किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

تاریخی شہر اورنگ آباد، جس کی رونق آج بھی قائم ہے

تحریر: عارف عزیز(بھوپال)

شہر اورنگ آباد دکن کا ایک قدیم اور مشہور شہر ہے، جو عرصہ سے ریاست مہاراشٹرمیں شامل ہے، اس کے نام سے اندازہ ہوتا ہے کہ اورنگ زیبؒ نے اسے آباد کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کے عہد سے کافی پہلے اسے بسایا گیا، شہر کا پرانا نام ’’کھڑکی‘‘ ہے۔ ملک عنبر نے ۱۶۱۰ء میں اسے اپنا صدر مقام بنایا اور ’’فتح نگر‘‘ نام رکھا، مغل دور حکومت میں اورنگ زیب کو دکن کی صوبیداری پر فائز کیا گیا تو انہوں نے ۱۶۵۲ء میں اس شہر کا نام ’’اورنگ آباد‘‘ رکھا اور اسی نام سے آج تک یہ شہر مشہور ہے۔
اورنگ آباد اپنی علمی، ملی اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے پورے ملک میں جانا جاتا ہے، بزرگان دین نے اس سرزمین کو کلمہ حق  بلند کرنے کیلئے  کیا، سینکڑوں مساجد درجنوں مدارس اور بے شمار تاریخی عمارات نے اس شہر کی شان اور ملی حمیت میں اضافہ کیا ، پرانا شہر دن بدن وسیع ہورہا ہے قدیم محلوں میں آبادی بڑھنے سے نئی بستیاں بھی بسائی جارہی ہیں۔
کوئی اٹھائیس سال پہلے ۱۹۷۱ء میں پہلی مرتبہ اس شہر کی جامع مسجد میں تبلیغی اجتماع کے دوران میں نے قیام کیا تھا تو مسجد کے ارد گرد دور دور تک آبادی نہیں تھی لیکن رابطہ ادب اسلامی کے۲۷ویں سیمنار میں شرکت کیلئے ہمارا قافلہ پروفیسرمحمد حسان خاں اور مولانا عمیر الصدیق ندوی کی قیادت میںوہاں پہونچاتو ہمیں اورنگ آبادی کی دنیا ہی بدلی نظر آئی، جامعہ اسلامیہ کا شف العلوم واقع جامع مسجد کو پہلے بھی دیکھا تھا، اب اس کی عمارت دور دور تک پھیل گئی ہیں اور شہری آبادی نے اسے گھیر لیا ہے۔
اورنگ آباد شہر کے چاروں طرف فصیل کو اورنگ زیب نے بنوایا تھا، جس کی باقیات آج بھی موجود ہیں، شہر کے مغربی جانب فصیل سے متصل ایک نہر بہتی ہے اسی نہر سے کبھی ’’پن چکی‘‘ چلتی تھی، صبح وشام شہر کے لوگ یہاں سیر وتفریح کے لئے آتے ہیں، اورنگ آباد میں یوں تو پرانے زمانہ کی بے شمار خوبصورت عمارتیں، مسجدیں اور مقبرے موجود ہیں لیکن ان میں ’’جامع مسجد‘‘ اور ’’بی بی کے مقبرہ‘‘ کو اہمیت حاصل ہے۔ تاریخی جامع مسجد کو بجاطور پر ہندوستان کی چند عظیم وشاندار مساجد میں شمار کیا جاسکتا ہے، اس کی تعمیر میں دو نیک دل فرماں رواں یعنی ملک عنبر اور اورنگ زیب ؒ کا حصہ ہے، مسجد کے ۴۷ حجروں میں مدرسہ کاشف العلوم کا آغاز ہوا، جو ترقی کرکے جامعہ بن گیا ہے اور مشرقی دروازے کے باہر دو بڑی عمارتوں میں، اس کے درجات لگتے ہیں اور طلباء کی اقامت گاہ قائم ہے، یہاں کثرت سے دینی اجتماعات ہوتے ہیں، رابطہ ادبِ اسلامی کا ایک سیمی نار پہلے اور دوسرا اب ہورہا ہے۔
بی بی کے مقبرہ میں اورنگ زیب کی بیوی بی بی رابعہ دورانی کی قبر ہے، یہ مقبرہ آگرہ کے تاج محل کا چھوٹا نمونہ معلوم ہوتا ہے، اسی طرح کا باغ اور نہریں، درمیان میں بلند چبوترہ ، اس کے چاروں کونوں پر اونچے اونچے مینار، وسط میں بڑا گنبد اور ارد گرد چھوٹی چھوٹی برجیاں اسے چھوٹا تاج محل ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں، اسی لئے لوگ بی بی کے مقبرہ کو ’’دکن کے تاج محل‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں، ہرے بھرے درختوں کے درمیان سفید عمارت نہایت دلکش نظر آتی ہے، آگرے کا تاج محل مکمل طور پر سنگِ مرمر سے بنا ہے اس میں رنگ برنگ کے قیمتی پتھر جڑے ہیں، لیکن بی بی کے مقبرے کیلئے غالباً قیمتی پتھر میسر نہ آسکے، حقیقت یہ ہے کہ تاج محل کو اورنگ زیب کے والد شاہ جہاں نے بنوایا تھا اور یہ مقبرہ اورنگ زیب کے بیٹے محمد اعظم شاہ نے تعمیرکرایا ہے، یہ دونوں عمارتیں دادا اور پوتے کی بنوائی ہوئی ہیں اور اسی لئے ان میں واضح فرق ہے، ایک تمام دنیا میں مشہور ہے اور دوسری کی شہرت مہارشٹر ودکن تک محدود ہے۔ نظام شاہی حکومت کے دوران بی بی کے مقررہ کو حیدرآباد منتقل کرنے کی کوشش ہوئی تھی لیکن وہ ناکام رہی، نواب سکندر جاہ نے یہاں ایک اور مسجد بنوائی جس سے مقبرہ کی خوبصورتی وجازبیت پر منفی اثر مرتب ہوا۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ ملک شاہ نے مقبرہ کو منتقل کرنے کے لئے وہاں کام شروع کرایا تو ایک نیک بخت خاتون کے مقبرہ کی بے حرمتی قدرت کو گوارہ نہ ہوئی، ایک شب ملک شاہ کی مرحومہ بیوی دلبرس بانو نے خواب میں آکر اس پر ناراضگی ظاہر کی لہذا کام روک دیا گیا اور اپنی اس غلطی کے کفارہ میں ملک شاہ نے وہاں مسجد تعمیر کرادی۔
اورنگ آباد میں ملک عنبر نے نہروں کے ذریعہ آب رسانی کا ایسا انتظام کیا تھا کہ شہر میں پانی وافر مقدار میں ملنے لگا، گھر گھر باغ نظر آنے لگا، ایسا انتظام ہندوستان کے کسی دوسرے شہر میں نہ تھا، جب اورنگ زیب یہاں آئے تو اس شہر کی مزید ترقی ہوئی اور آبادی کئی لاکھ تک پہونچ گئی ’’ہر کمال را زوال کے مصداق‘‘ شہر کے برے دن آئے تو بستی اجڑتی گئی، اب پرانی عمارتوں کے کھنڈر شہر کے چاروں طرف دور دور تک نظر آتے ہیں، اس سب کے باوجود اورنگ آباد کی رونق میں کوئی فرق نہیں آیا، بلکہ تیس سال کے دوران شہر کی آبادی بڑھنے کے باوجود مجھے یہ شہر پہلے کی طرح پرسکون وخوبصورت ہی دکھائی دیا۔نئی آبادی بڑی حد تک منظم ہے، سڑکیں کشادہ ، کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں، اس لئے ترقی کی رفتار تیز ہے ، مسلمان آج بھی پچاس فیصد کے قریب ہیں، کبھی مسلم سلاطین کی جولانگاہ رہا، یہ شہر اپنے آثار قدیمہ کی وجہ آج بھی دیکھنے کے لائق ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے