किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

40سالہ مسلح جدو جہد ترک کرتے ہوئے ترکیہ کے خلاف لڑنے والی کردستان ورکرز پارٹی تحلیل،ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا

انقرہ:12؍مئی:ترکیہ میں کرد علاحدگی پسند گروپ کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے نے چالیس سالہ مسلح جدو جہد ترک کرتے ہوئے جماعت کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔العربیہ اور الحدث کے ذرائع کے مطابق "پی کے کے” کا اسلحہ جمع کرنے کا عمل آئندہ جون کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔یہ فیصلہ پارٹی کی بارہویں کانفرنس کے دوران کیا گیا، جو پانچ سے سات مئی کے درمیان شمالی عراق میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرنے اور مسلح جدوجہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ سرگرمیاں بھی ختم ہو گئی ہیں جو اس جماعت کے نام سے جاری تھیں۔فرات نیوز ایجنسی نے پارٹی کے ایک بیان کے حوالے سے بتایا کہ ترک اور کرد تعلقات کو از سرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ بیان میں ترک حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پارٹی کے قید رہنما عبداللہ اوجلان کو قانونی اور سیاسی ضمانتیں فراہم کرے۔مزید کہا گیا کہ اب کرد سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرد جمہوریت کو فروغ دیں اور ایک جمہوری کرد قوم کی تشکیل کو یقینی بنائیں۔پارٹی کے بیان میں کہا گیا کہ جماعت نے اپنا "تاریخی مشن” مکمل کر لیا ہے۔یہ اعلان پارٹی کے بانی عبداللہ اوجلان کی اس اپیل کے جواب میں سامنے آیا ہے جو انہوں نے فروری میں جیل سے دی تھی۔ اس میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ ہتھیار ڈال کر پارٹی کو ختم کر دیا جائے۔پارٹی نے یکم مارچ کو اوجلان کی اپیل کا مثبت جواب دیا اور چالیس سالہ جنگ کو ختم کرنے کا عندیہ دیا۔ اسی روز پارٹی نے فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھی ہفتے کو ایک تقریر میں عندیہ دیا تھا کہ پارٹی کے خاتمے کی خبر کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ان کی حکومت ملک کو دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے پرعزم ہے۔کردستان ورکرز پارٹی 1978 میں قائم ہوئی تھی۔ ترکیہ ،امریکہ اور یورپی یونین اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اس نے 1984 میں ترک حکومت کے خلاف ایک مسلح بغاوت کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد ترکیہ میں کرد ریاست کا قیام تھا۔ ترکی کی آبادی تقریبا 85 ملین ہے، جن میں سے تقریبا 20 فیصد کرد ہیں۔ اوجلان کی 1999 میں گرفتاری کے بعد سے اب تک اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کئی کوششیں کی جا چکی ہیں، تاہم اس دوران 40 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔گذشتہ ایک دہائی سے امن کی کوششیں تعطل کا شکار تھیں، لیکن حال ہی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے کیمپ نے ایک نئی پہل کی۔ ان کے اتحادی اور قوم پرست رہنما دولت باہچلی نے اکتوبر میں حزبِ مساوات و جمہوریت کے وفد کے ذریعے اوجلان سے ملاقات کروا کر امن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔باہچلی نے اس وقت اوجلان کو تجویز دی تھی کہ اگر وہ تشدد کو خیرباد کہہ کر اپنی پارٹی کو ختم کر دیں تو ان کی رہائی پر غور کیا جا سکتا ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے