किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

’’کیا اردو مدارس اور اسکول صرف لڑکیوں کے ادارے بن جائیں گے؟‘‘

ایک سنجیدہ سوال، جو ملتِ اسلامیہ ہند کے تعلیمی مستقبل کو جھنجھوڑ رہا ہے!

تحریر: خمیسہ محمّد جنید
بذریعہ ضلع نامہ نگار اعتبار نیوز محمد سرور شریف پربھنی

آج جب ہم اپنے اطراف نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقیقت ہمیں مسرور بھی کرتی ہے اور فکرمند بھی۔
الحمدللہ، قوم کے اندر تعلیمی بیداری کی ایک روشن لہر دوڑ رہی ہے۔ ہر طرف نئے ادارے کھل رہے ہیں، والدین میں شعور پیدا ہوا ہے کہ تعلیم کے بغیر ترقی کا خواب ادھورا ہے۔ یہ منظر خوش آئند ہے۔
لیکن…
اسی منظر کے پردے میں ایک خاموش مگر خطرناک تبدیلی بھی سر اُٹھا رہی ہے — وہ یہ کہ اردو مدارس، اردو اسکول اور دینی تعلیمی ادارے، رفتہ رفتہ صرف لڑکیوں کے ادارے بنتے جا رہے ہیں۔ ہمارے بیٹے، ہمارے نوجوان لڑکے، اس کارواں سے پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ صرف ایک تعلیمی تبدیلی نہیں، بلکہ ملت کے سماجی، لسانی اور تہذیبی توازن کے بگڑنے کی علامت ہے۔
اگر آج ہم نے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور نہ کیا، تو وہ دن دور نہیں جب اردو زبان، ہماری دینی و تہذیبی شناخت اور ملت کے تعلیمی وقار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
موجودہ منظرنامہ
خوشی کے ساتھ گہری تشویش
یہ سچ ہے کہ آج مسلم بیٹیاں بڑے ذوق و شوق کے ساتھ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔
دسویں، بارہویں اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں، کامیابی کے تمغے زیادہ تر ہماری بچیوں کے نام ہو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر پچھلے سال مہاراشٹر کے ایک معروف اردو اسکول میں دسویں جماعت کے ٹاپ 10 میں 7 پوزیشنیں لڑکیوں کے حصے میں آئیں۔ یہی رجحان دہلی، اتر پردیش اور تلنگانہ کے کئی علاقوں میں بھی نمایاں ہے۔
یہ منظر خوشی کا باعث ہے کہ ہماری بیٹیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہی ہیں۔ لیکن، اس خوشی کی چمک میں ایک فکر کی پرچھائیں بھی نظر آ رہی ہے — کہ ہمارے لڑکے، ہمارے نوجوان، تعلیم کے میدان میں مسلسل پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں۔
تعلیمی اعداد و شمار کا عکس:
اگر ہم آج کے اردو مدارس اور اسکولوں کی حقیقت کو بغور دیکھیں، تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ لڑکیوں کے داخلے میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے،
جبکہ لڑکوں کے داخلے میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
بہت سے اسکولوں کے منتظمین اور پرنسپلز اب کھل کر شکوہ کرتے ہیں۔
> ’’اب والدین اپنی بیٹیوں کو اردو اسکول میں داخل کرتے ہیں، لیکن بیٹوں کو انگلش میڈیم، سی بی ایس ای، یا ہندی میڈیم اسکولوں کا رخ کروا رہے ہیں۔‘‘
اور یہ صرف اسکولی سطح تک محدود نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کی فضا میں بھی یہی رجحان ابھر رہا ہے۔
آج یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن، یعنی کالج اور یونیورسٹی کے میدان میں کامیابی کا تناسب لڑکیوں میں کہیں زیادہ ہے۔
یعنی
ہمارے لڑکے، جو انگلش میڈیم یا دوسرے عصری اداروں میں داخل ہو رہے ہیں، وہ اعلیٰ تعلیم میں کامیابی کا سنگ میل عبور نہیں کر پا رہے۔
جبکہ ہماری بیٹیاں، جو اردو مدارس اور اسکولوں سے تعلیم پا کر آگے بڑھتی ہیں، وہ مسلسل کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔
یہ حقیقت نہ صرف لمحہ فکریہ ہے، بلکہ پورے تعلیمی منظرنامے کو جھنجھوڑنے والی ہے!
اساتذہ کے منظرنامے میں بھی بگاڑ:
یہی منظر اردو مدارس اور اسکولوں کے اساتذہ کے شعبے میں بھی ابھرتا جا رہا ہے۔
آج یہ مشاہدہ عام ہو چکا ہے کہ اردو اداروں میں معیاری اور ضروری مہارتوں (Skills) سے آراستہ مرد اساتذہ کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔
اکثر جگہوں پر ادارے جب قابل، باصلاحیت اور تربیت یافتہ اساتذہ کی تلاش کرتے ہیں، تو انہیں خواتین ہی دستیاب ہو رہی ہیں۔
نتیجتاً:
اردو اسکولوں اور مدارس میں خواتین اساتذہ کی تعداد مرد حضرات کے مقابلے میں روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔
مرد اساتذہ کی کمی نے تعلیمی اداروں کے وقار اور توازن پر بھی اثر ڈالا ہے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ خواتین اس کے ذمہ دار ہے۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو اردو ادارے نہ صرف طلبہ کے لحاظ سے، بلکہ اساتذہ کے عملے کے اعتبار سے بھی "گرلز انسٹی ٹیوشنز” بن کر رہ جائیں گے۔
اصل مسئلہ کہاں ہے؟
یہ صورتحال کئی عوامل کا نتیجہ ہے:
1. والدین کی سوچ میں تبدیلی
آج والدین بیٹیوں کے لیے دینی اور محفوظ ماحول کو ترجیح دے کر اردو ادارے چنتے ہیں،
جبکہ بیٹوں کے لیے دنیاوی ترقی کو مقصد بنا کر انہیں انگلش میڈیم یا جدید اداروں میں بھیجتے ہیں۔
2. اردو مدارس کا معیار
بعض جگہ اردو اداروں میں تعلیمی معیار، انفراسٹرکچر اور عصری سہولتوں کی کمی والدین کے اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔
3. معاشی مجبوری
متوسط طبقے کے والدین جب ایک بچے کو مہنگے انگلش یا سی بی ایس ای ادارے میں داخل کرا سکتے ہیں، تو وہ بیٹے کو ترجیح دیتے ہیں اور بیٹی کو اردو مدرسہ یا اسکول میں بھیجتے ہیں۔
4. اساتذہ کی کمی اور معیار
مرد اساتذہ میں معیاری اور جدید تعلیم یافتہ افراد کا فقدان اداروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ زیادہ تر خواتین کو ہی تدریس کے لیے منتخب کریں۔
اس کے نقصانات کا دائرہ:
اگر یہ صورتحال اسی رفتار سے جاری رہی، تو اس کے اثرات بڑے گہرے اور دور رس ہوں گے:
1. اردو زبان کا زوال
جب لڑکے تعلیم سے کٹ جائیں گے، تو اردو زبان، اس کا ادب، اس کا تعلیمی وقار صرف لڑکیوں تک محدود ہو جائے گا۔
نتیجتاً زبان کی سماجی حیثیت اور وقار کمزور پڑ جائے گا۔
2. سماجی اور عائلی توازن میں بگاڑ
ایک طرف تعلیم یافتہ، باشعور اور ترقی یافتہ لڑکیاں ہوں گی، اور دوسری طرف کم تعلیم یافتہ، پیچھے رہ جانے والے لڑکے یہ فرق گھریلو، سماجی اور عائلی نظام میں خلل پیدا کرے گا۔
3. ملت کی ترقی متاثر ہوگی
اگر ہمارے نوجوان بیٹے تعلیمی دوڑ سے باہر ہو گئے، تو ملت کا قافلہ ترقی کی راہوں میں پیچھے رہ جائے گا۔
یہ صرف فرد کا نقصان نہیں، بلکہ پوری قوم کا اجتماعی نقصان ہے۔
4. اردو اداروں کا کردار محدود ہو جائے گا
اردو مدارس اور اسکول صرف "گرلز انسٹی ٹیوشنز” بن کر رہ جائیں گے، جن کی افادیت اور وقار سماج میں کم ہوتا چلا جائے گا۔
وقت ہے جاگنے کا!
والدین سے گزارش
اے والدین!
اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل کا فیصلہ کرتے وقت صرف دنیاوی فائدے کو مت دیکھو، بلکہ دینی، تہذیبی اور سماجی توازن کو بھی پیش نظر رکھو۔
اپنے بیٹوں کو بھی اردو اداروں میں معیاری تعلیم دلاؤ، تاکہ وہ اپنی زبان، دین اور تہذیب سے جڑے رہیں، اور دنیاوی ترقی کے میدان میں بھی کامیاب ہوں۔
کیونکہ صرف انگلش میڈیم یا جدید ادارہ ہی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے جیسا کہ آج ہائر ایجوکیشن کے نتائج سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اردو اداروں کی بچیاں آگے جا رہی ہیں، اور انگلش میڈیم میں پڑھے لڑکے پیچھے رہ رہے ہیں۔
اردو مدارس/ اسکولوں کے ذمہ داران سے گزارش :
اے اردو اسکولوں کے سرپرستو!
وقت کی گھڑی تمہیں جھنجھوڑ رہی ہے۔
اپنے اداروں کے معیار کو بلند کرو، نصاب کو جدید بناؤ، اور اپنے اسکولوں کو ماڈل ادارے بناؤ۔
عصری سہولتیں فراہم کریں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی (کمپیوٹر) کی تعلیم کو معیاری کریں،
انگلش زبان کی تدریس کو مضبوط کریں،
دینی و اخلاقی تربیت کو اداروں کا امتیاز بنائیں۔
یاد رکھو! اگر آج تم نے اداروں میں بہتری نہ لائی، تو کل والدین اپنے بیٹوں کو تمہارے اداروں میں بھیجنے سے گریز کریں گے، اور تمہارے ادارے صرف "لڑکیوں کے مدرسے اسکول” کہلائیں گے۔
اساتذہ اور تعلیمی کارکنان سے التجا:
اے اساتذہ کرام!
آپ محض تنخواہ دار ملازم نہیں، بلکہ ملت کے معمار ہیں۔
اپنی تدریس کو اتنا معیاری، دلچسپ اور مؤثر بنائیں کہ والدین فخر سے اپنے بچوں کو تمہارے اداروں میں داخل کرائیں۔
اپنے پیشے کو عبادت اور خدمت سمجھو، اور اپنی محنت سے اداروں میں نئی روح پھونکو۔
مرد اساتذہ کو چاہیے کہ وہ میدان میں آئیں، اپنی مہارتوں کو بڑھائیں اور تعلیمی اداروں میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنائیں۔
ملت کے دانشوروں، علما اور تنظیموں سے اپیل:
اے ملت کے رہبرو!
یہ وقت تماشائی بننے کا نہیں، بلکہ تعلیمی بیداری کی مضبوط مہم چلانے کا ہے۔
اردو تعلیم کو صرف لڑکیوں تک محدود ہونے سے بچاؤ،
والدین کے خدشات دور کرو،
اردو مدارس کو ماڈرن اور معیاری ادارے بناؤ،
اور ملت میں یہ پیغام عام کرو:
> ’’اردو ادارے صرف مذہبی تعلیم گاہیں نہیں، بلکہ دنیاوی ترقی کے بہترین مراکز ہیں۔‘‘
اگر ہم نے آج اس خطرے کو نہ پہچانا، تو آنے والی نسلوں میں اردو زبان کمزور ہو جائے گی، تعلیمی توازن بگڑ جائے گا، اور قوم ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جائے گی۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم سب والدین، اساتذہ، مدارس کے ذمہ داران، دانشورانِ ملت مل کر اس تعلیمی بحران کا مقابلہ کریں۔
اپنے بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کو معیاری، دینی اور دنیاوی تعلیم فراہم کریں،
کیونکہ تعلیم صرف ترقی کا زینہ نہیں، بلکہ قوم کی بقا کا سہارا ہے!

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے