किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

وقف ترمیمی بل: سیاسی بے عملی یا آئینی ناانصافی؟

سید شاہ واصف حسن واعظی
سجادہ نشین خانقاہ عالیہ وارثیہ حسنیہ ،لکھنؤ
9235555776

وقف ترمیمی بل راجیہ سبھا سے منظوری اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد اب ایک مکمل قانون بن چکا ہے۔ سرکاری بیانات کے مطابق اس قانون کا مقصد وقف جائیدادوں کے نظم و نسق کو بہتر بنانا ہے، لیکن اس قانون کے متعدد پہلو ایسے ہیں جو ملک کے مسلمانوں میں شدید تشویش کا باعث بنے ہیں۔ اس بل کے ذریعے حکومت کو وقف املاک کے انتظام میں جو نئے اختیارات حاصل ہوئے ہیں، وہ بظاہر انتظامی سہولت کیلئے ہوں، لیکن اقلیتی برادری خاص طور پر مسلمانوں کو یہ خدشہ ہے کہ اس سے ان کی خودمختار مذہبی و فلاحی اداروں پر ریاست کا کنٹرول بڑھ جائے گا۔
وقف املاک محض زمین یا جائیداد کا نام نہیں ہے، یہ مسلمانوں کی صدیوں پرانی فلاحی سوچ کی علامت ہیں۔ مدارس، مساجد، یتیم خانے، درگاہیں، حتیٰ کہ عوامی کچن اور طبی مراکز بھی ان وقف جائیدادوں کی بدولت قائم رہے ہیں۔ ان جائیدادوں پر ریاستی مداخلت کو صرف قانونی مسئلہ سمجھنا خطرناک سادگی ہوگی۔ یہ ایک سماجی، ملی اور تہذیبی خودمختاری کا سوال بھی ہے۔ اگر وقف املاک پر حکومت کا کنٹرول بڑھتا چلا گیا تو اس کا اثر صرف چند جائیدادوں تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اقلیتوں کی شناخت، آزادی اور ادارہ جاتی خودمختاری بھی متاثر ہوگی۔اس موقع پر مسلمانوں کو صرف قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے بجائے خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ اب وقت ہے کہ ملک کے مسلمان اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کریں اور یہ سمجھیں کہ محض ووٹ دینا کافی نہیں، ووٹ سے اقتدار میں شرکت بھی ہونی چاہیے۔ اگر سیاست میں شرکت نہیں، اگر فیصلے کی میز پر مسلمان نہیں، تو پھر کوئی بھی قانون ان کی مرضی کے خلاف آسانی سے پاس ہو سکتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی نے انہیں آئینی تحفظ کے باوجود بارہا محرومیوں سے دوچار کیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 341 ہندو دلتوں کو ریزرویشن کی ضمانت دیتا ہے، لیکن جب وہی دلت اگر مسلمان ہو تو اسے اس سہولت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ 10 اگست 1950ء کا وہ نوٹیفکیشن آج تک ملک کے مسلمانوں کے ساتھ ایک مستقل امتیاز کی بنیاد بنا ہوا ہے۔ اس پر دہائیوں سے آواز بلند کی جا رہی ہے، لیکن چونکہ مسلمان فیصلہ ساز ایوانوں میں موثر تعداد میں موجود نہیں، اس لیے ان کی آواز گونج بن کر رہ جاتی ہے۔
وقف ترمیمی قانون بھی اسی خاموشی کا نتیجہ ہے۔ جب ووٹ بینک تو مضبوط ہو، مگر نمائندگی کمزور، تو یہی ہوتا ہے کہ پالیسی سازی میں اقلیتیں نظرانداز کی جاتی ہیں۔ سیکولر پارٹیوں نے برسوں تک مسلمانوں سے ووٹ لیے، مگر انہیں اقتدار میں شریک نہیں کیا۔ مایاوتی نے جو فارمولا’’جس کی جتنی سنکھیا بھاری، اس کی اتنی حصہ داری‘‘ پیش کیا تھا، وہ دلت سماج کیلئے کامیاب رہا، مگر مسلمانوں نے اس فارمولا کو نہ اپنایا، نہ اس پر عمل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ووٹ دینے والی قوم بن کر رہ گئے، ووٹ لینے والی قیادت نہ بن سکے۔
جمہوریت میں ہر قانون کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ وقف ترمیمی قانون بھی آئین کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ اگر اس میں ایسے نکات موجود ہیں جو آئین کی دفعات 25 سے 30 (مذہبی آزادی، اقلیتی اداروں کا تحفظ، خود اختیاری) سے متصادم ہوں، تو عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں اس کے خلاف دستوری چیلنج دائر کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا بارہا کہنا رہا ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے والے قانون کو وہ رد کر سکتا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے لیے عدلیہ ایک امید ضرور ہو سکتی ہے، بشرطیکہ قانونی چارہ جوئی سنجیدگی، تیاری اور قومی مفاد کے ساتھ کی جائے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر ملی اداروں نے اس قانون کے خلاف جو احتجاج درج کیا ہے، وہ اس امر کا اظہار ہے کہ یہ محض انتظامی قانون نہیں بلکہ ایک تہذیبی مسئلہ بھی ہے۔ اگرچہ پرسنل لا بورڈ کے بیانات اور اجلاسوں سے وقتی بیداری پیدا ہوتی ہے، لیکن ان کا اثر اسی وقت دیرپا ہو سکتا ہے جب یہ احتجاج عوامی سطح پر بیداری کی تحریک میں ڈھل جائے۔ محض قراردادوں یا پریس ریلیز سے قانون سازی کے عمل پر دباؤ نہیں پڑتا، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملی ادارے عوام، وکلا، دانشوروں اور نوجوانوں کو منظم کر کے ایک واضح، مدلل اور آئینی مہم کا آغاز کریں۔
عدالت کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم محاذ ہے: عوامی شعور۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر ملی تنظیموں نے وقف قانون پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں، وہ ابتدائی قدم ہیں، لیکن اگر یہ احتجاج صرف پریس ریلیز یا جلسوں تک محدود رہا تو اس کا اثر عارضی ہوگا۔ اس احتجاج کو عوامی تحریک میں بدلنے کے لیے ملک بھر میں بیداری مہم چلانا ہوگی۔ قانونی ماہرین، سول سوسائٹی، اقلیتی برادریاں اور سنجیدہ حلقے اس میں شامل ہوں، تو حکومت پر اخلاقی و جمہوری دباؤ بنایا جا سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے کئی قوانین عوامی تحریکوں کے دباؤ میں واپس لیے گئے ہیں یا ان میں ترمیم کی گئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اپنی صف بندی کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ انہیں اپنی قیادت خود تیار کرنی ہوگی۔ ایسی قیادت جو فکری طور پر باخبر ہو، جمہوری اداروں کی ساخت سے واقف ہو، اور جسے سیاست صرف اقتدار کی بازیگری نہ لگے، بلکہ قوم کی خدمت کا ذریعہ سمجھا جائے۔ بار بار اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو قومی سطح پر اپنی سیاسی حکمت عملی ازسرنو وضع کرنی چاہیے۔
وقف قانون کی مخالفت اس وقت موثر بن سکتی ہے جب مسلمان سیاست کے میدان میں منظم ہوں۔ اگر وہ اپنے ووٹ کا استعمال حکمت عملی کے ساتھ کریں، اپنی قیادت کو سامنے لائیں، اپنے مسائل کو سیاسی زبان میں رکھیں، اور ہر قانون پر رائے دینے کی طاقت رکھیں، تو نہ صرف ایسے قوانین پر روک لگائی جا سکتی ہے بلکہ پچھلے امتیازی قوانین کو بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔یہ بھی وقت ہے یہ سمجھنے کا کہ سڑکوں پر نکلنا ایک وقتی جذبہ ہو سکتا ہے، لیکن پارلیمنٹ میں پہنچنا ایک مستقل حکمت عملی ہے۔ جب تک وقف جیسی اہم لڑائیاں اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں نہیں لڑی جائیں گی، تب تک یہ صرف جذباتی بحثیں بن کررہ جائیں گی۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم صرف رد عمل کی سیاست کرتے رہیں گے، یا ایک متحرک، بیدار، اور منظم قوم بن کر اپنے مستقبل کی سمت خود متعین کریں گے۔
اس وقت مسلمانوں کو ایک سمت درکار ہے، ایک لائحہ عمل، جو انہیں احتجاج کے دائرے سے نکال کر فیصلہ سازی کی میز تک لے جائے۔ اگر ہم نے اب بھی سیاسی شعور نہ پیدا کیا، اور اپنے مسائل کی زمینی حقیقتوں کو نہ سمجھا، تو وقت گزرنے کے بعد صرف پچھتاوا باقی رہ جائے گا۔ اگر آج ہم نے قیادت پیدا نہ کی، تو کل کو نہ وقف بچے گا، نہ شناخت۔ وقت ہے کہ ہم جاگیں، منظم ہوں، اور اس ملک کی سیاست میں اپنے لیے وہ جگہ حاصل کریں جو ہماری آبادی، ہماری قربانیوں، اور ہمارے آئینی حقوق کا تقاضا ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے