किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

ہجرت کا دکھ، حب الوطنی کا سوال بن گیا

تحریر: مظفراللہ خان
رابطہ:7275043328

کسی بھی ملک کا چھوٹے سے چھوٹا فرد بھی اپنے وطن سے غیر معمولی محبت رکھتا ہے۔ دانشور، اسکالر، فلسفی، تعلیم یافتہ افراد کی بات تو جانے دیجیے، ایک ناخواندہ، معمولی روزی کمانے والا خاکروب، خانسامہ یا ڈرائیور بھی اگر پردیس میں جا بسے، تو اس کے دل کی تہوں میں سب سے روشن اور نمایاں تصویر اپنے وطن کی ہی نظر آئے گی۔ وہ دھندلی سی یادوں میں بسے گاؤں کے راستے، ماں کی دعائیں، چولہے سے اٹھتی ہانڈی کی خوشبو، اور گھریلو ہنسی مذاق—یہ سب پردیس کی پر آسائش زندگی میں بھی اسے چین نہیں لینے دیتے۔
جب کوئی شخص پردیس سے وطن واپس لوٹتا ہے تو جیسے جیسے ہوائی جہاز زمین پر اترنے کے قریب آتا ہے، اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں، اور روح سرزمین وطن کی عطر آمیز فضا سے سرشار ہونے لگتی ہے۔ یہی وہ جذبات ہیں جو ایک عام ہندوستانی کے دل میں اپنے وطن کے لیے بستے ہیں۔تاہم، سوال یہ ہے کہ وہ کیسا کربناک وقت ہوگا جب کوئی اپنے وطن جیسی محبوب چیز کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کرتا ہے؟ یہ محض جغرافیائی جدائی نہیں، بلکہ جذبات، شناخت، اور تاریخ سے بچھڑنے کا دکھ ہے۔
حکومت ہند کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، صرف 2024 میں ہی دو لاکھ چھ ہزار ہندوستانیوں نے ہندوستانی شہریت چھوڑ دی۔ کیا یہ ایک معمولی عدد ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ کوئی عام ہجرت نہیں، بلکہ ایک غیر مرئی چیخ ہے جو ملک کے ماحول، سیاست، سلامتی، اور شخصی آزادی کی موجودہ صورتحال کو بے نقاب کرتی ہے۔زعفرانی سیاست جس شدت سے راشٹر بھکتی اور دیش بھکتی کا نعرہ لگاتی ہے، وہی سیاست عام ہندوستانی کے سامنے ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اپنے ہی دیش میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور جب ایک برس میں دو لاکھ افراد کسی ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں تو یہ محض انفرادی فیصلے نہیں ہوتے، بلکہ اجتماعی ذہنی اضطراب، خوف، اور بے بسی کی علامت ہوتے ہیں۔
مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں جن اعداد و شمار کا انکشاف کیا ہے وہ چشم کشا ہیں۔ 2023 میں دو لاکھ سولہ ہزار، اور 2022 میں دو لاکھ پچیس ہزار ہندوستانیوں نے شہریت ترک کی۔ یہ اعداد صرف نقل مکانی کے نہیں بلکہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ملک کی سیاسی فضا میں کوئی بنیادی خلل ہے۔2012 کے بعد سے ملک میں جس تیزی سے فرقہ واریت، بدامنی، اور عدم تحفظ کا ماحول پروان چڑھا ہے، اس نے لاکھوں ہندوستانیوں کو اس سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا وہ اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ مستقبل اسی سرزمین پر دیکھ سکتے ہیں؟ ساورکر کے ’دو قومی نظریہ‘ کو جس انداز میں موجودہ دور میں نافذ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، وہ نہ صرف ہندوستان کے آئینی تانے بانے کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے اندر خوف کا ایسا ماحول پیدا کر رہی ہیں جو کسی مہذب جمہوری ملک میں ناقابل قبول ہے۔ساورکر نے اپنی معروف تصنیف ’’ہندوتوا کے خیالات‘‘ میں واضح طور پر تحریر کیا تھا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے، اور دیگر اقوام کو یہاں دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا ہوگا۔ آج یہی نظریہ عملی طور پر ملک میں مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے—ماب لنچنگ، مذہبی اقلیتوں کی تذلیل، شریعت میں مداخلت، وقف املاک پر غیر قانونی قبضے، آئینی اداروں پر کنٹرول، اور اپوزیشن حکومتوں کو زبردستی گرانا—یہ سب اس خفیہ ایجنڈے کے عملی مظاہر ہیں۔مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور راجستھان جیسے ریاستوں میں جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کو غیر جمہوری طریقوں سے گرانا اور پھر اپنی حکومت قائم کرنا، کیا واقعی یہ جمہوریت کا حسن ہے؟ بہار میں لاکھوں ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ سے حذف کیے جانے کی خبریں، آزادانہ اور شفاف انتخابات کے چہرے پر سوالیہ نشان چھوڑتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف حکومت ہندوستان کو وشو گرو بنانے کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے، ملک کی معیشت کو ٹریلین ڈالر کے ہندسے تک پہنچانے کے سپنے دکھاتی ہے، تو دوسری طرف عام ہندوستانی اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر اس قدر پریشان ہے کہ وہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘کے نغمے کو اپنے دل میں دفن کر کے پردیس جانے کو ترجیح دیتا ہے؟
کیا یہ دوغلی صورتحال نہیں ہے کہ ایک طرف حب الوطنی کا پرچار ہو اور دوسری طرف ملک کے باسی خود کو غیر محفوظ محسوس کریں؟ اگر کوئی انسان اپنے ماں، باپ، بھائی، بہن، دوست، گاؤں، اور تہذیب سے دور جانے پر مجبور ہو رہا ہے، تو وہ محض مادی فوائد کے لیے نہیں جا رہا، بلکہ وہ اپنے تحفظ، اپنے وقار، اور اپنے بچوں کی عزت کے لیے جا رہا ہے۔جس ملک کو شاعر نے ’’فردوس بریں‘‘ سے تعبیر کیا، جہاں ہرے بھرے میدان، جھیلیں، دریا، آبشار، خوشبوئیں، پرندے، اور محبت کی زبانیں بولنے والے لوگ بستے تھے، آج اسی ملک سے فرار کا منظر بڑھتا جا رہا ہے۔ وطن کو چھوڑنے والوں کی تعداد محض اعداد نہیں بلکہ زندہ داستانیں ہیں—کسی کے آنکھوں کے آنسو، کسی کی ماں کی دعائیں، کسی بچے کی معصوم فریاد، کسی بوڑھے کی تنہائی—یہ سب کچھ ان ہجرت کی خبروں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔
حکومت وقت اور اس کے اہل کار کیا ان حقائق پر سنجیدگی سے غور کریں گے؟ یا پھر وہ اسی روایتی پروپیگنڈہ کو جاری رکھیں گے کہ ہندوستان وشو گرو بننے جا رہا ہے، جبکہ خود اس کے شہری روز بروز اپنے ہی وطن میں اجنبیت محسوس کر رہے ہیں۔جمہوریت کا حسن اختلاف کو برداشت کرنے میں ہے، اقلیتوں کے تحفظ میں ہے، عوام کی آزادی فکر میں ہے، نہ کہ ان پر کسی خاص نظریے کو مسلط کرنے میں۔ اگر سیاست دان واقعی ملک کی ترقی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں عام شہری کے دل سے نکلی ہوئی وہ خاموش آہ سننی ہوگی جو کہتی ہے: ’’مجھے یہاں جینے کا حق چاہیے، برابر کا، محفوظ، باوقار زندگی گزارنے کا حق۔‘‘
یہ آہیں صرف فرد کی نہیں، ایک پوری نسل کی آوازیں ہیں۔ وہ نوجوان جو کبھی سول سروسز کا خواب دیکھتے تھے، آج ویزا ایجنسیوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ جو والدین اپنے بچوں کو ہندوستان میں ہی اعلیٰ تعلیم دلانے کا ارادہ رکھتے تھے، اب بیرونی یونیورسٹیوں کے فارم بھرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ صرف دماغوں کا زیاں نہیں بلکہ ایک ایسی ذہنی نقل مکانی ہے جو کسی بھی ملک کے سماجی ڈھانچے کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔وطن سے محبت کا اندازہ صرف ترانے گانے سے نہیں لگایا جا سکتا، بلکہ اس بات سے لگایا جانا چاہیے کہ کتنے لوگ اس وطن میں محفوظ، مطمئن اور باوقار محسوس کرتے ہیں۔ اگر ملک کی پالیسیاں اس محبت کو خوف، عدم تحفظ اور احساس کمتری میں بدل دیں تو یہ کسی بھی قوم کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
میڈیا کو بھی اپنا کردار ایمانداری سے نبھانا ہوگا۔ اگر وہ صرف حکومتی بیانیے کا ترجمان بن کر رہ جائے، تو وہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن کو نظرانداز کر رہا ہوتا ہے۔ سچ وہی ہوتا ہے جو زمینی حقیقت میں بسنے والے لوگوں کی زبان پر ہو، نہ کہ وہ جو اسکرپٹڈ پریس کانفرنسز اور سوشل میڈیا پر وائرل کیا جائے۔آئندہ انتخابات کے پیش نظر سیاست دانوں، میڈیا اور عوام کو ایک بار پھر سوچنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی ایک ایسے ہندوستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہر فرد کو مساوی مواقع، برابری کا تحفظ، اور شخصی وقار حاصل ہو؟ یا پھر ہم صرف نعروں اور اشتہاروں کی جنت میں بسنے لگے ہیں؟
یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم نے آج اس سمت میں سنجیدہ اقدام نہ کیے تو آنے والے برسوں میں ہندوستان کے صرف سرکاری اعداد و شمار ہی ہمارے ملک سے جدائی اختیار کرنے والوں کی داستانیں سناتے رہیں گے، اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف یہ سوچتے رہ جائیں گے کہ کب یہ سب ٹھیک ہوگا۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے