किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مسلم نوجوانوں کی بے راہ روی کے اسباب

عارف عزیز (بھوپال)
آج کی مادہ پرست دنیا میں جب کہ زندگی کے مسائل لامحدود اور وسیع تر ہوتے جارہے ہیں روز بروز انسان کو نئی نئی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ حالانکہ آئے دن دنیا میں نئی نئی ترقیات ہورہی ہیں، انسان نئی نئی ایجادات کر رہا ہے، علم کا چرچا ہر سو ہے۔ سائنس ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے پھر بھی ان سب کے ساتھ سماج کے اندر بگاڑ بھی اپنی برق رفتاری سے پروان چڑھ رہا ہے۔ معاشرہ بگڑ رہا ہے، خاندان کے اندر انتشار برپا ہے۔ معاشرہ یا سماج افراد سے بنتا ہے یعنی فرد سماج کی ہی اکائی ہے لہٰذا اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ معاشرہ کے افراد کے اندر اپنی ذمہ داری کا احساس شاید ہے ہی نہیں۔
اصلاح معاشرہ کے متعلق سے آج ہر شہر قصبہ میں بہت سی انجمنیں قائم ہیں اور کام بھی کر رہی ہیں مگر نتیجہ کے طور پر ہی ڈھاک کے تین پات نظر آتے ہیں۔ موجودہ وقت چکا چوند کا زمانہ ہے جس میں مسلم نوجوان بھی دوسری قوموں کی طرح بے مقصد شب و روز گزار رہا ہے۔ وہ بغیر منزل کا راہی ہے اس کے ذریعہ سماج کی اصلاح کی بات تو دور، معاشرہ کی فکر تک ان کے ذہن میں نہیں ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ مسلم نوجوان اپنے مقام کو نہیں سمجھ پایا یا اس کوسمجھایا نہیں گیا۔ اس کو مقصد زندگی کی یاد دہانی نہیں کرائی گئی۔ دوسری قوموں میں جو سماجی اور دیگر برائیاں ہیں مسلم نوجوان بھی ان میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس بے راہ روی کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔
پہلی یہ کہ معاشرہ کے اندر تعلیم نسواں کے باضابطہ نظم کا نہ ہونا کیونکہ کسی بھی قوم کا مستقبل خواتین کی گود میں کھیلتے ہوئے بچے ہوتے ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ باشعور خاتون ایک کنبہ کی تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ وہ اسلامی اصول و ضوابط کے خطوط پر زمانۂ اطفال میں ہی بچے کی صحیح تربیت کرتی ہے اور اگر بدقسمتی سے ماں ہی ناخواندہ ہے تو وہ اپنے نسل کی کیا تربیت کرسکے گی۔ نتیجتاً کسی مہذب اور باشعور معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔
حالانکہ علمائے دین کی میدان علم میں بیش بہا خدمات رہی ہیں جن کی بدولت ہندوستان میں ملت اسلامیہ کا قابل فخر وجود ہے۔ اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم کے لئے تگ و دو صرف لڑکوں تک ہی محدود رہی اور تعلیم نسواں کی طرف خاص توجہ نہیں دی گئی لہٰذا کوشش کے مطابق معاشرے میں بدلاؤ نہ آسکا اور دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مسلم معاشرہ تعلیم کے لحاظ سے دو گروپوں میں منقسم ہے ایک دینی تعلیم یافتہ اور دوسرا عصری تعلیم یافتہ طبقہ۔ اس سلسلہ میں جہاں تک ہمارا احساس ہے کہ علمائے دین عربی مدارس اور وہاں کے ماحول تک محدود ہوکر رہ گئے اور انہوں نے جدید ذہن عصری تعلیم یافتہ طبقہ کو نظر انداز ہی کیا ہے۔ مختصر الفاظ میں یوں کہیں کہ سینکڑوں سالوں سے ایک خلیج حائل ہے جس کو کم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے