किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

سود کی حرمت قرآن وحدیث کی روشنی میں

تحریر: رضی اللہ قاسمی خیرآبادی
متعلم شعبہ افتاء دارالعلوم وقف دیوبند
 ( بذریعہ نامہ نگار محمد سرور شریف پربھنی )
مورخہ 8 ستمبر 2024 بروز اتوار
 محترم قارئین ! سود یہ اردو زبان کا لفظ ہے، اس کو عربی میں ربا اور انگریزی میں (Interest) کہتے ہیں ، اس کا مطلب ہے وہ زیادتی جو عوض سے خالی ہو، سود شرعی نقطۂ نظر سے کس درجہ ناپسندیدہ اور آخرت کے لئے کتنا خطرناک ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی حرمت قرآن پاک کی سات آیتوں اور چالیس سے زائد حدیثوں اور اجماعِ امت سے ثابت ہے، جس کی حرمت قطعی اور دائمی ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے: وأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا. یعنی اللہ تعالٰی نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے (سورة بقره آیت نمبر ۲۷۵) ۔
سود ایسا گھن ہے کہ وہ جس کاروبار میں لگ جاتا ہے اسے برباد کر کے رکھ دیتا ہےجیسا کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے: يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ“ (سورہ بقرہ:٢٧٦)
اسی طرح سودی کاروبار کی سخت مذمت فرمائی گئی ہے اور سود کھانے والے قیامت کے روز حیران ومدہوشی کی حالت میں خبطی بنا کر اٹھائے جائیں گے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے ثابت ہے :الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرَّبُوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ المَسِّ“ (سوره بقره : ۲۷۵) ۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی نے سودی کاروبار کو چھوڑنے اور اس سے باز رہنے کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے اور سودی لین دین میں جمے رہنے اور اس سے باز نہ آنے والوں کو خدا اور رسول سے اعلان جنگ کا چیلنج بتلایا ہے اور فرمایا کہ: اے ایمان والو! اگر تم حقیقی معنٰی میں مؤمن ہو تو سودی کاروبار ترک کردو اور جو ربا باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو، اگر تم کو یہ منظور نہیں ہے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور خدائی طاقت کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاؤ جیسا کہ یہ آیت چلینج کررہی ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبُوا إِنْ كُنتُمْ مُّؤْمِنِينَ۞فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ “ (سوره بقره: ۲۷۹)۔
اسی طرح حدیث شریف میں سود کے لینے دینے والے پر ہی نہیں ،بلکہ سود کا حساب وکتاب لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر بھی اللہ کے رسول نے لعنت بھیجی ہے
  "عن جابر قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أٰكل الربوا وموكله وكاتبه و شاهدیه” (ابوداؤد ۱۱۷/۲ مسلم ۲۷/۲ مشکوۃ ا/ ۲۴۴)۔
ایک اور جگہ حضور ﷺ نے مزید شدت کے ساتھ یہ فرمایا کہ ایک درہم کے بہ قدر سود کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ بدتر ہے۔
” قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دِرهمُ ربًا يأكلُه الرَّجلُ وهوَ يعلَمُ ؛ أشدُّ من سِتةٍ وثلاثين زَنْيَةٍ . (مشكوة ١ /٢٤٦) ۔
 اس حدیث شریف کے ذیل میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ربٰوا کو چھتیس مرتبہ زنا سے زیادہ برا اس لئے کہا گیا کہ سودی کاروبار اللہ ورسول سے اعلان محاربہ اور مقابلہ آرائی ہے، اور اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ سے مقابلہ آرائی چھتیں مرتبہ زنا سے زیادہ برا اور باعث بر بادی ہے ( حاشیہ مشکوة / ۲۴۶ ، اشعۃ اللمعات ۲۳/۳) ۔
ربا کا لفظ سودی معاملہ کے لئے زمانہ جاہلیت سے معروف ومشہور طریقے سے مستعمل ہوتا چلا آیا ہے اور موجودہ دور میں ربا نظام تجارت کے رکن اعظم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ، نصوص قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے جب اس کی حرمت سامنے آتی ہے تو عام طبائع ان کی حقیقت کو سمجھنے اور سمجھانے کے وقت اس کی حرمت سے ہچکچاتی ہیں اور حیلہ جوئی کی طرف مائل ہوتی ہیں، جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے : عن أبي هريرة أن رسول الله ﷺ قال ليأتينَّ علَى النَّاسِ زمانٌ لا يبقى أحدٌ إلَّا أكَلَ الرِّبا فإن لم يأكلهُ أصابَهُ من بُخارِهِ قالَ ابنُ عيسَى أصابَهُ من غبارِهِ (ابوداؤد ۲ / ۱۱۷ مشکوۃ ۱ / ۲۴۵)
حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں کوئی شخص سود کھائے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتا ،یہاں تک کہ اگر کوئی بے انتہا احتیاط کرتا ہے اور سود سے دور بھاگتا ہے تو پھر سود کا کچھ نہ کچھ حصہ اور اس کا اثر اس کو پہنچے گا اور کوئی بچ نہیں سکے گا۔
جیسا کہ ہم سب اپنے معاشرہ میں دیکھ رہے ہیں عام طور پر اکثر لوگ اس میں پھنسے ہوئے ہیں۔
 دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین یارب العالمین ۔۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے