किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

پانچ کروڑ کی مسجد اور دو ہزار کا امام

تحریر: مولانا سید میر ذاکر علی پربھنی 9881836729
( بذریعہ ضلع نامہ نگار اعتبار نیوز محمد سرور شریف)

ابھی چند دنوں قبل رانچی کے اخبار میں ایک خبر شائع ہوئ تھی کہ ایک امام صاحب جناب قاری انعام الحق صاحب نے مسجد میں 40 سال امامت اور درس و تدریس بحسن خدمات انجام دی۔ انہیں 6000 روپیۓ ماہنامہ دیا جاتا رہا۔ اور جب انہوں نے اپنی ضعف پیری اور کمزوری کی وجہ سے امامت سے مستعفی ہوے تو وہاں کے مقتدیوں نے انہیں دو ہزار روپیۓ اور ٹوپی تسبیح اور عطر دیکر ان کی خدمات کو سراہا۔ یقینا یہ ایک افسوس اور شرمسار کرنے کی بات ہے۔ جہاں پر امام اپنی پوری ذمہداری کے ساتھ آپ کی نمازوں کا خیال کرتا ہو، جہاں امام نمازوں کے زریعہ آپ کی کردار سازی اور دینی و اخلاقی تعلیم سے سرفراز کرتا ہو، نو نہالان قوم کو تعلیم اور ادب سکھاتا ہو۔ جہاں مقتدی امام کے اقتداء میں روزانہ اپنی کامیابی اور کامرانی کی دعا لینے آتے ہو۔ نومولاد کے کان میں اذان ، اور نکاح جیسے اہم معاملات امام کے بغیر انجام نہیں پاتے۔ اور بہت سارے امور امام انجام دیتا ہو۔ اور ہم امام کو اس عظیم کاموں کے بدلے مشاہرہ 6000 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 10000 ہزار۔ دیتے ہو جبکہ ایک پرائمری ٹیچر بھلے سے اس کو کچھ آتا ہو یا نہ ہو۔ وہ تقریبا 70000 ہزار سے 80000 تنخواہ پاتا ہے۔ اور ہمارا امام عالم حافظ کی ہم نے کیا قدر کی ؟۔یہی نہ کہ اس کے سبکدوشی پر جہاں اس کو ایک بڑا انعام ملنے کے بجاے تھوڑا جو نہیں کہ برابر ہے نمٹا دیا جاتا ہے۔ اور کہیں ایسے بھی قدردان اور خوف خدا رکھنے والے ہیں جنہوں نے اپنے امام کو سبکدوشی پر دس لاکھ روپئے اور قیمتی تحائف سے نوازا اور یہی نہیں تا حیات دس ہزار روپۓ وظیفہ بھی جاری کیا۔ ہمارے اماموں کو جو ہماری نماز کی فکر کرتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے۔ بے شک نماز تمام برائیوں سے اور فحش باتوں سے روکتی۔ گویا کہ ایک امام پنج وقتہ نمازوں میں ہمارے کئ گناہوں کو روکنے کا سبب بنتا ہے۔ اور ہم ہمارے امام کو کیا دے رہے ہیں؟ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جس پر ہم کو غور و خوض کرکے حتمی طور ہر اما موں کو کم از کم پچیس ہزار روپئے دینا چاہیے۔جس سے وہ مطمئن ہوں۔ جبکہ ہم مساجد کی تعمیر میں غیر ضروری خرچ کرتے ہیں ، کیا اسلام ڈکوریشن کا نام ہے؟ کیا اسلام میں غیر ضروری اینٹ پتھر پر خرچ کرنا درست ہے ؟ ہم بھی عجیب و غریب ہیں کہ قربانی کے وقت بسا اوقات یہ مشاہدہ میں آتا ہے کہ۔ فلاں قربانی کے بکرہ پر ( اللہ) کانام لکھا ہوا ہے تو اسکی قیمت پانچ لاکھ اور دس لاکھ تک ہوتی ہے۔ اور لوگ اس کو بڑے شوق سے خریدتے ہیں۔ اور جس کے سینے میں تیس پارہ ہوں ، اسکا ماہنامہ مشاہرہ( تنخواہ) سات ہزار یا پھر زیادہ سے زیادہ دس ہزار۔ یہ ہماری کیفیت ہے۔ اسلام میں بھی فضول خرچی بھی درست نہیں ہے۔ ہمیں مساجد کی تعمیر کے ساتھ ، اللہ کے گھر کے امام کی بھی حالات زار دیکھنا ہوگا۔اور اس کا حل انتہائ ضروری ہے۔ ورنہ کل اللہ کے حضور سخت جواب دہی کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اور جان لو کہ امامت خطابت یہ علماء ہی سے کی جاتی اور وہی اس کے اصل حقدار ہیں۔ اور جان لو آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔ فرمایا علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ان کی قدر کریں ۔ ہمیں اور ہماری نسلوں کو دین و ایمان پر اور صحیح عقیدہ پر قائم رکھنا ہو تو ہمیں ہمارے علماء حفاظ مفتیان کرام کی قدر اور دینی مدارس کا تحفظ ضروری ہے۔ جو ہمارا سرمایہ عظیم ہے۔ مدارس مضبوط قلعوں کے مانند ہیں جس سے ہمارا اور ہمارے ایمان کا تحفظ ہوتا ہے۔ ہم اس حدیث سے بھی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عالم اور اہل علم کی کیا قدر اور کیا شان ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ایک عالم فاضل کی موت پوری دنیا کی موت کے مترادف ہے۔ کہ وہ اپنے علم و ادب کی زیاپاشی سے کتنے لوگوں کی زندگیوں کو بدلتا ہے۔ اور کتنے ہی لوگوں کو صحیح رخ کی طرف موڑتا ہے۔ اب سوچئے کہ ہم ان علماء حفاظ مفتیان کرام کی جیسی قدر کرنا چاہیے نہیں کرتے۔ اللہ ہم کو اہل علم کی قدردانی نصیب فرماے ۔آمین۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے