किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

بھارت میں مسلم طلبہ مسابقتی امتحانات میں نئے معیار قائم کر رہے ہیں

تحریر: اسرار احمد
مسعودیہ غریب نواز سوسائٹی، لکھنؤ
7499202096

ایک وقت تھا جب مسلم سماج تعلیم سے دور تھا لیکن اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں کیونکہ گزشتہ کچھ سالوں میں ہم مسلم معاشرے میں تعلیم کے تئیں رجحان بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ بھارت میں مسلم طلبہ تعلیمی کامیابی کے بیانیے کو اب نئی شکل دینے لگے ہیں خصوصا پیشہ ورانہ شعبوں UPSC، JEE، UG NEET میں کامیابی قابل ذکر ہے۔ مسلم طلبہ تعلیمی و مسابقتی امتحانات میں رکاوٹوں کی بندشوں کو توڑ کر نئے معیار قائم کر رہے ہیں۔
یہ مسلم طلباء مدارس اور میٹروپولیٹن کوچنگ سینٹرز دونوں پس منظر سے ابھر کر سامنے ارہے ہیں۔ جو دیرینہ دقیانوسی تصورات کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان طلبہ کے کامیابی ان کی ذاتی محنت و لگن، کمیونٹی سپورٹ اور سماجی تعصبات کو چیلنج کرنے کے عزم کو ظاہر کرتی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اب بڑے بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں میں بھی ملی تنظیمیں نے مسلم طلبہ کے لیے مفت کوچنگ کیریئر کونسلنگ کے ذریعے مثبت ذہن سازی کر رہے ہیں، جس کے نتائج میں UG- NEET جیسے بڑے امتحانات میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ حالیہ UG NEET 2025 کے نتائج پر نگاہ ڈالی جائے تو مسلم طلبہ متاثر کن مثال پیش کرتے ہیں۔ آسام کے گوہاٹی سے تعلق رکھنے والے موسی کلیم نے 99.97 پرسنٹائل کا متاثر کن اسکور حاصل کیا۔ ریاست میں 42000 سے زائد درخواست دہندگان میں موسی کلیم نے سب سے زیادہ نمبر حاصل کر کامیابی کا پرچم بلند کیا۔
سال 2024 کے NEET امتحانات میں 2.08 ملین سے زائد طلباء حاضر رہے۔ جن میں سے تقریباً 1.15 ملین کامیاب ہوئے۔یہ نتائج تمام پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباء کو ظاہر کرتے ہیں۔جن میں بڑی تعداد میں مسلم بھی شامل ہیں جو اعلی سطح پر مقابلہ کر رہے ہیں۔امینہ عارف قادیا والا۔ اردو میڈیم طالبہ جو ممبئی کے ایک پسماندہ خاندان سے تعلق رکھتی ہے انہوں نے UG NEET 2024 میں ایک شاندار اسکور حاصل کیا اور اس کی کامیابی نے اس بات کو واضح کیا کہ لسانی حیثیت یا سماجی حیثیت کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔
یہ نتائج بتاتے ہیں کہ مسلم طلبہ بھی دوسرے طلبہ سے بھرپور مقابلہ کر کے مین اسٹریم سے جڑ رہے ہیں۔ امینہ عارف قادیا والا نے UG NEET 2024 میں شاندار سکور حاصل کیا۔ مدھ پردیش کے برہان پور سے تعلق رکھنے والے 17 سال کے ماجد مجاہد حسین نے ADVANCE JEE 2024 میں 360 میں سے 330 نمبر حاصل کرکے آل انڈیا تیسری رینک پا کر اپنے ضلع کا نام روشن کیا۔ یو پی کے ایمبیڈکر نگر کی راشدہ خاتون نے UPSC 2022 کے فائنل رزلٹ میں 354 رینک حاصل کیا۔ اسی طرح سے اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی سلطنت پروین نے UPPSC 2022 میں چھٹی رینک حاصل کرکے اس تصور کو توڑ دیا کہ مسلم سماج کی لڑکیاں تعلیمی میدان میں پیچھے ہیں۔ اس طرح کی ایک طویل فہرست ہے۔
امینہ، راشدہ خاتون اور سلطنت پروین کی کامیابی نے اس بات کو واضح کر دیا کہ لسانی حیثیت یا سماجی حیثیت کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ مسلم طلبہ کی یہ کامیابی اتفاق نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے سخت محنت اور مسلم کمیونٹی کے حوصلہ افزائی کے مثبت نتائج ہیں۔
مہاراشٹر کے HSC امتحانات میں اریبہ عمر ہنگورا اور مومن معاذ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ مذہبی تعلیم اور عصری تعلیم ساتھ ساتھ چل سکتی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ جدید تعلیم حاصل کرنے میں کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ آج مدارس سے تعلیم یافتہ طلباء بڑی تعداد میں UG NEET میں کامیابی کی عبارت نقل کر رہے ہیں۔
یہ کہانیاں اس چیلنج کو غلط ثابت کرتی ہیں کہ دینی تعلیم عصری و جدید تعلیم کے مابین تصادم ہے۔ بھارت کی پہلی مسلم خاتون نیورو سرجن مریم عفیفہ انصاری جیسی خاتون دوسری خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں۔اتر پردیش کے سرسوتی ودیا مندر کے پرنسپل یوگل کشور مصرا نے اپنے ریسرچ کے دوران بتایا کہ گزشتہ تین سالوں میں مسلم داخلوں میں 30 فیصد نمایاں اضافہ کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ ریسرچ ثابت کرتی ہے کہ مسلم معاشرے میں تعلیم سے وابستگی ایک وسیع رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
مسلم طلبہ کی تعلیمی میدان میں بڑھتی کامیابی ثبوت ہے کہ بھارت کے تعلیمی ادارے ان باہمت طلبہ کی حمایت کر رہے ہیں۔ حکومت کی اسکیموں اسکالرشپس اور ریزرویشن پالیسیاں مراعت یافتہ برادریوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تشکیل دی گئی ہیں لیکن مین اسٹریم میں آنے کے لیے دوسری کمیونٹیز سے زیادہ مسلم طلبہ کو محنت کرنی پڑے گی۔ سابق پروفیسر ارونسی مہتا نے بھارت میں مسلمانوں کی تعلیم کی صورتحال نامی ریسرچ شائع کیا جس کے مطابق جنوبی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مسلم تعلیم شمالی ریاستوں سے بہتر ہے۔ 18 سے 23 سال کی عمر کے درمیان مسلم طلبہ کا مجموعی قومی اندراج تناسب GER 8.41 فیصد تھا۔ اس میں خواتین نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جن کا GER 9.43 رہا، جبکہ مردوں کو GER 8.44 فیصد تھا۔
جنوبی ہند کی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 2016.17 میں اعلیٰ تعلیم میں 1739218 مسلم طلبہ کا اندراج ہوا تھا جو 2019.20 میں بڑھ کر 2100860 ہو گیا۔ تاہم اگلے سال اس میں 8.53 فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی اور اعلی تعلیم مسلم طلبہ کے اندراج کی تعداد 1921713 رہ گئی۔ یعنی کی 179147 طلبہ کی کمی واقع ہوئی۔
ہندی پٹی ریاستوں کی بات کریں جن میں کم از کم نو ریاستیں اور ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ شامل ہے اتر پردیش، بہار ،مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ ،ہماچل پردیش ،ہریانہ، چھتیس گڑھ، راجستھان، اترا کھنڈ اور دہلی ہیں،ایک تحقیق کے مطابق یہاں تمام اسکولوں میں تقریبا 7 فیصدی مسلم طلبہ اعلی تعلیم کے لیے رجسٹرڈ ہیں جو کہ مجموعی قومی اندراج تناسب سے کم اور جنوبی ریاستوں کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہیں۔
ان میں جھارکھنڈ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ کا تناسب سب سے زیادہ تقریبا 15 فیصد اور اتراکھنڈ 12.48 فیصد کا نمبر آتا ہے۔ یہ صرف دو ریاستیں ہیں جہاں یہ اعداد و شمار ڈبل ڈیجٹ میں ہیں تیسرے درجے پر دارالحکومت دہلی ہے اور سب سے نچلے پائیدان پر ہریانہ ریاست 4.49 فیصد کا نمبر آتا ہے۔ یہ رپورٹ بھلے ہی پریشان کن ہو لیکن اب مسلم معاشرے میں تصویر تیزی سے بدلنے لگی ہے۔
سال 2016 اور 2021 کے درمیان مرکزی حکومت نے مسلم طلباء کو 2.3 کروڑ روپے سے زائد اسکالرشپ سے نوازا جو 9904 کروڑ روپے ہوتی ہیں۔اعلی تعلیم مسلم طلبہ کے محض 4.6 فیصد نمائندگی ہے۔ اگر ہم او بی سی اور ایس سی طلبہ کی بات کریں تو مسلم طلبہ کی نمائندگی میں نمایاں کمی ہے جو غور و فکر کرنے کا مقام ہے باوجود اس کے اعلی نمبر حاصل کرنے والے طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد تعلیمی و مسابقتی امتحانات میں کامیابی کو از سر نو متعین کرتی ہے۔
حکومت اور این جی اوز کی مشترکہ کاوشیں تعلیم تک رسائی کو بہتر بنا رہی ہیں کامیابی حاصل کرنے والے مسلم طلبہ اقلیتی برادریوں میں مثبت تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں موجودہ وقت میں طلبہ عزم اور تعاون کے ساتھ زبان مذہب اور معاشیات کی حدود کو عبور کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ شمال مشرقی بھارت میں موسی کلیم جیسے کامیاب افراد مقامی لوگوں کے لیے مشعل راہ بن گئے ہیں جو اساتذہ اور پالیسی سازوں کو مزید جامع تدریس کے ماحول کو تیار کرنے کے لیے متاثر کرتے ہیں۔
معمولی تفاوت برقرار ہے باوجود اس کے UPSC 2022 میں کامیاب امیدواروں میں مسلمانوں کی کل تعداد محض 2.9 فیصد تھی۔ NEET اور بورڈ امتحانات میں ٹاپرز کی بڑھتی تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی سطح پر ترقی ہو رہی ہے۔ مسلسل کوچنگ اور اسکالرشپ کی پہل ایک امید افزا رفتار کو ظاہر کرتی ہے۔ بھارت اس وقت ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے جہاں پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبہ اپنی مکمل صلاحیتوں کو حاصل کرنے کے لیے با اختیار ہو رہے ہیں۔
امینہ، موسیٰ، راشدہ خاتون ،سلطنت پروین، ماجد مجاہد حسین ،مباشرہ اور بہت سا دوسرے طلبہ کی کامیابی کو فردا فردا نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ مثبت گائیڈنس مالی امداد اجتماعی کاوشیں لچکدار اور انتھک عزائم پر مبنی تعلیمی ماحولیاتی نظام کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ بھارت میں مسلم طلبہ محض تعلیمی کامیابی کو متاثر نہیں کر رہے وہ اس بات کو نئے سرے سے معیار دے رہے ہیں۔
یہ بالکل واضح ہے کہ مسلم معاشرے میں تعلیم کے تئیں بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ خاص طور پر مسلم بچیاں تمام بندشوں کو توڑ کر تعلیمی میدان میں بڑھ رہی ہیں۔ مسلم طلبہ میں ڈراپ اؤٹ زیادہ اس لیے ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے سامنے معاشی تنگی سماجی بندشیں اور وسائل کی کمی بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے باوجود اس کے ایک مثبت تبدیلی نمایاں ہو رہی ہے مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی حکومتیں اس جانب خاص توجہ مرکوز کریں تو جلد مثبت نتائج سامنے ہوں گے۔
کامیاب طلبہ کا سفر ثابت کرتا ہے کہ جب موقع پختہ عزائم سے ملتا ہے تو صلاحتیں کسی بھی کونے سے ابھر کر نمایاں ہو سکتی ہیں۔ یہ طلبہ ہمیں دکھاتے ہیں کہ متنوع اور جمہوری بھارت کا مستقبل ہر بچے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے میں ہے چاہے وہ سماج کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتاہو۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے