپ نے صرف کتابیں نہیں پڑھائیں، آپ نے کردار بنائے، سوچوں کو جلا بخشی، اور ہر طالب علم کے دل میں اردو کی محبت جاگزیں کی۔ آپ کی زبان کی شیرینی اور اندازِ بیان کی سادگی نے کئی نسلوں کو اردو سے جوڑ دیا۔
آپ کی سبکدوشی بظاہر ایک رسمی لمحہ ہے، مگر حقیقتاً یہ ایک روشن عہد کا اختتام ہے۔ آپ کے جانے سے ایک خلا پیدا ہو رہا ہے، جسے پُر کرنا آسان نہ ہوگا۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ کی محنت کا بیج، جو آپ نے برسوں میں بویا، آنے والی نسلوں کے دلوں میں علم و ادب کے پھول کھلاتا رہے گا۔مدینتہ العلوم، لال باڑہ اسکول کے تمام ہی اساتذہ و سابقہ شاگرد آپ کی گراں قدر خدمات کو سلام پیش کرتے ہے، اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ ایک پُرامن، خوشحال اور باعزت زندگی عطا فرمائے۔ آپ کا فیض یوں ہی نسلوں کو روشنی دیتا رہے۔

والسلام : محمد اظہرالدین
(معاون معلم ضلع پریشد اورنگ آباد)
آپ کا شاگرد ، میں اپنے اور
مدینتہ العلوم لال باڑہ کے تمام شاگردوں جانب سے نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں قبول فرمائیں…

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے