किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

ٹیپو سلطان: 4 مئی یوم شہادت کے موقع پرشیر میسور کا مختصر تعارف

تحریر:پٹھان محمد مصطفیٰ خان
ڈاکٹر ذاکر حسین ہائی اسکول سیلو ضلع پربھنی
8857002235
( بذریعہ ضلع نامہ نگار اعتبار نیوز محمد سرور شریف)

ہندوستان کی تاریخ میں کئی عظیم شخصیات نے اپنا نام درج کرایا ہے، لیکن ان میں سے کچھ ہی ایسے ہیں جن کی بہادری، حکمرانی اور آزادی کے لیے جدوجہد آج بھی لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک تھے ٹیپو سلطان، جنہیں *”شیر میسور”* کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے نہ صرف ایک مضبوط ریاست قائم کی بلکہ برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایک علامتی رہنما بھی تھے۔
زندگی کا آغاز:-
پیدائش اور خاندانی پس منظر:
ٹیپو سلطان کی پیدائش 20 نومبر 1750 کو دیوناہلی میں ہوئی۔ ٹیپو سلطان کا اصل نام *”سلطان فتح علی خان ٹیپو” تھا۔* *وہ حیدر علی کے بیٹے تھے، جنہوں نے میسور کی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔* ٹیپو نے اپنے والد سے حکمرانی اور فوجی حکمت عملی کے بارے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
تعلیم اور تربیت:
انہیں بچپن سے ہی فارسی، عربی، اردو اور کنڑا زبانوں کی تعلیم دی گئی۔ ساتھ ہی فوجی تربیت، گھڑسواری اور تلوار بازی میں بھی مہارت حاصل کی۔
میسور کے حکمران کے طور پراقتدار:-
1782 میں اپنے والد کی وفات کے بعد، ٹیپو سلطان نے میسور کی سلطنت کا تاج پہنا۔ اس وقت برطانیہ ہندوستان میں اپنا قبضہ مضبوط کر رہا تھا اور ٹیپو کو ایک مشکل دور کا سامنا کرنا پڑا۔
انتظامی اصلاحات:
ٹیپو سلطان نے اپنی سلطنت میں کئی جدید اصلاحات متعارف کرائیں۔ انہوں نے ٹیکس نظام کو منظم کیا، زراعت کو فروغ دیا اور تجارت کو بڑھاوا دیا۔
فوجی جدت:
وہ فوج کی جدت پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا اور میسور کی بحریہ کو بھی مضبوط بنایا۔
انگریزوں سے جنگیں:-
پہلی انگلو-میسور جنگ:
ٹیپو سلطان اپنے والد کے ساتھ پہلی انگلو-میسور جنگ میں شامل ہوئے اور اس میں اپنی فوجی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
دوسری اور تیسری انگلو-میسور جنگ:
ٹیپو نے برطانوی استعمار کے خلاف متعدد جنگیں لڑیں اور کئی بار برطانوی فوج کو شکست دی۔ مگر 1792 میں تیسری انگلو-میسور جنگ میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور سرینگاپٹم معاہدے پر دستخط کرنے پڑے۔
چوتھی انگلو-میسور جنگ اور شہادت:
1799 میں چوتھی انگلو-میسور جنگ میں ٹیپو سلطان نے اپنی سلطنت کے دفاع میں آخری سانس تک لڑائی لڑی۔ *4 مئی 1799 کو سرینگاپٹم کے محاصرے کے دوران وہ شہید ہوگئے۔*
علمی اور ثقافتی خدمات:-
علم دوستی:
ٹیپو سلطان علم کے بہت بڑے حامی تھے۔ انہوں نے اپنے دربار میں علماء، شاعروں اور فنکاروں کو سرپرستی فراہم کی۔
مذہبی رواداری:
باوجود مسلمان ہونے کے، ٹیپو سلطان نے مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے رواداری کا ماحول قائم کیا۔ وہ ہندو مندروں کو عطیات دیتے تھے اور دوسرے مذاہب کے تہواروں پر بھی تقریبات منعقد کرتے تھے۔
تکنیکی ترقی:
ٹیپو نے اپنی سلطنت میں صنعت اور تکنیک کو بڑھاوا دیا۔ انہوں نے راکٹ ٹیکنالوجی میں اہم ترقی کی جو اس وقت دنیا میں منفرد تھی۔
یوم شہادت – 4 مئی کی تاریخی اہمیت:
آخری جنگ کا منظرنامہ:
4 مئی 1799 کا دن ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس دن سرینگاپٹم کے قلعے میں برطانوی فوج نے زبردست حملہ کیا، جہاں ٹیپو سلطان اپنے محدود ساتھیوں کے ساتھ آخری مورچے پر تھے۔
بہادری کا آخری مظاہرہ:
اس دن ٹیپو سلطان نے بہادری کی انتہا کر دی۔ جب انہیں پتہ چلا کہ قلعے کی دیوار میں سوراخ ہو گیا ہے، تو وہ خود اپنی تلوار لے کر دشمن کا مقابلہ کرنے نکل پڑے۔
شہادت کا واقعہ:
تاریخی روایات کے مطابق، ٹیپو سلطان نے آخری دم تک لڑائی لڑی۔ وہ متعدد زخموں کے باوجود لڑتے رہے اور نہایت بہادری سے شہادت کا جام نوش کیا۔
میراث اور تاثرات:-
برطانوی استعمار مخالف علامت:
ٹیپو سلطان آج بھی برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایک علامتی رہنما کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے آزادی کے تحریک کے پہلے ہیرو مانے جاتے ہیں۔
بہادری کی مثال:
ان کی بہادری اور وطن پرستی آج بھی نوجوان نسل کے لیے ایک مثال ہے۔ "شیر میسور” کا لقب ان کی دلیری اور بہادری کی گواہی دیتا ہے۔*
تاریخی آثار:
ٹیپو سلطان کی یادگار کے طور پر ان کے محل، قلعے اور دیگر تاریخی عمارات آج بھی موجود ہیں، خاص طور پر سرینگاپٹم میں۔
’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کے سو سال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘
مشہور قول کا پس منظر:
ٹیپو سلطان کا یہ مشہور قول ان کے فلسفے اور جیون کا آئینہ دار ہے۔ یہ جملہ انہوں نے اس وقت کہا تھا جب انہیں انگریزوں کے سامنے سر جھکانے کی تجویز دی گئی تھی۔
قول کی گہرائی:
اس قول میں ٹیپو سلطان نے غلامی کی طویل زندگی کے مقابلے میں آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے شہادت کو ترجیح دی۔ ان کے لیے عزت اور آزادی کے ساتھ گزارا گیا ایک دن، غلامی میں گزارے گئے سو سالوں سے بہتر تھا۔
عملی مظاہر:
ٹیپو سلطان نے اپنے اس قول پر عمل کرتے ہوئے آخری سانس تک انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی۔ وہ ہتھیار ڈالنے یا انگریزوں کے سامنے سر جھکانے پر راضی نہ ہوئے، بلکہ میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
موجودہ دور میں اس قول کی اہمیت:
آج کے دور میں بھی ٹیپو سلطان کا یہ قول اہم ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی میں کمیت سے زیادہ کیفیت اہم ہے۔ عزت اور آزادی کے ساتھ گزاری گئی مختصر زندگی، ذلت اور غلامی کی طویل زندگی سے کہیں بہتر ہے۔
نوجوان نسل کے لیے پیغام:
آج کے نوجوانوں کو بھی ٹیپو سلطان کے اس قول سے سبق سیکھنا چاہیے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ زندگی میں اصول اور عزت کے ساتھ جینا، ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔
ٹیپو سلطان کی زندگی ایک ایسی داستان ہے جو بہادری، عزم اور وطن سے محبت کی علامت ہے۔ انہوں نے اپنے مختصر حکمرانی کے دور میں میسور کو ایک خوشحال اور مضبوط ریاست بنایا۔ 4 مئی 1799 کا دن ان کی شہادت کا دن ہی نہیں، بلکہ ہندوستان کی استعماری تاریخ میں ایک اہم موڑ بھی ہے۔ آج، ٹیپو سلطان کی شہادت کے 226 سال بعد بھی، ان کی بہادری اور قربانی نئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے۔
ان کا مشہور قول *”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کے سو سال کی زندگی سے بہتر ہے”* آج بھی ہر دلیر انسان کے لیے تحریک کا سرچشمہ ہے۔ یہ قول ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کی اہمیت اس کی لمبائی میں نہیں، بلکہ اس کی معنویت میں ہے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی زندگی میں اس قول کو عملی طور پر اپنایا اور آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے شہادت کو گلے لگایا۔
ان کی جدوجہد اور قربانی نے آنے والی نسلوں کو آزادی کی اہمیت کا احساس دلایا۔ ٹیپو سلطان کی زندگی اور ان کی جدوجہد ہمیں سکھاتی ہے کہ آزادی کی جنگ میں سب سے بڑی طاقت عزم اور حوصلہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی شیر میسور کی داستان ہر ہندوستانی کے دل میں زندہ ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے