किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

ہدایت

تحریر: خان افراء تسکین (اورنگ آباد)فون نمبر :9545857089

رات سوچاابو آپ کے احسان لکھوں، ہو گئی صبح ، کیا کیا میں نادان لکھوں
میرے الفاظ نہیں قابل آپ کی شان کے، میں کسی طرح آپ کی ہستی کے عنوان لکھوں

نہ جانے اچانک سے کیا ہو گیا وہ میرے سینے سے آ لگا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اس کے چہرے پر آنسو کی قطار بہہ رہی تھی، اور آنکھوں میں ایک الگ سی نمی اور خود سے نفرت کا اظہار تھا۔ اس درد اور افسوس کے بیچ، وہ شاید اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے ندامت اس کی آنکھوں سےآنسو کی شکل میں ظاہر ہو رہی تھی۔
اس دن، ایک ایسے پل کا سامنا ہوا جو کبھی بھولنا ممکن نہیں ہوگا۔ دونوں کا چہرہ آنسوؤں سے بھر گیا تھا۔ احمد صاحب کی آنکھوں میں اپنے بیٹے سے پیار و محبت کا ایک عجیب سا احساس تھا، جبکہ دانیال کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بارش کی طرح بہہ رہے تھے۔ دونوں کی آنکھوں سے بہتے آنسو اور احمد صاحب کے سینے سے لگنے کا یہ منظر، باپ اور بیٹے کی آپس میں بےپناہ محبت کی داستان بیان کر رہا تھا۔ دانیال ان کی پہلی اولاد تھی جسے اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت عرصے بعد نوازا تھا۔ جسے بہت دعاؤں، امیدوں، اور نمازوں میں مانگا گیا تھا۔ دانیال کی پیدائش وہ لمحہ تھا جس نے احمد صاحب اور ان کی اہلیہ کو ایک نئی زندگی اور نئے سفر کا آغاز کرنے کی دعوت دی، کیونکہ دانیال اللہ کی طرف سے بہت صبر کے بعد بھیجا گیا تھا اسی لیے وہ اپنے والدین اپنی جان کی طرح عزیز تھا۔ بچپن ہی سے بے جا لاڈ پیار کا عادی، جس کی ہر خواہش پر اس کے والدین نے ہامی بھری۔ آج وہ جوانی کے اس موڑ پر تھا کہ وہ اپنے والدین سے گالی گلوچ کرتا۔
اس کا یہ معمول تھا کہ وہ آدھا دن گزرنے کے بعد اٹھتا اور اٹھ کر یا تو اپنے فون پر وقت گزارتا یا پھر گلی کے آوارہ دوستوں میں چلا جاتا۔ چونکہ احمد صاحب مالی اعتبار سے بہت ہی رئیس تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو آسائش کے لیے ہر چیز دی تھی۔ سارا دن اپنے والد کے حلال کمائے ہوئے پیسے وہ اپنے نکمے دوستوں پر اڑا دیتا۔ آدھی آدھی رات تک وہ گھر نہیں آتا تب تک احمد صاحب اور ان کی اہلیہ اس کا انتظار کرتی اور بھوکے بیٹھے دروازے کی جانب آس لگائے ہوئے وہ دونوں اپنے بیٹے کا انتظار کرتے۔ جب وہ گھر آتا تو سیدھا اپنے کمرے میں چلا جاتا۔ احمد صاحب جب بھی کچھ کہتے وہ ان سنی کر دیتا۔ ایسے لگنے لگا تھا جیسے ان بوڑھے ماں باپ کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ احمد صاحب روزانہ نماز میں اللہ سے رو رو کر دعا مانگتے کہ یا اللہ میری ایک ہی اولاد ہے میں نے بہت ہی محبت سے اسے پالا ہے، یا اللہ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ تو اسے صراط مستقیم پر چلا، یا اللہ اسے سیدھی راہ دکھا دے، یا اللہ وہ بھٹک چکا ہے اس سے ہونے والی ہر خطا کو معاف فرما، اس کے سارے گناہ میرے حصے میں ڈال دے۔ روز محشر میری ساری نیکیاں اسے دے دینا۔ وہ آج بھی اپنی اولاد سے اتنی ہی محبت کرتے تھے جیسے وہ دانیال سے اس دن کرتے تھے جب وہ پیدا ہوا۔ اور دانیال کی اتنی بدتمیزیوں کے بعد بھی ان کی محبت اس کے لیے کبھی کم نہیں ہوئی بس بڑھتی چلی گئی۔ 3 سال ہو چکے تھے دانیال کو امریکہ سے واپس آئے ہوئے۔ اس نے کبھی احمد صاحب کے ساتھ بیٹھ کر بات نہیں کی۔ احمد صاحب اور ان کی اہلیہ کو صرف ایک امید زندہ رکھے ہوئے تھی اور وہ تھی کہ اللہ کسی نہ کسی دن اسے ہدایت دے دیں گے۔ نہ جانے اس دن دانیال نے خواب میں کیا دیکھا، وہ نیند سے ھڑ بڑھا کر اٹھا اور آ کر احمد صاحب کے گلے لگ کر معافی مانگنے لگا۔ بہت اصرار کے بعد دانیال نے بتایا کہ کل رات جب میں اپنے بستر پر گیا، میں اپنے جوتوں کے ساتھ سو گیا۔ ابا جان نے جوتے نکالے اور اس کے بعد وہ میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر آیت الکرسی دم کرنے لگے اور وہ میرے کمرے سے چلے گئے۔ میں نے اپنے خواب میں دیکھا کہ میرے والدین نے بچپن سے ہی کس طرح مجھ سے بے لوث محبت کی ہے۔ میں روزانہ دیکھتا کہ آپ آدھی رات تک میرا انتظار کرتے اور میں کمبخت آپ سے اس طرح پیش آتا۔ میں کل مسجد بھی گیا۔ میں نے قرآن مجید میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ عزت اور نرمی کا برتاؤ کرو، خاص کر جب وہ بڑھاپے کو پہنچیں۔ "اُف” کہنا بھی منع کیا گیا ہے جو کہ کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی نفرت یا ناگواریت کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی حکم دیا کہ ان کے لیے دعا کرو، جیسے انہوں نے آپ کو بچپن میں پیار اور شفقت سے پالا تھا۔ میں بہت شرمندہ ہوں، مجھے معاف کر دیں۔ احمد صاحب کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ ان کی آنکھوں میں پھر سے شکر کے آنسو تھے۔
دور حاضر میں اولاد کا اپنے والدین سے بہت برا سلوک کر رہی ہے۔ اولاد والدین کے مقام بھول چکی ہے۔ والدین کون ہیں؟ جنت میں جانے کے لیے ہم اتنی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے والدہ کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی۔ والد کو جنت کے دروازے بنا دیا۔ اور ہم کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہم اصل جنت کی نافرمانی کر کے کیا ہم جنت میں ڈال دیے جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ ہمارے والدین ہم سے راضی ہوں گے تو ہمارا رب ہم سے راضی ہو گا۔

والدین کی دعاؤں کا ہے زندگی پہ اثر
ان کے بنا ہر راستہ ہے بے اثر

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے