किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

خوابوں کی دہلیز پر

تحریر: خان افراء تسکین (اورنگ آباد)
فون نمبر: 9545857089

دو دن بعد دسویں جماعت کا ریزلٹ آنا تھا۔ زویا اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جس نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ احمد صاحب جدید دور میں سانس تو لے رہے تھے، مگر خیالات آج بھی ماضی کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔ پورے گھر میں ایک انجانی سی بےچینی تھی۔ ہر نگاہ زویا کے ریزلٹ پر مرکوز تھی، ہر دعا میں اس کی کامیابی کی التجا شامل تھی۔

جب ریزلٹ آیا، تو زویا نے 85 فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ اسکول میں تیسری پوزیشن حاصل کر کے اس نے نہ صرف اپنے خوابوں کو پر دیا، بلکہ اپنے والد کے چہرے پر فخر کی ایک چمک بھی پیدا کر دی۔ احمد صاحب، جو عام طور پر سخت لہجے اور سنجیدہ مزاج کے لیے مشہور تھے، اس دن پہلی بار مسکرا اٹھے۔

زویا کے دل میں ایک نئی امید جاگی۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ گیارہویں جماعت میں سائنس لے گی، اور نیٹ (NEET) کی تیاری کرے گی۔ وہ ایک ڈاکٹر بننا چاہتی تھی — ایک ایسا خواب جو نہ صرف اس کا تھا، بلکہ اس سے جڑی انسانیت کی خدمت کی خواہش بھی۔ مگر دوسری جانب، احمد صاحب نے کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ روزانہ سوشل میڈیا اور نیوز چینلز پر چلتی خبریں انہیں بےچین کر دیتی تھیں — کہیں کوئی لڑکی کسی کے ساتھ بھاگ گئی، کہیں کسی غیر مسلم سے تعلقات میں الجھ گئی۔ ان سب خبروں نے ان کے دل میں خوف بھر دیا تھا۔

وہ چاہتے تھے کہ زویا اس "گندگی” سے دور رہے، اور یہی وجہ تھی کہ وہ اس کی شادی طے کرنے کے خواہاں تھے۔

ایک دن ناشتہ کی میز پر احمد صاحب نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا،
"ہماری بیٹی نے کمال کر دیا۔ خاندان کی پہلی لڑکی ہے جو میٹرک پاس ہوئی ہے۔ اب اسے گھر گرہستی سکھاؤ تاکہ کل کو اپنا گھر سنبھال سکے۔”

زویا نے یہ سنا، مگر کچھ نہ کہا۔ الفاظ لبوں تک آتے آتے بکھر جاتے، اور والد کے سامنے ہمت دم توڑ دیتی۔

کالجوں میں داخلے شروع ہو چکے تھے۔ زویا دل ہی دل میں سہمی رہتی کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ ایک شام وہ ماں کے پاس گئی،
"امی، بابا سے بات کریں نا… مجھے کالج جانا ہے۔ NEET کی تیاری بھی کرنی ہے۔”

ماں نے گہری سانس لی، جیسے سینے پر صدیوں کا بوجھ ہو،
"بیٹا، تم جانتی ہو تمہارے بابا تعلیم کے خلاف نہیں… لیکن کالج کا ماحول… انہیں ڈر لگتا ہے۔ وہ تمہارے رشتے کے لیے بات کر رہے ہیں۔”

"امی، میرے خوابوں کا کیا؟ میں ابھی شادی کے لیے تیار نہیں۔”

ماں نے پیار سے اس کا ہاتھ تھاما، "شام کو خود بابا سے بات کر لینا۔”

شام کو دسترخوان پر سب بیٹھے تھے۔ زویا نے دھیرے سے کہا،
"بابا، کالج میں داخلہ لینا ہے… NEET کی تیاری کے لیے کوچنگ بھی ضروری ہے…”

دادی نے فوراً ٹوکا،
"ہمارے خاندان کی لڑکیاں یونیورسٹیوں میں نہیں جاتیں۔ جانا تو دور، ان کی طرف دیکھنے کی بھی ہمت نہیں کرتیں۔ شکر کرو تم نے میٹرک کر لیا، ورنہ پہلے ہی رخصت کر دیتے۔”

احمد صاحب نے خاموشی سے زویا کی طرف دیکھا۔ وہ نظر، جیسے خنجر ہو، زویا کے خوابوں میں اتر گئی۔ وہ سمجھ گئی کہ بات ان کے دل میں چبھ گئی ہے۔

کھانے کے بعد احمد صاحب نے کہا،
"چائے باہر لان میں لے آؤ، کچھ بات کرنی ہے۔”

زویا چائے لے کر آئی، "جی بابا۔”

"تو تم کہہ رہی تھی کالج؟ NEET؟”
زویا نے سر جھکا لیا، خاموش رہی۔

"بیٹا، ہم نے اپنی بیٹیوں کو کبھی ایسے ماحول میں نہیں to بھیجا۔ ایسا نہیں کہ ہمیں تم پر اعتبار نہیں… مگر جس ماحول میں جاتے ہیں، اکثر اسی میں ڈھل جاتے ہیں۔ کالجوں میں کیا ہوتا ہے، سب جانتے ہیں — لڑکے، آزادیاں، بے راہ روی… میں تمہیں اس راستے پر نہیں ڈال سکتا۔ تم ہمارے گھر کی عزت ہو۔ اگلے ہفتے ایک اچھا رشتہ دیکھنے آ رہا ہے۔”

"بابا، پلیز… صرف ایک موقع دے دیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ کبھی آپ کو شرمندہ نہیں کروں گی۔”

"بس۔ جاؤ۔ آرام کرو۔”

وہ رات زویا کی زندگی کی سب سے طویل رات تھی۔ آنکھوں سے بہتے آنسو، دل کے اندر ٹوٹتے خواب… سب کچھ ایک طوفان بن چکا تھا۔

صبح ناشتے کی میز پر زویا نظر نہیں آئی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے کمرے میں ہے اور ناشتے کا دل نہیں۔ احمد صاحب بھی ناشتہ کیے بغیر زویا کے کمرے میں چلے گئے۔

زویا اپنے اسٹڈی ٹیبل پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی۔ آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔

احمد صاحب آہستہ سے قریب آئے، سر پر ہاتھ رکھا،
"بیٹا؟”

زویا نے سر اٹھایا، آنکھیں چرانے لگی۔

"یہ آنکھیں کیوں سوجی ہیں؟”

پھر اس کے لبوں سے ایک صدیوں کا سوال نکلا،
"بابا، لڑکیوں کو خواب دیکھنے کی اجازت کیوں نہیں ملتی؟ ان کے لیے ہمیشہ پابندیاں کیوں؟ زمانہ بدل چکا ہے، بیٹیاں بھی والدین کا سہارا بن سکتی ہیں۔”

احمد صاحب نے ایک لمحہ سوچا، پھر آہستہ سے بولے،
"نیچے ناشتے کی میز پر آؤ… اور ہاں، اب روئی تو اپنی آنکھیں پھر سوجا لو گی۔ شام کو بات کریں گے۔”

شام کو جب وہ دفتر سے آئے، زویا دروازے پر کھڑی تھی۔

"تم ابھی تک جاگ رہی ہو؟”
"بس آپ کا انتظار تھا۔”

انہوں نے چائے کی پیالی لی، زویا کی آنکھوں میں جھانکا، اور کہا:

"اگر تم اپنے خوابوں کے لیے سچ میں اتنی سنجیدہ ہو، تو کل کالج چلتے ہیں۔ اچھے سے کوچنگ سینٹر میں بھی داخلہ کرواؤں گا۔ لیکن یاد رکھو، ایک بیٹی جب گھر سے باہر قدم رکھتی ہے، تو اس کے سر پر صرف اس کے خواب نہیں، پورے خاندان کی عزت ہوتی ہے۔ تمہارے ہر قدم پر میرا یقین ٹکا ہوگا۔”

"اگر کہیں محسوس ہوا کہ تم نے بھروسہ توڑا… تو میرا مان، میرا اعتماد ٹوٹے گا۔”

کچھ لمحے گزرے، پھر وہ گویا ہوئے:

"میں جانتا ہوں زمانہ بدل چکا ہے، اور شاید میرا ڈر بھی پرانا ہو چکا ہے۔ لیکن ایک باپ کا دل زمانے سے نہیں، اپنی بیٹی کی حفاظت سے جڑا ہوتا ہے۔ تمہاری ماں نے تمہیں سنوارا ہے، میں نے تمہارے لیے دیوار بننے کی کوشش کی ہے۔ آج پہلی بار میں تمہیں خود اپنے خوابوں کی طرف جانے دے رہا ہوں۔ یہ آزادی نہیں، ایک امتحان ہے — میرے اعتماد کا امتحان، تمہاری تربیت کا امتحان۔”

"یاد رکھو، کامیابی صرف ڈگری لینے کا نام نہیں، کردار بنانے کا عمل ہے۔ تمہاری چال، تمہارے الفاظ، تمہارا ہر فیصلہ اس بات کا آئینہ ہوگا کہ تم احمد صاحب کی بیٹی ہو۔”

"میں چاہتا ہوں تم نہ صرف ڈاکٹر بنو، بلکہ اپنے کردار، تمیز اور حیا سے دنیا کو دکھاؤ کہ ایک باپ کا اعتماد کیسے لوٹایا جاتا ہے۔”

"یہ وقت ہے خود کو منوانے کا، دنیا کو یہ بتانے کا کہ بیٹیاں کمزور نہیں ہوتیں، بلکہ اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ آسمان کو چھو سکتی ہیں — وہ آسمان جو اکثر ان کے لیے محدود کر دیا جاتا ہے۔ تم اڑ سکتی ہو، لیکن ان پروازوں میں زمین سے جڑنا نہ بھولنا۔”

زویا کی آنکھوں سے خاموش آنسو بہنے لگے۔ وہ قریب آئی، والد کے ہاتھ تھامے اور دھیرے سے کہا:

"بابا، میں کبھی آپ کا مان نہیں توڑوں گی۔ یہ آپ کا وعدہ ہے مجھ سے، اور میرا وعدہ آپ سے۔”

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close