किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

غزہ: زمین کا ایک تنگ ٹکڑا، جہاں پوری قوم کو مٹایا جا رہا ہے!

غزہ:10؍جولائی:غزہ کے محصور اور جنگ زدہ علاقے میں انسانیت اپنی سب سے گہری خندق میں گر چکی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا ترقی، تہذیب اور انسان دوستی کے دعوے کرتی ہے، قابض اسرائیل کے ظلم و ستم تلے 23 لاکھ فلسطینی صرف غزہ کے 15 فیصد علاقے میں ٹھونس دیے گئے ہیں۔ اس مختصر پٹی میں پناہ لینے والے لاکھوں انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے، نہ دوا، تحفظ، نہ سکون، نہ زندگی کی رمق۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں زندگی سسکتی ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
جہنم بن چکی غزہ: اعداد و شمار کا کرب
یورومیڈیٹیرین ہیومن رائٹس مانیٹر کی رپورٹ چیخ چیخ کر دنیا کو جھنجھوڑ رہی ہے کہ فلسطینیوں کو محض 15 فیصد زمین میں قید کر دیا گیا ہے۔ ایسی جگہ جہاں انسانوں کا ہجوم کسی بھی آباد خطے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے اور بنیادی زندگی کی سہولیات کا تصور بھی نہیں۔ قابض اسرائیل نے یا تو فوجی قبضے سے یا جبری ہجرت کے احکامات کے ذریعے غزہ کے 85 فیصد علاقے کو بند کر دیا ہے۔ وہ علاقے جنہیں "محفوظ کہہ کر لوگوں کو دھکیلا جاتا ہے دراصل موت کے نئے جال ثابت ہو رہے ہیں، کیونکہ ان ہی علاقوں کو بار بار بمباری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مکمل تباہی: گھر، سکول، ہسپتال، سب کچھ مٹ گیا
اکتوبر سنہ2023 سے جاری اس درندگی میں مقامی و بین الاقوامی ادارے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ غزہ کی 92 فیصد رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ 80 فیصد سے زائد سکول تباہ ہو چکے ہیں یا شدید نقصان کا شکار ہیں۔ 90 فیصد ہسپتال مکمل طور پر کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔جامعات کو زمین بوس کر دیا گیا ہے، شہر مٹا دیے گئے ہیں۔ خزاعہ، خان یونس، رفح، اور غزہ شہر کے وسیع علاقے گویا نقشے سے غائب ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی جنگ نہیں، یہ تو منظم نسل کشی ہے۔
دل دہلا دینے والی گواہیاں
الشجاعیہ کی ام یوسف بے گھر ہو کر المواصی پہنچی ہیں کہتی ہیں کہہم 17 لوگ ایک خیمے میں رہ رہے ہیں جہاں پانی، نہ دوا، نہ کوئی پرائیویسی۔ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، حتی کہ تحفظ کا احساس بھی۔ ہمیں کہتے ہیں محفوظ علاقوں میں جا، ہم جاتے ہیں اور پھر وہاں بم برسائے جاتے ہیں فیلڈ ہسپتال کے جراح ڈاکٹر رزق ابو شعیرہ بتاتے ہیں کہ "یہ صحت کا نہیں بلکہ موت کا منظر ہے۔ کبھی بغیر بے ہوشی کے آپریشن کرتے ہیں، موبائل کی روشنی میں جراحی کرتے ہیں۔ نہ دوا، نہ خون، نہ جراثیم کش مواد۔ ہم اپنے سامنے لوگوں کو مرتے دیکھتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر سکتے۔بین الاقوامی قانون کے ماہر ایڈووکیٹ یوسف محیسن کا کہنا ہیکہ "غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ سست رفتاری سے کی جانے والی نسل کشی ہے، جس میں گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور جبری ہجرت کے ذریعے منظم آبادیاتی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ ہر علامت اس جرم کی تصدیق کرتی ہے۔
نسل کشی کی پالیسی: جبری ہجرت اور آبادیاتی تبدیلی کا منصوبہ
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ صرف جنگ نہیں بلکہ ایک ایسی منصوبہ بندی ہے جس کا ہدف غزہ کے نقشے اور آبادی کو ہمیشہ کے لیے بدل دینا ہے۔ یورو میڈ کی رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ فلسطینیوں کی جبری ہجرت، ایک مکمل اور واضح آبادیاتی تبدیلی کے منصوبے کا حصہ ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی انسانی قانون بلکہ جنیوا کنونشنز کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
کیا غزہ رہنے کے قابل ہے؟
اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں سمیت متعدد انسانی حقوق کی تنظیمیں کئی بار اعلان کر چکی ہیں کہ غزہ اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ پانی اور بجلی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، صحت کا نظام زمین بوس ہو چکا ہے، خوراک کا تحفظ ناپید ہے، اور وبائیں ہر طرف پھیل رہی ہیں۔ان تمام تباہ کاریوں کے باوجود آج تک کوئی عالمی کوشش، جنگ بندی کے قیام میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ قابض اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کے احترام پر مجبور کرنا تو دور، اسے روکا بھی نہیں جا سکا۔ فلسطینیوں کی آنکھیں آج بھی بین الاقوامی اداروں کی جانب امید سے دیکھ رہی ہیں کہ شاید وہ کچھ کریں اس سے پہلے کہ سب کچھ ختم ہو جائے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے