किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

بیاباں کی شب ِ تاریک میں قندیلِ رہبانی

نوک خامہ: محمد انس اسماعیل اڈیشوی

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
اس کارگاہِ عالم میں آنے والا ہر نومولود اپنی ولادت کے ساتھ موت کا پروانہ لیے آتاہے ،اور موت کے خالق ومالک نے صاف اور واضح طور پر اس حقیقت کو آشکارا کردیاہے کہ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ،نہ اس میں کسی شخصیت کا اختصاص ہے ،نہ زمان کا، نہ مکان کا ، نیز نہ اس میں کسی بھی طرح کی تقدیم کی گنجائش ہے ،نہ تاخیر کی ،ہر ایک کو اپنے وقت ِ موعود پر راہی ملکِ بقاء ہوناہے ، چناں چہ فرمایا گیا ’’اذا جاء أجلھم لا یستأخرون ساعۃً ولا یستقدمون‘‘ کہ جب وقت موعودآپہنچے گا تو اس میں ایک لمحہ کی بھی نہ تقدیم ہوگی نہ تاخیر، اور ان سب فرامینِ ربی پر ہمارا ایمان ویقین ہے ، ہمیں اس بات کا کامل طور پر یقین ہے کہ اس کارگاہِ عالم میں سوائے حق جل مجدہ کے علاوہ کسی کو بھی بقاء حاصل نہیں ہے ،ہماری نظروں کےسا منے وہ فرمانِ نبویؑ بھی ہے کہ ’’الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب‘‘ ، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ موت مومن کے لیے ایک تحفہ ہے ، لیکن ان سب کے باوجود جب انسان کو کسی اپنے عزیز واقارب کی موت کی خبردی جاتی ہے تو حرماں نصیبی مزید بڑھ جاتی ہے ،غم واندوہ کی فضا چھاجاتی ہے ،پھر چہ جائے کہ قحط الرجال کے اس افسوسناک عہدِ رواں میں جب کوئی ایسی شخصیت ہمیں داغِ مفارقت دے جائے جس کا وجودِ مسعود کسی ایک گروہ یا کسی ایک جماعت کے لیے مختص نہیں ہوتا؛ بلکہ آج کےدرپیش چند در چند اور نت نئے مسائل وافکار سے پریشان حال اور ہدایت ورہنمائی کے متلاشی اور روز کے نت نئے مسائل سے نبرد آزما امت کے سامنے پیداہونے والے سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے نقطۂ نظر سے متجسس وحسّاس افراد کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہو تو ایسے میں غم والم اور فکر وہموم کا دوچند ہونا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے ، نہ جانے حادثات میں کس قدر سرعت پیدا ہوگئی ہے! ایک سانحہ سے لے کر دوسرے سانحہ کے درمیان وقفہ اتنا کم ہوگیاہے کہ اس سےقرب ِ قیامت کا احساس فزوں تر ہوجاتاہے، اور یہ گمان ہونے لگتاہے کہ قربِ قیامت کے ظلم وجہالت سے معمور دور کی حرماں نصیبی ہمارے حصہ میں تو نہیں آرہی؟ اساطینِ علم وفن کا یوں پے درپے رخصت ہوجانا واقعۃً ہم نونہالانِ علم وفن کے لیے باعث ِ قلق و افسوس ہے ! ابھی اہلِ علم وعلماء محدثِ کبیر حضرت مولانا محمد عاقل صاحب مظاہریؒ (سابق شیخ الحدیث وناظمِ اعلی مظاہر علوم سہارنپور) کی وفات سے ہوئے عظیم خسارہ پر آنسو خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ خادم القرآن والسنۃ، عامر المساجدحضرت مولانا محمد غلام صاحب وستانویؒبھی بتاریخ ٤؍مئی ۲۰۲۵ء مطابق ۵؍ذی قعدہ ۱٤٤٦ھ بروز یکشنبہ اپنے خوبصوررت اور دلکش وجود کے ساتھ معمورۂ عالم سے رخصت پذیر ہوئے اور راہی ملکِ عدم ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
آپ کی علمی وسماجی خدمات کا دائرۂ کار بڑا وسیع و ہمہ گیر تھا ، آپ نے ۱۹۸۰ء میں ’’اکل کوا‘‘ نامی بستی میں جہاں بدعات وخرافات کی بہتات تھی، ایک چھوٹے سے دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی اورپھر عہد بہ عہد ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے آج ۲۵۰۰ ؍ایکڑ میں پھیلا یہ عظیم ادارہ دینی و عصری علوم کا ایک عظیم مرکزوسرچشمہ ومینارۂ ہدایت بن چکاہے ،جہاں تشنگانِ علوم اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لیے جوق درجوق کوچ کررہے ہیں، آپ کی علمی وسماجی خدمات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ ۲۰۲۲ ءکی سالانہ رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں آپ کے ذریعہ سے تعمیرہونے والی مساجد کی تعداد ۷۲٧٤ ہے ،جب کہ مدارس واسکول کی تعداد ۳۷۵ سے متجاوز ہے ،جن سے تقریباً ایک کروڑ سے زائدخوشہ چینانِ علم سندِ فراغت حاصل کرچکے ہیں،مزیدبرآں ملک کے مختلف گوشوں میںجامعہ کے کئی ہسپتال قائم ہوچکے ہیں،جہاں ستم رسیدگانِ زمانہ کی زخموں پر مرہم رکھا جاتاہے ، اسی کے ساتھ حضرت مولانا نے امت مسلمہ کے معصوم نونہالوں کے لیے ملک بھر مکاتب کا ایک ہمہ گیر جال بچھایا جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں دینیات کے طلباء وطالبات اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کررہے ہیںاور کرچکے ہیں، مستزاد یہ کہ ان میں قرآن کی تعلیم و تحفیظ کا شوق پیداکرنے کے لیے’’ مسابقۂ قرآن‘‘ کے نام سے آپ نے ایک زرّیں سلسلہ کا آغاز فرمایاجو ان کے اخلاف کے لیے قابلِ تقلید ہے ، ان کے علاوہ اور کئی ایسے سماجی و فلاحی و تعلیمی سرگرمیاں تھیں جو مولانا سر انجام دے رہے تھے، بلاشبہ، آپ محض ایک فرد واحد نہیں تھے، بلکہ ایک عہد ساز شخصیت، ایک کارواں سالار، اور ایک مجسم تحریک تھے، جن کی جہدِ مسلسل نے ملک و بیرونِ ملک علم، دعوت، اصلاح اور خدمتِ خلق کے متنوع میدانوں میں ایسے نقوش ثبت کیے جو تاریخ کے اوراق میں زرّیں حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ بقول شخصےکہ:
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں جانے والے میں
حضرت مولانا سے ذاتی طور پر راقم السطور کو بے انتہا وبے لوث عقیدت تھی ،ملک کی ان چنداجلۂ روزگار ہستیوں میںجن کی دید و ملاقات راقم کے لیے ایک نخلِ تمنا ، اور تمغۂ سعادت تھی، حضرت مولانا کانام ان میں پیش پیش تھا ؛ اس لیے کہ آپ متبحر عالمِ دین ہونے کے ساتھ امت کے مخلص، مصلح اور مجدد بھی تھے ، آپ نے مدارس کے نظامِ تعلیم میں تجدیدی روح پھونکی، اور آپ نےنہ صرف ’’الجمع بین القدیم الصالح والجدید النافع‘‘کی صدا بلندکی ؛ بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی امت کے سامنے پیش کیا ۔ بقول شخصے :
’’مزاحمت سے دور رہتے ہوئے مثبت تعمیری کام کرکے بیاباں کی شب ِ تاریک میں قندیلِ رہبانی بننے کا ہنر حضرت مولانا وستانویؒ سکھا گئے ،اس طرح حضرت مولانا نے روایتی جنون میں طرزِ نو دریافت کرایا اور کام یا بی رقم کی ، جن کی قمریاں تادیر نغمہ سنج رہیں گی۔‘‘
درحقیقت مولانا کی وفات محض ایک شخصیت کی وفات نہیں، بلکہ ایک عہد تجدید و انقلاب مدارس کاخاتمہ ہے، آپ کی وفات سے علمی دنیا میں جو خلاءپیدا ہوا ہے، شاید اب وہ خلا پر ہوسکے۔ بقول عبدہ ابن طیب ؎
وَ ما کــــانَ قیــــسٌ ھُلــــکہ ھُلـــک واحـــدٍ
وَ لٰکنّـــــہ بُنْیــــانُ قــــومٍ تھــــدّما
بس رب کریم سے دعا ہے کہ حق جل مجدہ حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے، اعلی علیین میں مقام کریم سے سرفراز فرمائے، اور ان کے پسماندگان بطور خاص آپ کے فرزندانِ ارجمند حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی، مولانا اویس وستانوی کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور مولانا کے اوصاف حمیدہ سے ان کی اولاد و احفاد کو بہرہ ور فرمائیں۔ آمین۔
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے