किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

اے پی جے عبدالکلام کی تعلیم: اساتذہ اور بچوں کے لیے ایک سبق

از قلم:شیخ شفیق الرحمٰن شیخ احمد
محمد عبدالحفیظ پٹنی اردو پرائمری اسکول، نریگاؤں، اورنگ آباد

تعارف
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا شمار اُن عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو اپنی علم دوستی، سادگی، دیانتداری اور خلوص کے ذریعہ متاثر کیا۔ وہ ایک ماہرِ سائنس دان، مصنف، فلسفی، اور بھارت کے گیارہویں صدرِ جمہوریہ تھے۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو اساتذہ، طلبہ، والدین اور قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ان کی تعلیمی جدوجہد، اساتذہ سے محبت، علم کے حصول کی لگن، اور بچوں سے اُن کی خاص وابستگی ہمیں سکھاتی ہے کہ علم ایک نور ہے، جو صرف کتابوں میں نہیں بلکہ انسان کی نیت، محنت، خلوص، اور کردار میں بھی ہوتا ہے۔
بچپن اور ابتدائی تعلیم: سادگی میں عظمت
ڈاکٹر کلام کا تعلق ایک غریب مسلم خاندان سے تھا۔ ان کے والد ایک کشتی بان تھے جو حج یاتریوں کو لے جایا کرتے تھے۔ ان کا بچپن تنگ دستی، محنت اور سادگی میں گزرا، لیکن انہوں نے کبھی حالات کا شکوہ نہیں کیا۔ ان کے اندر بچپن ہی سے سیکھنے کا جنون تھا۔ اسکول کے بعد وہ اخبار تقسیم کرتے تاکہ تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں۔
یہ سبق بچوں کے لیے ہے کہ اگر ہم سچے دل سے سیکھنا چاہیں تو حالات کبھی رکاوٹ نہیں بنتے۔ اصل چیز ہے: لگن، حوصلہ اور استقلال۔
اساتذہ کا کردار: کلام کی زندگی میں روشن چراغ
کلام ہمیشہ کہتے تھے:
> “میری زندگی کے سب سے بڑے معمار میرے اساتذہ تھے۔”
ان کی زندگی میں خاص طور پر دو اساتذہ کا کردار نمایاں ہے:
1. آئیر ماسٹر (مدرسہ کے استاد)
2. پروفیسر ستیش دھون (ان کے سائنسی کیریئر کے رہنما)
آئیر ماسٹر نے ایک دن کلاس میں پرندوں کی اُڑان کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے نہ صرف کلام کے ذہن میں اُڑنے کی خواہش جگائی بلکہ اُن کی سائنس میں دلچسپی پیدا کی۔ اس دن کے بعد کلام نے طے کر لیا کہ وہ سائنس دان بنیں گے۔
یہ سبق تمام اساتذہ کے لیے ہے: ایک استاد کا ایک جملہ، ایک جذبہ، ایک رہنمائی کسی بچے کی پوری زندگی کا رُخ بدل سکتی ہے۔
تعلیم میں اخلاص اور محنت: کلام کا رازِ کامیابی:
ڈاکٹر کلام نے نہ صرف اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی بلکہ ساری زندگی سیکھتے رہے۔ وہ کہتے تھے:
> “سیکھنا ایک عمل ہے جو زندگی بھر جاری رہتا ہے۔”
انہوں نے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں تعلیم حاصل کی اور بعد میں بھارت کے میزائل پروگرام کا اہم حصہ بنے۔ اُن کی محنت کی بدولت بھارت نے اگنی، پرتھوی، اور دیگر میزائلوں میں خود کفالت حاصل کی۔
یہ سبق بچوں کے لیے ہے: محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔ اگر ہم مسلسل سیکھتے رہیں، تو ہم کسی بھی میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
سادگی، اخلاق اور کردار: تعلیم کا اصل مقصد:
ڈاکٹر کلام ایک سادہ انسان تھے۔ جب وہ صدر بنے تو بھی وہ اپنے کردار اور عادتوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائے۔ انہوں نے کبھی عیش و آرام کو ترجیح نہیں دی بلکہ علم، اخلاق، دیانت اور عاجزی کو اہمیت دی۔
ان کے لیے تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ایک اچھا انسان بننا تھا۔ وہ ہمیشہ کہتے:
> “تعلیم انسان کو صرف علم نہیں دیتی بلکہ اسے انسان بناتی ہے۔”
یہ سبق اساتذہ اور والدین دونوں کے لیے ہے: بچوں کو صرف کتابی علم نہ دیں بلکہ ان میں اخلاق، رحم، محنت، اور دیانت کے اصول بھی پیدا کریں۔
بچوں سے محبت: ان کا سب سے خاص پہلو:
ڈاکٹر کلام بچوں کو قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے:
> “بچے ہی ہمارے مستقبل کی بنیاد ہیں۔ ان میں خواب دیکھنے اور اُنہیں پورا کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔”
وہ اکثر اسکولوں، کالجوں، اور تعلیمی اداروں میں جا کر بچوں سے خطاب کرتے۔ وہ بچوں کو خواب دیکھنے، سوال کرنے، اور کچھ نیا کرنے کی ترغیب دیتے۔
ایک بار ایک بچی نے پوچھا:
سر! آپ اتنے بڑے انسان ہوکر بھی اتنے سادہ کیوں ہو؟”
تو ڈاکٹر کلام نے جواب دیا:
کیونکہ علم انسان کو عاجز بناتا ہے، غرور نہیں۔”
یہ سبق بچوں کے لیے ہے: سادہ رہو، سیکھتے رہو، خواب دیکھو، محنت کرو، اور سب سے بڑھ کر انسانیت کو مت بھولو۔
اساتذہ کے لیے نصیحت: قوم کے معمار بنو:
ڈاکٹر کلام کا ماننا تھا کہ اگر کوئی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے اساتذہ کو مضبوط بنانا ہوگا۔ وہ کہتے تھے:
> “ایک اچھا استاد لاکھوں ذہنوں کو روشن کر سکتا ہے۔”
وہ اساتذہ کو صرف مضمون پڑھانے والا نہیں بلکہ "ذہنوں کو روشن کرنے والا چراغ” مانتے تھے۔ ان کے مطابق، ایک استاد کو صرف کتابیں نہیں پڑھانی چاہئیں بلکہ بچوں میں سوال کرنے کی ہمت، سوچنے کی طاقت، اور کچھ نیا کرنے کی جستجو پیدا کرنی چاہیے۔
کلام کا پیغام: خود کو پہچانیے:
ڈاکٹر کلام ہمیشہ کہتے تھے:
خود پر یقین رکھو، خواب دیکھو، اور اپنے مقصد کے لیے مسلسل محنت کرو۔”
انہوں نے یہ بھی کہا:
اگر تم سورج کی طرح چمکنا چاہتے ہو تو سورج کی طرح جلنا سیکھو۔”
ان کا پیغام تھا کہ ہم سب میں کچھ خاص ہے، بس ہمیں خود کو پہچاننے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم صرف امتحان پاس کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ زندگی بہتر بنانے کا راستہ ہے۔
نتیجہ:
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی تعلیم، ان کی زندگی، اور ان کے الفاظ ہم سب کے لیے ایک سبق ہیں — خاص طور پر اساتذہ اور بچوں کے لیے۔
اساتذہ کو چاہیے کہ وہ صرف نصاب پڑھانے والے نہ بنیں بلکہ بچوں میں اخلاق، تخلیق، اور تحقیق کا جذبہ پیدا کریں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو صرف نمبر لانے کی مشین نہ بنائیں بلکہ ان کے خوابوں کو سمجھیں اور ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں۔
اور بچوں کو چاہیے کہ وہ کلام صاحب کی طرح خواب دیکھیں، لگن سے سیکھیں، عاجزی سے بڑھیں، اور کبھی ہار نہ مانیں۔
آخر میں ڈاکٹر کلام کا ایک خوبصورت قول:
> “خواب وہ نہیں جو نیند میں آئیں، خواب وہ ہیں جو نیند کو چھین لیں۔”

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے