किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب

تحریر: ابو خالد بن ناظر الدین ، فاضل دار العلوم دیوبند
8638836434

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی کسی قوم نے اپنی بنیاد ایمان، تقویٰ، صداقت، عدل، قربانی اور جہدِ مسلسل پر رکھی، تو وہ سربلند رہی، فتوحات اُس کے قدم چومتی رہیں، اور دشمن اس کے ذکر سے لرزاں رہا۔ لیکن جب وہی قوم اپنے اصل مرکز و مقصد سے ہٹ گئی، دنیا کی ظاہری چمک دمک میں کھو گئی، اور آخرت کی تیاری سے غافل ہو گئی، تو عزت ذلت میں، رفعت پستی میں، اور طاقت کمزوری میں بدل گئی۔
آج اگر ہم اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی حال پر نظر ڈالیں، تو دل لرز اٹھتا ہے۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے، مگر کچھ بھی نہیں۔ ہم تعداد میں کثیر، وسائل میں مالدار، مگر دل سے خالی اور عمل سے دور ہیں۔ آخر اس زوال کی وجہ کیا ہے؟ ہم کیوں ماضی کی طرح دنیا کی قیادت سے محروم ہو گئے؟
اسی سوال کا واضح اور جامع جواب ہمیں اُس حدیثِ مبارکہ میں ملتا ہے، جو حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور جو نہ صرف ہماری موجودہ حالت کی سچی تصویر پیش کرتی ہے، بلکہ اس کے اسباب اور علاج کی نشاندہی بھی فرماتی ہے۔
عَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا.
فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟
قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ، وَلَيَنْزِعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنَّ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ.
فَقَالَ قَائِلٌ: وَمَا الْوَهْنُ؟
قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ
(رواہ أبو داود، والبیہقی فی دلائل النبوة، مشكاة المصابيح، ص 459، باب تغير الناس، الفصل الثاني)
ترجمہ:حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عنقریب اقوامِ عالم تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی، جیسے بھوکے لوگ کھانے کے تھال پر جھپٹتے ہیں۔
صحابہ کرام میں سے ایک نے عرض کیا: کیا یہ اس وجہ سے ہوگا کہ اس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! بلکہ تم اُس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہوگے، مگر تمہاری حیثیت ایسی ہوگی جیسے پانی کے جھاگ، یعنی بے وقعت، کمزور اور بیکار۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب و دبدبہ ختم کر دے گا، اور تمہارے دلوں میں وہن داخل کر دے گا۔
پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! وہن کیا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے کراہت۔
قرنِ اول کے مسلمانوں کی ترقی کا راز:
یہ تاریخ کا ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ قرنِ اول کے مسلمان تمام اقوامِ عالم کے لیے ایک مثال بن چکے تھے۔ وہ علم و عدل کے مینار، ایمان و ایقان کے ترجمان، اور حق و ہدایت کے پرچم بردار تھے۔ جہاں وہ قدم رکھتے، فتح و کامرانی ان کا استقبال کرتی۔ جب اقوامِ عالم نے ان کے اندر دیانت، صداقت، اخلاقِ حسنہ اور انسان دوستی جیسے اوصاف دیکھے، تو ان کے دل بھی کھنچتے چلے گئے، یہاں تک کہ وہ خود حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔
ایسے ہی نو مسلمین بھی جب ایمان، عمل اور اخلاق میں ان کے رنگ میں رنگے گئے، تو "وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر” کا عملی مظاہرہ بن گئے۔ دنیا نے انہیں صرف بلندیوں پر نہیں بٹھایا، بلکہ ان کے قدموں میں آنکھیں بچھائیں۔ آج بھی تاریخ کے اوراق ان کے ناموں سے روشن ہیں۔
اب سوال یہ ہے: وہ کون سی دولت تھی جس نے انہیں اس شان سے نوازا؟
کیا ان کے پاس دولت، زر و جواہر، یا عسکری قوت کے انبار تھے؟
ہرگز نہیں!
ان کے پاس تو فقط ایمان، اخلاص، اخلاق، یقین، علم و عمل، خوفِ خدا، اور آخرت کی فکر تھی۔ یہی ان کی اصل پونجی اور ترقی کا حقیقی راز تھا۔
دورِ حاضر کے مسلمانوں کا زوال:
آج کے مسلمانوں کے پاس بظاہر سب کچھ ہے—دولت، حکومت، اسبابِ دنیا، وسائل، سہولیات، جدید آلات، اور بہت کچھ۔ کئی ممالک تو عسکری لحاظ سے طاقتور اور مالی اعتبار سے خود کفیل ہیں۔ لیکن افسوس! اس سب کے باوجود مسلمان زوال کا شکار ہیں، ان کی عظمت ماضی کا خواب بن چکی ہے، اور ان کی آواز دنیا کے لیے بے اثر ہو چکی ہے۔
عالمی ادارے جو انسانی حقوق کے نام پر کام کر رہے ہیں، وہ بھی صرف غیر مسلم اقوام کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ مسلمان خواہ برسوں سے ظلم و ستم کا شکار ہوں، ان کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ اُلٹا ان کے قاتلوں اور ظالموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔
یہی وہ حالت ہے جس کی خبر حضور ﷺ نے دی تھی: يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ…
اور جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حیرت سے دریافت کیا کہ کیا ہم اس وقت قلیل ہوں گے؟
تو حضور ﷺ نے واضح فرمایا:
بل أنتم یومئذ کثیر، ولکنکم غثاء
یعنی تمہاری تعداد زیادہ ہوگی، مگر تم بے وزن و بے اثر ہوگے۔
مسلمانوں کی زوال کا اصل سبب:
آپ ﷺ نے اس زوال کے دو بنیادی اسباب بیان فرمائے:
١. دنیا کی محبت
٢. موت سے نفرت
یعنی جب دل دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب جائے، آخرت کی یاد مدھم ہو جائے، اور موت ایک ناگوار حقیقت محسوس ہو تو یہی وہن ہوتا ہے۔ یہی مسلمانوں کی اصل تباہی ہے۔
تاریخ کے آئینے میں:
تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو سلطنتِ عباسیہ کا زوال، خلافتِ عثمانیہ کا انہدام، اندلس کا سقوط—all ان ہی اسباب کا نتیجہ تھے۔
اندلس کے آخری ایام میں مسلمانوں کی دنیا پرستی، عیش پرستی، اور غفلت اس حد کو پہنچ گئی کہ عید کے دن نماز عصر کا وقت شاہی جلوس کے دوران نکل گیا۔ یہ محض ایک علامت ہے اس اندرونی بگاڑ کی جو امت کے زوال کا سبب بنا۔
تو پھر کیا ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ اسلاف جیسے اعمال چھوڑ کر ہم ان جیسے نتائج حاصل کر لیں گے؟
جو شخص نیم کا درخت لگا کر انگور کی توقع کرے، اس کی عقل پر ماتم نہ کیا جائے تو اور کیا جائے؟
ہلاکت کی حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت:
ہمارے زوال کی حقیقت وہی ہے جو حدیث میں بیان کی گئی—دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔
یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ جب دنیا کی محبت دل میں رچ بس جائے گی، تو موت خوفناک محسوس ہوگی، اور آخرت اجنبی لگے گی۔ یہی وہ مرض ہے جس کا علاج ہمیں کرنا ہے۔
حضور ﷺ کی پیش گوئی من و عن پوری ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے کفار ایک ہو چکے ہیں۔ وہ ہمیں نیست و نابود کرنے پر تلے ہیں۔ لیکن اس میں ہماری ہی کوتاہیاں کارفرما ہیں۔
یاد رکھیے!
مسلمانوں کا زوال، اسلام کا زوال نہیں۔
اسلام ایک آفتاب کی طرح روشن ہے۔
زوال ہمارا ہے، اور وہ بھی ہماری بد عملی کی وجہ سے۔
امید کی کرن اسلام کا بڑھتا دائرہ۔
یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ نازک ترین حالات کے باوجود اسلام کا دائرہ دن بہ دن پھیلتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد لوگوں میں اسلام کو سمجھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ یہ اس دین کی حقانیت کی دلیل ہے۔
لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری عزت بحال ہو، تو ہمیں اپنے اندر کی دنیا درست کرنی ہوگی—اللہ کی محبت پیدا کرنی ہوگی، اور دنیا کی محبت دل سے نکالنی ہوگی۔ اس کا واحد ذریعہ: کثرتِ ذکر اور اہل اللہ کی صحبت ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عبرت ناک واقعہ:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بار اپنے حواریوں کے ساتھ ایک بستی سے گزرے، جہاں کے سب لوگ مُردہ حالت میں گلیوں میں پڑے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ نے دعا کی، اور رات کے وقت ان میں سے ایک مردے کو آواز دی۔ اس نے لبیک کہا۔
پوچھا: تم پر کیا گزری؟
اس نے کہا: ہم رات کو عافیت سے سوئے، مگر صبح ہلاکت میں جا پڑے۔
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا:کیوں؟
کہا: دنیا کی محبت اور بدکاروں کی اطاعت کی وجہ سے!
پوچھا: دنیا سے تمہاری محبت کیسی تھی؟
کہا: جیسے بچے کو ماں سے محبت ہوتی ہے—جب دنیا سامنے آتی ہم خوش ہوتے، اور جب جاتی تو روتے۔
(بحر الدموع لابن الجوزی، جلد ۴، ص: ۶۱، ترجمہ "آنسوؤں کا سمندر”، ص: ۶۳)
چار اصولِ نجات:
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے فرمایا: ہماری فلاح و کامیابی چار اصولوں میں ہے:
١. صبر و استقامت
٢. تقویٰ و طہارت
٣. اتحادِ ملت
٤. استطاعت کے مطابق قوت کی تیاری
یہی قرآن کی ہدایت ہے:
وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا” (آل عمران: 120)
اگر ہم نے اب بھی دنیا پرستی، غفلت اور بے عملی نہ چھوڑی تو ہلاکت کے ہم خود ذمہ دار ہوں گے۔ اسلام کا مستقبل تو روشن ہے، مگر ہمارا انجام تاریک ہو سکتا ہے—العیاذ باللہ!
اللہ رب العزت ہمیں قبل از وقت بیداری عطا فرمائے، اور اپنی رحمت سے ہماری حفاظت فرمائے، آمین۔
يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا أَبَدًا
عَلَى حَبِيبِكَ خَيْرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمْ

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے