किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

تحریک طالب علم: دَمدار لطائف ( قسط: تیسری و آخری )

( طلبہ و طالبات کو لطف اندوز و تفریح فراہم کرنے کی غرض سے مندرجہ ذیل ’’ دَمدار لطائف‘‘ پیش کیے جارہے ہیں)

ترتیب: عبدالحمید خان غضنفرؔ، ناندیڑ

٭ جواد : ’’ عامر ، تمہاری یہ حالت کس نے کی، یہ زخموں کے نشان کیسے؟‘‘
عامر: ’’ کل رات مجھے غنڈوں نے اکیلا دیکھ کر گھیر لیا اور مجھ سے پیسے مانگے،میں نے ان سے کہا ’’ میں شاعر ہوں اور اس زمانے میں شاعروں کا حال اچھا نہیں ہے۔‘‘ اس لیے اُنھوں نے مجھے ایک شعر سنانے کے لیے کہا۔ میں نے ایک شعر سنایا تو وہ بھوکے کُتّوں کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے۔
جواد: ’’ وہ شعر کون سا تھا؟‘‘
عامر شعر سناتے ہوئے ؎
بزدل ہی گھیر لیتے ہیں اکثر دلیر کو
کُتّے بھی زیر کر لیتے ہیں موقع سے شیر کو
٭٭٭٭٭٭
٭ مالک : ’’ میں نے تمہاری مزدوری تمہارا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردی ہے۔۔۔ پھر بھی تم ناخوش نظر آرہے ہو؟‘‘
مزدور: ’’ لیکن جناب! آپ نے مزدوری اس قدر کم دی ہے کہ مجھے دوبارہ پسینہ آگیا ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭٭
٭ آفس جاتے ہوئے ایک صاحب کو اُن کی بیوی نے تھرڈ فلور سے پکارا ’’ سنئے آپ اپنی عینک اور رومال بھول گئے ہیں، انھوں نے جواب دیا ’’ پھینک دو میں کیچ کرلوں گا، میں کرکٹ کا بہترین کھلاڑی رہ چکا ہوں۔‘‘ بیوی نے عینک پھینکی جس کو بے چارے کرکٹ کے کھلاڑی کیچ نہ کرسکے اور وہ سڑک پر گر کر پاش پاش ہوگئی۔ عینک کا حشر دیکھ کر وہ چیخے ’’ رومال مت پھینکنا، میں ابھی اوپر آرہا ہوں۔‘‘
٭٭٭٭٭٭
٭ مالک : ( نوکر سے) ’’ آج تم نے چائے کچھ عجیب سی بنائی ہے؟‘‘
نوکر: ’’ صاحب آپ کہتے ہیں کہ اگر دودھ نہ ہو تو ٹالکم پاؤڈر سے چائے بنا لیا کرو، آج ٹالکم پاؤڈر بھی نہیں تھا تو میں نے بلیچنگ پاؤڈر سے چائے بنالی۔‘‘
٭٭٭٭٭٭
٭ دو دوست گنجا اور اندھا بارات میں کھانا کھا رہے تھے، گنجے نے مذاق سے اندھے کی پلیٹ میں ایک بڑا پتھر رکھ دیا۔ اندھے نے اسے کھانا چاہا، جب وہ پتھر کو نہیں کھا سکا تو اوپر پھینکا ، اتفاق سے وہ پتھر جاکر گنجے کے سر پر لگا۔ گنجے کو چوٹ لگی تو گنجا خوب زور سے چلایا ’’ پھوٹ گیا، پھوٹ گیا۔‘‘ اس پر اندھے نے کہا ’’ آدھا مجھے بھی دو۔‘‘
٭٭٭٭٭٭
٭ ایک مریض کے گلے کا آپریشن تھا، ملک کے نامور سرجن کو طلبہ کے سامنے کرنا تھا۔ جب مریض آپریشن کے بعد ہوش میں آیا تو اُسے تعجب ہوا کہ گلے میں درد کے علاوہ اس کے پیٹ پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہاں بھی درد کی ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔ اس نے دریافت کرنے پر بتایا ’’ گلے کے کامیاب آپریشن پر طلبہ نے اس قدر زور شور سے داد دی کہ پروفیسر صاحب نے مزید کمالات دکھانے کے لیے آپ کا اپنڈکس کا آپریشن کر ڈالا، یہ بھی کامیاب رہا۔‘‘
٭٭٭٭٭٭
٭ ایک تیز اور اونچا گھومنے والے جھولے میں ایک صاحب بہت دیر سے بیٹھے تھے، ہر بار ایک پھیرے کے بعد جھولا رُکتا تو سارے لوگ اُتر جاتے، لیکن وہ صاحب بیٹھے رہتے، حتیٰ کہ جھولا دوبارہ چلنے لگتا۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگتیں، رنگ پیلا پڑ جاتا، جھولا رُکتا تو وہ اُلٹیاں کرنے لگتے۔ ان کے دوست احباب ان سے منتیں کررہے تھے کہ اپنی جان پر رحم کریں، پھر بھی وہ جھولے سے اُترنے کا نام نہیں لے رہا تھا، آخر ایک دوست نے پوچھا ’’ آخر کیا بات ہے؟ تم جھولے سے اُتر کیوں نہیں رہے ہو؟‘‘ کیا یہ جھولا پسند آگیا ہے؟‘‘ ان صاحب نے کہا ’’ پسند نا پسند کو بھاڑ میں ڈالو۔ اس جھولے والے نے مجھ سے چار سو روپئے اُدھار لے رکھے ہیں، ایک سال ہوگیا ہے دینے کا نام نہیں لیتا، آج میں اس کے جھولے میں پورے چار سو کا جھولا جھول کر ہی جاؤں گا۔‘‘
٭٭٭٭٭٭

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے