किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

کچھ لوگ ہمیشہ تھکے تھکے سے کیوں رہتے ہیں؟ سائنس اس کی کیا توجیح پیش کرتی ہے

میں زیادہ تر روٹین فالو کرتی ہوں، خاص طور پر جب بات سونے کی ہو۔ میں طے شدہ وقت پر نائٹ سوٹ پہن کر اور تیار ہو کر سونے کے لیے لیٹ جاتی ہوں۔ میں اپنا فون بھی کمرے سے باہر چھوڑ دیتی ہوں۔ میں سونے سے قبل کچھ وقت ڈائری لکھتی ہوں اور تقریبا آدھا گھنٹہ کتاب پڑھتی ہوں اور ٹھیک رات 11 بجے سونے لیٹ جاتی ہوں۔لیکن ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد جب الارم سے میری آنکھ کھلتی ہے تب بھی میں خود کو تھکا ہوا ہی محسوس کرتی ہوں۔ میں اپنی زندگی کے وسط میں ہوں، روزانہ ورزش کرتی ہوں اور میری معلومات کی حد تک، میں صحتمند بھی ہوں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پوری نیند لینے کے باوجود میں صبح تازہ دم محسوس نہیں کرتی۔لیکن میں اکیلی نہیں جو اس کیفیت سے گزر رہی ہوں۔ سنہ 2023 میں کیے جانے والے ایک تجزیے کے مطابق دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک بالغ فرد کو کوئی طبی عارضہ نہ ہونے کے باوجود چھ ماہ تک عام تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تجزیے کے دوران تین برِاعظموں میں کیے جانے والے 91 مطالعوں کا جائزہ لیا گیا۔روزلین ایڈم پچھلے 10 سالوں سے بطورِ فیملی فزیشن ایبرڈین، سکاٹ لینڈ میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تھکاوٹ کی شکایت مریضوں میں کافی عام ہے۔ یہ شکایت اتنی عام ہے کہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز نے اس کا ایک نام بھی رکھ دیا ہے: وقت کی تھکاوٹ (ٹائیرڈ آل دی ٹائم یا ٹی اے ٹی ٹی)۔لیکن تھکاوٹ کے بارے میں سائنسدانوں کی سمجھ آج بھی محدود ہے کہ یہ کیوں ہوتی ہے، یہ ہمارے جسموں اور دماغوں کو کیسے بدلتی ہے، اور اس کا بہترین علاج کیسے کیا جائے۔ یہاں تک کہ تھکاوٹ کی ایک تعریف پر متفق ہونا بھی مشکل ہے۔ایڈم کہتی ہیں کہ تھکاوٹ اور نیند کا آنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ یقینا دونوں کا آپس میں تعلق ہے، لیکن تھکاوٹ بہت زیادہ کثیر جہتی ہے۔ دوسروں کی نسبت ان میں ڈپریشن اور بے چینی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔کرسٹوفر بارنز سیئٹل کی واشنگٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جو نیند کی کمی کے باعث کام پر ہونے والے اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کئی طریقوں سے تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔مثال کے طور پر جسمانی تھکاوٹ۔ یہ ایسی تھکاوٹ ہوتی ہے جو آپ کو ورزش کرنے یا ہائیکنگ کے بعد محسوس ہوتی ہے۔وکی ویٹمور میری لینڈ میں واقع قومی مرکز برائے صحت کے پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔ ان کے مطابق یہ عام جسمانی تھکاوٹ ہے۔ اس کو سمجھنا آسان ہے اور لوگ کافی وقت سے اعصابی تھکاوٹ کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔مگر تھکاوٹ آپ پر ذہنی اور جذباتی طور پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اگر آپ جب تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو نہ صرف تخیلاتی کاموں میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ اکثر افراد چڑچڑے پن کا شکار ہو کر دوسروں پر غصہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ویٹمور کہتے ہیں کہ پچھلی دہائی میں آنے والی امیجنگ ٹیکنالوجی اور بائیو کیمیکل ٹیسٹ کے بعد ہی سائنس دان تھکاوٹ کے ان دیگر پہلوں کو مزید گہرائی سے جاننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ہم اب جا کر نیورو بیالوجی اور اس بات کو سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں کہ دماغ کے کون سے حصے تھکاوٹ کو محسوس کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ایک اور چیلنج یہ ہے کہ تھکاوٹ ہر کسی کے لیے الگ مطلب رکھتی ہے اور اس کی کئی الگ وجوہات ہو سکتی ہیں۔جہاں یہ بہت سی بیماریوں اور دائمی حالات جیسے کہ کینسر، ایک سے زیادہ سکلیروسیس، طویل کووِڈ اور ڈپریشن کی علامت ہو سکتی ہے، وہیں اس کی بہت کم سنگین وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ایڈم کہتی ہیں کہ اگر ہم تھکن کی مختلف اقسام کی شناخت کر پائیں، تو ہم اس کا بہتر انداز میں علاج کر پائیں گے۔نیند پوری کرنے کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس بات سے سب متفق ہیں کہ ایک بالغ فرد کو صحتمند رہنے کے لیے دن میں سات سے نو گھنٹے کی نیند ضروری ہے۔
اگر جسم کو مطلوبہ نیند میسر نہ ہو تو ہمارے جسم دیگر اہم کاموں کے علاوہ پٹھوں کی مرمت، قوت مدافعت بڑھانے، جذبات کو منظم کرنے، یادوں کو مضبوط کرنے اور نئی معلومات کو مستحکم کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ ایسے افراد جو طویل عرصے تک تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دوسروں کی نسبت ان میں ڈپریشن اور بے چینی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اگر روزانہ کی بنیاد پر آپ کی نیند پوری نہ ہو تو اس کے نتیجے میں نہ صرف سر درد اور جسم کے دیگر حصوں میں درد ہو سکتا ہے بلکہ یہ خراب موڈ، چڑچڑاپن اور غیر مرکوز ذہنی حالت کی بھی وجہ بن سکتا ہے۔ اور بعض اوقات، یہ ہمارے دوسروں کے ساتھ رشتوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ بارنز کہتے ہیں کہ نیند کی کمی اور اس کے ازدواجی تعلقات پر کیے جانے والے مطالعوں سے پتا چلتا ہے کہ اگر رشتہِ ازدواج میں بندھے جوڑے میں سے کسی ایک کو نیند کی کمی کا سامنا ہو تو، اس سے ان کے بیچ زیادہ اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔تھکن کی وجہ سے آپ کے کام اور قیادت کرنے کی صلاحیتوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ بارنز پہلے فرد تھے جنھوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ نیند سے محروم مالکان اپنے ملازمین سے کیسے براسلوک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کام کے دوران ان کا خود پر قابو بہت کم ہوتا ہے اور اس بات کے بہت امکانات ہوتے ہیں کہ وہ کام کی نگرانی کرتے وقت لوگوں سے برا سلوک کر جائیں۔
لیکن تھکن کے اس سے بھی برے نتائج ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ میں20 فیصد سے زائد اہم شاہراہوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ تھکن ہوتی ہے۔ تھکن یا نیند کی کمی کی وجہ سے ہونی والی انسانی غلطیاں کئی دفعہ بڑی تباہیوں کا بھی سبب بنتی ہیں جیسا کہ چیلنجر سپیس شٹل یا ایکزون والدیز آئل سپل میں ہوا۔رنجنا مہتا یونیورسٹی آف وسکونسن، میڈیسن میں صنعتی اور سسٹم انجینئرنگ کی پروفیسر ہیں جو کام کے دوران ہونے والی تھکاوٹ پر تحقیق کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تیل اور گیس کے فیلڈ پر کام کرنے والوں میں تھکاوٹ بڑی تباہی، جانوں کے ضیاع، اقتصادی مسائل، اور ماحولیاتی مسائل کا سبب بنی ہے۔مگر فقط آنکھیں بند کر لینا کافی نہیں۔ اچھی نیند ملنا بھی ضروری ہے۔ وٹمور کا کہنا ہے کہ کم گھنٹوں کی اچھی نیند لینا زیادہ گھنٹے کی بے سکونی کی نیند سے بہتر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کی نیند میں خلل پڑتا ہے تو آپ تر و تازہ محسوس نہیں کرتے۔جزوی طور پر یہ اس لیے ہوتا ہی کیوں کہ جب ہم سوتے ہیں تو ہمارا دماغ غیر ضروری کاموں کو روک دیتا ہے۔ آرام کے دوران، نیورونز دماغی اسپائنل سیال کے لیے جگہ بناتے ہیں تا کہ وہ دماغ کی صفائی کا عمل شروع کر سکیں۔ یہ ایسے بیٹا امائلائیڈ کو صاف کرتے ہیں جو عام طور پر الزائمر کی بیماری سے وابستہ ہوتے ہیں۔وٹمور کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی نیند میں خلل پڑتا ہے، تو یہ توازن میں خلل ڈالتا ہے۔ لہذا آپ کے دماغ سے زہریلے مواد صاف نہیں ہو رہے ہوتے۔نیویارک یونیورسٹی شنگھائی میں نیند کے ماہر نفسیات اور ریسرچ اسسٹنٹ پروفیسر ڈینیل جن بلم کہتے ہیں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے گلیمفیٹک نظام ہر روز ایک ہی وقت میں بہترین کام کرتے ہیں۔لہذا اگر آپ کو اپنے معمول کے وقت میں گہری نیند آتی ہے بمقابلہ آٹھ گھنٹے کی نیند کے جو کسی دوسرے وقت لی جائے، تو زہریلے مادوں کو باہر نکالنے کی صلاحیت میں نمایاں طور پر کمی دیکھی جاسکتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہم کس وقت سوتے ہیں. نیند کو ہماری قدرتی سرکیڈین ردھم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بہترین معیار کے آرام کو جنم دیتی ہے۔سرکیڈین ردھم ہمارے جسم کی 24 گھنٹے چلنے والی اندرونی گھڑی کو منظم کرتی ہے۔ اس سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ شفٹ میں کام کرنے سے اکثر صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں اور یہ دل کی جلن سے لے کر ذیابیطس تک کا سبب بنتے ہیں۔بلم کہتے ہیں کہ اگر آپ کو آٹھ گھنٹے کی نیند مل بھی جائے مگر یہ آپ کی معمول کی سرکیڈین مدت کے دوران نہ ہو تو آپ کو تقریبا بالکل ہیں یہ آر ای ایم نیند نہیں آتی ہے اور آپ اس کے فوائد حاصل نہیں کر پاتے۔ آر ای ایم سے مراد گہری نیند کا وہ دورانیہ ہوتا ہے جب ہم عام طور پر خواب دیکھتے ہیں۔ یہ اعصابی رابطوں کو مضبوط کرنے اور دن میں محسوس کیے جانے والے جذبات کو پراسیس کرنے میں مدد کرتے ہیں۔بہت کم یا غیر منظم آر ای ایم نیند ڈپریشن، ڈیمنشیا، پارکنسنز اور دیگر مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔
بے شمار وجوہات
ناقص معیار کی نیند کی ہماری صحت، رشتوں اور کام پر پڑنے والے وسیع اثرات کو دیکھتے ہوئے، یہ ضروری ہے کہ اس مسئلے کی جڑ کا پتا لگائیں۔ جب ایڈم سے کوئی مریض مسلسل تھکاوٹ کی شکایت کرتا ہے، تو وہ سب سے پہلے کسی بھی طبی وجہ کو مسترد کردیتی ہیں۔خون کے ٹیسٹ بعض اوقات تھائیروائڈ کی خرابی یا ایسٹروجن اور دیگر ہارمونز کے عدم توازن کی نشاندہی کرنے میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ وجوہات خاص طور پر خواتین میں اکثر تھکاوٹ کے احساسات سے منسلک ہوتی ہیں۔ٹیسٹ سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ آیا آپ کو وٹامن بی 12، فولیٹ اور ڈی جیسے غذائی اجزا یا آئرن اور میگنیشیم جیسی معدنیات کی کمی کا سامنا ہے۔گیئر بیہورکلنڈ ناروے کی کونسل برائے غذائیت اور ماحولیاتی ادویات کے بانی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غذائیت کی کمی تھکاوٹ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ضروری غذائی اجزا، بشمول وٹامنز، معدنیات، اور غذائی اجزا مختلف جسمانی عملوں کے لیے اہم ہیں۔لیکن خون کے ٹیسٹ صرف ایک حد تک ہی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ایڈم کہتی ہیں کہ 90 فیصد معاملات میں ٹیسٹ معمول کے مطابق نظر آتے ہیں۔ اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری لینا ضروری ہے۔ہم صحت مند افراد میں، ورزش، نیند، خوراک، دماغی صحت جیسی چیزوں کے کردار کو دیکھتے ہیں۔ ساری بات یہ واقعی کسی فرد اور ان سے جڑے عوامل کو دیکھنا ہے جو ان کے لیے اہم ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی شخص کے چھوٹے بچے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ ان کو بلاتعطل نیند مشکل سے ملتی ہو۔تنا تھکاوٹ کے بڑے وجوہات میں سے ایک ہے۔ سنہ 2022 میں چین میں 16,200 سے زیادہ سرکاری ملازمین کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ جن لوگوں نے زندگی کے منفی تنا کے واقعات کا سامنا کیا ہے ان میں تھکاوٹ محسوس کرنے کا امکان دوگنا ہو جاتا ہے۔جب ہم تنا کا شکار ہوتے ہیں، تو ہمارا جسم کورٹیسول نامی ہارمون پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے جسم کا درجہ حرارت اور دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے تاکہ ہمیں خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار کیا جا سکے۔کارٹیسول کی سطح میں دن بھر قدرتی طور پر اتار چڑھا ہوتا رہتا ہے لیکن اگر کی سطح مسلسل بلند رہے تو نیند کا آنا مشکل ہوتا ہے۔ وٹمور کہتے ہیں کہ یہ تھکاٹ کا احساس ہے۔بلم کہتے ہیں کہ صحت مند افراد میں تھکاوٹ کی ایک اور عام وجہ نیند کی خرابی یا سانس لینے کے مسائل ہیں۔اس میں خراٹے بھی شامل ہیں جو اس وقت شروع ہوتے ہیں جب آپ کا نظام تنفس جزوی یا مکمل طور پر بلاک ہوجاتا ہے۔ بلم کہتے ہیں کہ خراٹے لینا نارمل نہیں ہے اور یہ نیند کی خرابی کی علامت ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے سانس رکتی اور چلتی رہتی ہے۔بلم کہتے ہیں کہ خراٹے نیند میں خلل ڈالتے ہیں اور گہری نیند کو ناممکن بنا سکتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو سات سے نو گھنٹے کی نیند ملتی ہے، لیکن اس کا معیار تسلی بخش نہیں ہوتا ہے۔جسم میں پانی کی کمی بھی تھکاوٹ کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ کیفین اور شراب بھی غیر معیاری نیند کے اسباب میں شامل ہیں۔بلم کہتے ہیں کہ میرے خیال میں زیادہ تر لوگ کیفین اور شراب کے نیند پر اثرات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ "مثال کے طور پر، کیفین کا اثر تقریبا پانچ گھنٹیتک رہتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے شام کو کافی کا ایک کپ پیا ہے تو اس کا اثر آدھی رات تک رہے گا۔شراب نوشی، خصوصا سونے سے پہلے آپ کی نیند پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے جس سے سانس لینیمیں دشواری جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔بلم اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکثر اوقات بعض افراد نیند کے ابتدائی دورانیہ میں جلدی سے سو جاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لییگہری نیند بھی لے لیتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد وہ بسترمیں کروٹیں ہی لیتے رہتے ہیں اور ان کا کارٹیسول لیول بھی بڑھ جاتا ہے۔گیئر بیہورکلنڈ وضاحت کرتے ہیں کہ توانائی کو بڑھانے کے طریقے وہی ہیں جس سے سمجھدار لوگ پہلے ہی آگاہ ہیں جن میں متوازن غذا کو اپنانا، غذائیت کی کمی کو دور کرنا، اچھی نیند کی لیے صفائی برقرار رکھنا ، اپنے ذہنی دبا کو کم کرنے کے طریقوں کو اپنانا، باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی میں مشغولیت ، جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا اور اپنا سپورٹ نیٹ ورک بنانا، شامل ہیں۔البتہ ان طریقوں پر عمل درآمد یقینی طور پر ایک اور معاملہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مجھے اپنے معمولات کو از سر نو ترتیب دینا کا وقت آن پہنچا ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے