किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

گھمنڈ اور تکبر ایک مہلک مرض

تحریر: مولانا میر ذاکر علی محمدی ندوی پربھنی
9881836729
بذریعہ ضلع نامہ نگار اعتبار نیوز محمد سرور شریف

سب سے پہلے یہ جاننا ضروی ہے کہ جب اللہ نے اس دنیا کی تخلیق فرمائ۔ تو آدم علیہ السلام کے لیے فرشتوں کو سجدہ ریز ہونے کا حکم صادر فرمایا۔ لہذا تمام فرشتوں نےاللہ کا حکم بجا لایا بجز ایک فرشتہ جس کو اللہ نے اس کے و فضل کی وجہ سے تمام فرشتوں کا سردار مقرر کا تھا۔ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا۔ جس کی پاداش میں اللہ نے اس کو دھتکار دیا ۔ کیونکہ فخر اور تکبر صرف اللہ کے ہی لیے ہے۔حدیث میں ہے ۔ الکبریاء ردائ ۔ کہ فخر اور بڑھائ اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی چادر۔ اور جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے گو کہ وہ شیطان مردود کی اطاعت کرتا ہے۔ اور یہ دنیا کی تخلیق ہی شیطان مردود کی نا فرمانی کا نتیجہ ہے۔ اگر فرشتوں کا سردار آدم علیہ السلام کو سجدہ کرتا تو شاید یہ دنیا کی تخلیق نہ ہوتی اور نہ ہی کر ارض پر کوئ ذی روح ہوتا۔ سجدہ نہ کرنا آدم علیہ السلام کو ممنوعہ شئ سے شوق دلانا دنیا کے وجود کا سبب ہے۔ اور یہ انسانوں کا وجود اور تخلیق اچھے اور برے کاموں پر مشتمل ہے۔ زندگی اور موت کی تخلیق کہ کون بہتر اور عمل صالح کرتا ہے۔ اور کون عاجزی و انکساری کرتا ہے ۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جس کے دل میں رائ کے دانے کے برابر ایمان ہے وہ آگ میں داخل نہ ہوگا ۔ اور جس کے دل میں رائ کے برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اللہ نے زمین پر فخر اور غرور سے چلنے کو منع فرمایا ہے۔ اکڑ کر چلنے سے نہ زمین کو کوئ فرق ہوگا اور نہ پہاڑوں کو۔ البتہ آپ عاجزی اور انکساری اور جھک کر پہاڑ کی چوٹی طے کرسکتے ہیں اور اکڑ کر دو قدم بھی طے نہیں کرسکتے۔ ہم میں کچھ ایسے بھی اہل علم ہیں جو اس احساس برتری میں مبتلاء ہیں۔ جو بغیر کسی کام کے کریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔ اور نہ ملنے پر جلن حسد کرتے ہیں۔ اور جلن و حسد ابلیس کا پہلا گناہ تھا جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ اور اگر یہی ابلیس کی روش اور تکبر کی آمیزش اہل علم میں ہوں تو کتنی سنگین بات ہے۔ کسی انسان کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ کبریائ اور بڑھائ اور خود کی تعریف کا دعویدار ہو۔ تمام تر تعریفیں اس کے لیے ہے۔ جس نے یہ جہاں آسمان سمندر اور پورے عالم کو پیدا کیا ہے جس نے تکبر کیا اللہ اس شخص کو رسوا اور ذلیل کرتے ہیں۔ اور جو اللہ کے لیے عاجزی و انکساری کرتا ہے اللہ اس کو عالی اور بلند مرتبہ عطا کرتے ہیں۔ جب فرعون اپنی فانی بادشاہت میں چور تھا۔ اس نے بادشاہت کے تکبر میں اپنے آپ کو خدا ئ کا دعوی کیا۔جسے اللہ نے دریاء نیل میں غرق کیا ۔ اور ساری دنیا کو نمونہ عبرت بنایا۔ موجودہ زمانہ میں بھی لوگ جلن حسد اور گھمنڈ تکبر کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اچھے کاموں کا بدلہ یا کریڈٹ فورا ملے۔ جس سے ان کی واہ واہ ہو۔ اور نام اونچا ہو۔ انہیں رات دن یہی فکر لاحق ہوتی جو ایک مہلک مرض ہے۔ انا اور انانیت ایک ایسا مرض ہے کہ انسان اپنے علم و فضل مال و متاع منصب سیاسی اثر و رسوخ کے تئیں اپنے آپ کو مکمل اعلی و ارفع سمجھتا ہے۔ جو غلطی ابلیس نے کی تھی۔ اور اس غلطی کے پاداش میں اللہ نے اس کو ذلیل کیا۔ وہی غلطی کے مرتکب ہم ہورہے ہیں ۔ ہر چیز کی کوئ نہ کو کمزوری یا بیماری ہوتی ہے۔ اور علم کی تکبر ہے ۔ اگر اہل علم تکبر کرتا ہو تو وہ حقیقی علم کی چاشنی اور لذت محروم ہے۔ جس طرح شیطان اپنے علم و فضل پر تکبر کا مرتکب ہوکر اللہ کی حکم عدولی کیا تھا۔ عین اسی طرح ہم اللہ کی حکم عدولی کر رہے ہیں۔ پھر ممبر و محراب پر ہماری دعاوں میں وہ تاثیر نہیں جو ایک خدا ترس انسان میں دعاوں کی تاثیر ہوتی ہے۔ اسلام نے امیر غریب فقیر بادشاہ عجم عرب عالم جاہل سب کو ایک ہی انسانیت کے دائرہ میں رکھا ہے۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گیے محمود و ایاز ۔۔۔نہ کوئ بندہ رہا اور نہ کوئ بندہ نواز ۔ پس یوں سمجھیے کہ جو تکبر اور گھمنڈ کرتا ہو وہ لوگوں کی نِظروں میں معمولی انسان ہوتا ہے۔ چاہے وہ اپنے آپ کو کتنا ہی اعلی و ارفع کیوں نہ سمجھے۔ بلکہ یہ شخص کتا اور خنذیر سے بھی گیا گذرا ہو تا ہے۔ کون افضل ہے۔ کون ادنی ہے۔ کون حقیر ہے ۔ اور معزز ہے اور کون متقی ہے۔ کون سیدھے راستہ پر ہے کون غلط راستہ پر ہے ۔ اسکو اللہ خوب جانتا ہے۔جو لوگوں کی نظروں میں حقیر ہے وہ اللہ کی نظر میں عظیم ہے۔ اور جو لوگوں کی نظر میں اعلی اور پارسا ہے۔ وہ اللہ کی نظر میں حقیر ہے۔ اس لیے ہمیں اس گناہ عظیم سے اجتناب کرنا چاہیے جو نیکیوں کو ایسا کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ بیشک اللہ خود کی بڑھائ کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ اور عاجزی و انکساری کرنے والے کو اپنا دوست اور محبوب بناتا ہے۔ پھر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ نے ہم کو ایک ناپاک خطرہ سے پیدا فرمایا۔ پھر کسی کو ماں کے پیٹ میں موت دیا کسی کو بچپن کسی کو جوانی اور کسی کو بڑھاپے میں۔ پھر یہ کہ زندگی مختصر بھی نہیں ۔ ہم خوشگوار ایام میں اللہ کی یاد سے غافل اور بیماری اور نقاہت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ اور یہ کہ ہر انسان اور ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور یہ کہ آپ جہاں بھی ہو موت آکر رہیگی۔ ہم سب یہ جانتے ہیں۔ پھر انجان بنکر مذکور بلا گناہ کے مرتکب ہوتے۔ سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوےگا۔ جب لاٹھ چلیگا بنجارہ۔ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشاہ نہیں ہے۔ جو کرتا ہےتو چھپ کر اہل جہاں سے کوئ دیکھتا تجھے آسماں سے۔ اللہ کا فرمان کہ نیک صالح اور متقی لوگ جنت کے حقدار ہوں گے اور فاسق فاجر لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔ اللہ نے جب موسی علیہ السلام سے کہا کہ کائنات میں تم سے کمتر چیز کو ڈھونڈکر لاو۔ جب موسی علیہ السلام نے پوری کائنات کو چھان مارا اور اللہ سے کہا ۔ یا اللہ مجھ سے کمتر کوئ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے کہا اے موسی تم اگر کسی کو کمتر بتاتے تو میں تمہیں ہر گز نبوت سے سرفراز نہیں کرتا۔ اور آج ہم دوسروں کو حقیر اور کمتر ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور اور مال و زر لگانے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے