
از قلم.. تسنیم کوثر انصار پٹھان
(غیبن شاہ نگر میونسپل اردو اسکول نمبر 1، کرلا)
ہم پر اللہ رب العزت کے ان گنت احسانات و نوازشوں میں سے ایک عظیم تحفہ رمضان مہینے کی شکل میں حاصل ہے.اس مہینے میں کیا جانے والا ایک نیک کام بدلے میں ستر ثواب دلواتا ہے. اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا عشرہ مغفرت و بخشش اور آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کا ہے.
اللہ نے اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات پیدا کی ہیں ان میں سب سے افضل مقام انسانوں کو حاصل ہے اور یہ اللہ کی محبت انسانوں کے لیے اس قدر ہے کہ وہ ہمیں ایسے ایسے مواقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اللہ سے قریب سے قریب تر ہوتے جائیں. اس کی رحمتوں، نعمتوں سے سرفراز ہو سکیں. ان تمام مواقع میں رمضان جیسے بابرکت مہینے کا شمار ہونا لازمی ہے. یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ کی رحمتوں کی برسات ہوتی رہتی ہے کبھی سحر تو کبھی افطار کی فضیلت کے طور پر، روزوں و تراویح کے اجر کے طور پر، ہر نوافل کو فرائض کی حیثیت عطا کرکے.
اس مہینے میں قرآن پاک کا نزول ہوا. رمضان المبارک کے استقبال کے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں. زمین آسمان پر خوشی ومسرت کا عالم ہوتا ہے. اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے شیاطین کو قید کرلیا جاتا ہے. جہنم کے دروازے پورے ماہ کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں.
ہمارے پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آنے سے پہلے سے ہی استقبال کی تیاری میں لگ جاتے تھے. آپ شعبان کے مہینے کے روزے رکھتے تاکہ رمضان کے روزوں کا لطف لے سکیں. آپ صحابہ اکرام کو بھی ہدایت دیتے اور یہ خوشخبری سناتے کہ ایک مبارک مہینہ آنے والا ہے اس کی تیاری میں لگ جاؤ. اپنی عبادات و تلاوت میں اضافہ کرلو. غفلت وسستی کرنے سے منع فرماتے. جو لوگ اس سے محروم رہتے ان پر افسوس ظاہر کرتے.
اب بات ذرا ہم اپنی کرتے ہیں.. کیا ہم اس پاک و بابرکات مہینہ کی جس کی عبادات کی فضیلت بتائی گئی ہیں مکمل طور پر ان باتوں کی عمل آواری کرتے ہیں؟ صرف پورا دن بھوکے رہنا ہی روزہ نہیں کہلاتا.
بہت سے ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں خواتین صرف اور صرف باورچی خانے میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرتی ہیں. رمضان کا مہینہ ہمیں بھوک کی شدت کو برداشت کرکے عبادات کرنے کی تلقین کرتا ہے.
ہمارے سے مسلم بھائی جن کا پیشہ تجارت ہے وہ سالانہ آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ اسی مہینہ میں کما لیتے ہیں. عبادات و نوافل سے زیادہ اپنا وقت کاروبار میں صرف کرتے ہیں. یہ کیسی محرومی ہے؟ آخر ایک مومن ہو کر اتنی بڑی نعمت سے خود کو کیسے محروم رکھ سکتے ہیں؟ اپنے اہل وعیال کے لیے روزی کمانا شرعی فریضہ ہے لیکن نماز و روزوں کو چھوڑ کر کمائی گئی روزی کیا ہمارے روح کو تسکین پہنچا سکتی ہے؟
معاشرے کا ایک بڑا حصہ آدھی آدھی رات تک بازاروں میں خرید و فروخت میں اپنا وقت صرف کرتا نظر آتا ہے. کیا یہ خرید و فروخت قبل از وقت نہیں ہو سکتی؟ بازاروں کی چمک دمک اور چہل پہل دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ اللہ نے رمضان جیسے با برکت مہینے کو ہم مومنوں کے لیے اپنی خاص رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کے طور پر تحفہ میں عطا کیا ہے یہ خاص رحمتیں ہماری طرف متوجہ ہیں اور ہم بازاروں کی طرف..
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی انوار و برکات اور اپنی خاص رحمتوں کے سائے میں ہمیشہ رکھے. ہماری کوتاہیوں کو درگزر کر ہماری عبادات کو قبول فرمائے.. آمین ثم آمین