किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تحریر: محمدی عظمیٰ خان (اسسٹنٹ ٹیچر، مدینۃ العلوم ہائی اسکول، ناندیڑ)

31 جنوری 2024 کو ناندیڑ کے معروف تعلیمی ادارہ مدینتہ العلوم ہائی اسکول ناندیڑ کے انتہائی محنتی، سلجھے ہوئے، خوش اخلاق، بہترین مترجم، رہنما ، رہبر اور باوقار شخصیت کے مالک محترم شیخ اعجاز سر ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ محترم شیخ اعجاز سر کو میں اپنی طالب علمی کے زمانے سے جانتی ہوں۔ دوران ملازمت میں نے محترم اعجاز سر کو ایک بہترین سربراہ اور ایک بہترین رہنما کے طور پر پایا ہے۔ وہ ڈرائنگ کے بہترین استاد ر ہے ہیں۔ ان کی رہنمائی اور رہبری میں مدرسہ ہذا نے شنکرراو چوہان ڈرائنگ مقابلے میں امتیازی کامیابی حاصل کی اوریہاں کی طالبہ نے 25000 نقد انعامی رقم حاصل کی۔
گو اْن کا ملازمت کا دورانیہ 25 سال پر محیط ہے۔ لیکن اس دوران وہ اسکول کے ترقیاتی امور میں بے انتہا مشغول رہے۔ گھڑی دیکھ کام کرنااْن کے مزاج میں شامل نہیں تھا۔انھوں نے بے لوث ، خدمت کی اور ادارے کو کوالیٹی ٹائم دیا۔ آپ کے وسیع مطالعہ سے علماء بھی سر فراز ہوئے ہیں، آپ کی محنت اور فہم و فراست کی لَو سے ادارہ منور ہوا۔
آپ نے مکمل اعتماد، عزم ، لگن، فرض شناسی اور جذبہ ایمانی سے مدرسہ میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیںجس کیلئے میں وہ زبردست خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ آپ کی خدمات مدرسہ لیے سرمایہ افتخار ہیں۔ آپ کے کارہائے نمایاں کو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
آج مدرسہ ہذا ایک نیک، شفیق، ہمدرد، مظہر علم ودانش سے محروم ہو رہا ہے۔ آپ علمی خزانے کا مرکز ہیں۔ آپ شعور حیات اور تعمیر انسانی کا دوام ہیں۔ آپ اہل بصیرت، طلسماتی شخصیت کے مالک اور ماہر علم و فن ہیں۔ آپ علم و عمل کے اندھیرے صحراء میں بہت سی روشنیوں کی مانندہیں۔
سرکاری حدود اور پابندیوں کی وجہ سے وہ ملازمت سے سبکدوش تو ہوئے ہیں۔ لیکن امید ہے کہ آپ کی رہنمائی اور رہبری ادارے کو سدا ملتی رہے گی۔ جس طرح آج تک میسر آئی ہے۔ میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ عمر درازی عطاء فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معیار نہیں تو کچھ بھی نہیں

تحریر:شکیل احمد رحمانی(سپر وائزر : فیض العلوم ہائی اسکول ناندیڑ)

لکھنے کے معاملہ میں میرا ذاتی تجربہ کچھ خاص نہیں ہے۔تاہم اپنی خواہش کے زیرِ اثر اعجاز سر جیسی علم دوست شخصیت پر لکھنے کا قصداس لیے کررہا ہوں کہ ا پنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کا موقع میں گنوانا نہیں چاہتا۔ میں کوئی روایتی لکھاری نہیں ہوں اورنہ ہی یہ کوئی ادبی شہ پارہ ہے جس میں فصاحت و بلاغت کے لوازمات تلاش کیے جائیں۔ یوں سمجھیں کہ یہ ایک دوستانہ گپ شپ ہے جو تحریر کی شکل میں گویاہوئی۔اس میں الفاظ کا چناؤ، جملوں کی تشکیل اور نظم و ربط شایدآپ کو نہ ملے لیکن ارادت میں ڈوبے ہوئے کلمات جو نہایت ادب کے ساتھ خانہ دل سے ادا ہوئے۔
میرے رفقاء میں سب سے عزیزوقریب دوست اعجازسرہیں۔34سال پر محیط یہ دوستی بہت سی مشترکہ عادتوں اورمماثلتوں کامخزن ہے۔ وہ میرے ہم پیشہ تو ہیں ہی ساتھ میں ہم ذوق و ہم شوق بھی ہیں۔دونوں کا بچپن غربت میں گزرا۔غربت نے ہم دونوں کو کم عمری سے کمانے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ ہم دونوں نے اسکول کے زمانے ہی سے کمانا شروع کردیا۔ دونوں فنِ خطاطی کا شوق رکھتے تھے۔ لہٰذا ہم دونوں کواسے پیشے میںتبدیل کرنا پڑا۔ اس پیشے میںسخت مشقت ہے، اس کے عوض بہت معمولی اجرت ملتی ہے۔اس وقت ہم دونوں کے پاس پیسہ کمانے کے اور بھی آپشن موجود تھے لیکن جمالیاتی ذوق کی تسکین نے اس پیشے سے علاحدہ نہ ہونے دیا۔اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم کاتبوں نے اردو کی جو خدمت کی ہے وہ شاید کسی اور نے کی ہوگی۔کتابت کے فن میں اعجاز سر مجھ سے بہت ممتاز ہیں۔وہ ایک کمر شیل آرٹسٹ بھی ہیں۔فنِ خطاطی کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ان کے ہاں روایت وجدت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ چونکہ خود راقم الحروف کا بھی برسوں اس فن سے تعلق رہا ہے ، اس کی باریکیوں اور خوبیوں سے بخوبی واقف ہے۔وہ خطِ نستعلیق کے علاوہ عربی کے بہت سارے رسم الخطوط کی کتابت بھی جانتے ہیں۔ خطِ ثلث، خطِ دیوانی، خطِ رقعہ ، خطِ نسخ اور خطِ کوفی بھی خوب لکھتے ہیں۔ فائن آرٹ اور جامیٹر ی کے گہرے مطالعہ کے سبب ان کے فن میں پختگی ہے۔روایتی خطوں کی ساخت میں تبدیلی کرکے انھیں نئے آہنگ و قالب میں ڈھالنے کا تجر بہ وہ کرتے رہتے ہیں۔اْن کے تخلیقی اسٹروک میں ندرت اورجمالیاتی آہنگ پایا جاتا ہے۔ناظرین نے ہمیشہ ان کے کام کی پذیرائی کی ہے۔ان کے کام سے متاثر ہوکر مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکاڈمی نے اْن کوبہترین خطاط کے ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔انھوں نے اس فن کے کئی شاگرد بھی تیار کیے ہیں۔
وہ زودِ فہم آرٹسٹ ہیں۔میں نے قریب رہ کر ان کے فنی خوبیوں کا ادراک کیا ہے۔نہ صرف ناندیڑ بلکہ ممبئی اور حیدرآباد کے قدردانوں نے بھی ان کے فن کو سراہاہے۔پچھلی دو تین دہائیوں سے علاقہ مراٹھواڑہ کے ادیبوں اور شاعروں کے مجموعہ کلام کے سرورق ، اخباروں کے ٹائٹل اور اسکول و کالجوں کے لوگو (Logo)بناتے رہے ہیں۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا (جس کا استعمال وہ خوب جانتے ہیں ) کے توسط سے وہ اپنے فن کو نیشنل لیول تک پہنچا رہے ہیں۔ بہت سے مورچوں پر بیک وقت کام کرتے ہیں۔میں اکثر کہتا ہوں کہ وہ یہ سب نہ کرتے اور صرف خطاطی پر ہی فوکس کرتے تو یقیناً وہ ان کا شمار ملک کے ماہر خطاطوں میں ہوتا اوریوں اْن کا فن بین الاقوامی سطح تک رسائی حاصل کرتا۔میری شدید خواہش ہیکہ وہ اس جانب توجہ دیں۔
ان کے خاندان میں عموماً شادیاں جلدی کرنے کا رواج ہے۔کم عمری کی شادی نے ان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کردیں۔معاشی ذمہ داریاں تو بڑھیں ساتھ میں پڑھنے اور لکھنے کے شوق کو بھی موخر کرنا پڑا۔علم حاصل کرنے کے لیے عمرکی کوئی قید نہیں ہوتی۔گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ پڑھنے کی خواہش کو پوراکرنے کی تگ ودو میں وہ لگ گئے۔یہ امر قابل ذکر و لا ئق تقلید ہے کہ دوبچوں کے باپ تھے تب انھوں نے فائن آرٹ کالج میں داخلہ لیا اور چار سال تک کالج بلاناغہ جاتے رہے۔ بی ایف اے کی ڈگری کے فوری بعد ناندیڑ کے نامورتعلیمی ادارے مدینۃ العلوم ہائی اسکول میں بہ حیثیت مدرس ملازمت اختیار کرلی۔وہ آج بھی ایک طالب علم کی طرح کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ انھوں نے انٹر نیٹ پر اپنی دلچسپی کے کئی موضوعات پرپیڈ کورسیس میں داخلہ لیا۔وقتاً فوقتاًہمیں بھی انٹرنیٹ سے استفادے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔
ان کی سنجیدگی ، ملنسا ری ، انکساری اور علم و فن کی خوبی نے سبھی کو اْن کا گرویدہ بنادیا۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب میں ان سے ملاقات نہیں کرتا۔ ہم دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ ہم دوستوں کی محفل کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ چناں چہ ان کے تمام دوست میرے دوست اور میرے بہت سارے دوست ان کی رفاقت میں آگئے۔ مدینۃ العلوم کے تقریباً موجودہ اورموظف اساتذہ سب میرے رفقاء میں شامل۔ہماری دوستی 34 سال بعد بھی اشتیاق و جاذبیت سے خالی نہیں ہے بلکہ اس دوران ہم نے مل کرمقامی و بیرونی سطح پر سیکڑوںنئے دوست بنالیے ہیں۔
حسد، کینہ، بغض اور تعصب سے پرے زندگی گزارنے کے سبب ان کی صحت پر مثبت اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔انھیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ ملازمت سے سبکدوش ہوئے ہیں۔وہ ماضی کو لے کر دکھی نہیں ہوتے اور نہ ہی مستقبل کے خدشوں میں اپنا موجودہ لمحہ ضائع کرتے۔اللہ کے فضل سے وہ بھرپور توانائی کے ساتھ صحت یاب زندگی گزارتے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والوں کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے جب ان کا کوئی کام ہوتا ہے تو وہ نہایت خندہ پیشانی سے ان کے پاس رجوع ہوتے ہیں اور وہ ماتھے پہ شکن لائے بغیر اپنے ناقد کے کام کو ایسے انجام دیتے ہیں گویا وہ کام ان ہی کا ہو۔وہ کام کے بدلے کوئی معاوضہ بھی نہیں لیتے۔کام کسی بھی نوعیت کا ہو وہ اپنی بے پناہ صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔بھر پور وقت دے کر خوب سے خوب تر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کے ہر کام میں نفاست اورخوب صورتی رہتی ہے۔دوستوں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ دامے درمے سخنے اور قدمے ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں۔
اْن کی شخصیت کا سب سے اہم پہلواْن کاعلم دوست رویہ ہے۔میں نے انھیں بہت کم آرام کرتے دیکھا ہے۔رات کو سو کر اٹھنے کے بعد وہ کبھی خالی نہیں ہوتے ،کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ کسی کتاب کا مطالعہ یا انٹرنیٹ سرفنگ۔عموماً ان کے مطالعہ میں ادب ،شعر وشاعری ،سائنس اور دین کے اہم موضوعات ہوتے ہیں۔مذہبی اسکالرس، غیر مسلم اسکالرس یا پھرملحدین وہ سبھی کے افکار کا مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ سیٹ مائنڈبالکل نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں فرقہ واریت کا تعصب ہے۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں آیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔دین کے تقابلی مطالعہ کا ذوق ہے۔اگر کسی آیت پر مفسر کی رائے سے عدم اطمینان ہوتا ہے تو وہ بیسیوں مفسرین کی تفسیر کھنگالتے ہیں۔ مسلمانوں کے دو فکری حکمران مولانا وحید الدین خان اور جاوید احمد غامدی کے افکار و خیالات اور نظریات سے بے حد متاثر ہیں۔ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہاجائے کہ ان شخصیات پر اگر وہ لکھنا شروع کردیں تو یقیناًوہ پی ایچ ڈی کے حقدار قرار پائیں گے۔دین کے موضوع پر اْن کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ جب وہ کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو مدلل و متحقق ہوتی ہے۔اسی معیار پر ادب کا بھی ذوق پال رکھا ہے۔ شعر کا فہم اعلیٰ درجہ کا ہے اس موضوع پر اکثر ہماری گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ عام طور پر شعر کے سرسری مطالعہ سے قاری پر معنی ومطالب واضح نہیں ہوتے مگر شعر کی تہہ میں جاکر اس طرح پرتیں اْلٹتے چلے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اوریوں ہمیں ان کے ذوق اور مطالعہ کی گہرائی و گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔وہ نثربہت خوب لکھتے ہیں۔اپنی تحریر میں الفاظ کاا ستعمال جامع اورنپے تلے انداز میں کرتے ہیں جس میں ایک جہانِ معنی ہوتا ہے ۔ان کی تحریر میں فصاحت و بلاغت کے مؤثر اورموزوں ترسیل دیکھی جاسکتی ہے۔
فنون لطیفہ سے غیر معمولی دلچسپی رکھنے والے شخص کوفن کی معراج کا پتہ ہوتا ہے۔ مجھے فن ِموسیقی میں گہری دلچسپی ہے۔میں اکثر سنتا رہتا ہوں اور میری تمام تر توجہ آوازیا سْرپر مرکوز ہوتی ہے۔ موسیقی میں شاعری کے حسن وقبح کا پتہ نہیں چلتا۔ جبکہ وہ رموزِ شاعری پر فوکس کرتے ہیں۔ فلمی نغموں میں شاعری کی فصاحت و بلاغت کومیں نے کبھی نوٹس نہیں کیا۔میں نے اْن ہی سے سیکھا کہ فلمی نغموں اور مکالموں میں ادب کا کیا معیار ہوتا ہے۔میں نے سیکڑوں فلمی اشعار کا مفہوم ان ہی سے سمجھا ہے۔ میرا مزاج چوں کہ سوالی ہے۔۔۔کیوں اورکیسے۔۔۔؟ ہمیشہ میرے ذہن میں اٹھتے رہتے ہیں۔میں ہمیشہ ان سے پوچھتا رہتا ہوں کہ اس شعر میں اس لفظ کے کیا معنی ہے؟ یہ لفظ کیوں استعمال ہوا؟وہ فی البدیہہ ان کے معنی و مفہوم واضح کردیتے۔
اعجاز سر کی شخصیت کے اور بھی مختلف پہلو ہیں وہ ایک شریف النفس انسان ہیں۔رشتہ داروں کے لیے شفیق و ہمدرد اورہرکسی سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ اچھے مشورے دے کر لوگوں کی زندگیوں کو کامیابی کی طرف گامزن کرتے ہیں۔اپنے غیر فعال و غیرمتحرک ساتھیوں کو فعال اورتازہ دم رکھنا ان کا شیوہ رہا ہے۔اپنے اسٹاف کے ساتھیوں کے جمود کو توڑ کر ان کے دلوں میں اسکول اور قوم کی محبت پیدا کرکے متعدد محاذوں پر ان سے کام لیا اور خود بھی ساتھ کام کرتے رہے۔ وہ اکیلے ہی ایک انجمن کی مانند ہیں۔بلا مبالغہ وہ اکیلے ہی اتنا کام کرتے ہیں کہ پانچ دس آدمی مل کر بھی اسے انجام نہیں ددے پاتے۔کام کو احسن طریقے سے انجام دینے کے لیے موثرمنصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ ہر کام کو اسمارٹ طریقے سے انجام دینے کے قائل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ کوئی بھی کام بہت کم وقت میں نسبتاًاوروںسے اچھا کرتے ہیں۔کمپیوٹر، موبائیل اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں ،ان ذرائع سے وہ برق رفتاری سے کا م کرتے ہیں۔ ان کا بھی عام انسانوں سے بہت بلند ہے۔ وہ جس کام میں دلچسپی لیتے ہیں اس کی تہہ میں پہنچ کر آب دار موتی لے آتے ہیں۔ سائنس ، ٹکنالوجی، ادب، سائیکا لوجی اور دینی علوم پر اچھی خاصی اسٹڈی کی ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو علم کی تحصیل سے مستغنی نہیں سمجھتے۔ انٹر نیٹ کی نعمت سے انھوں نے بھرپور استفادہ کیا،ان ہی کی مدد سے اپنی دلچسپی کے تمام علوم میں روزافزوں اضافہ کیا۔
علم کی ایسی تشنگی میں نے کسی میں نہیں دیکھی۔ ان کے مطالعہ کا شوق جنون کی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ گھر کا ایک کمرہ لائبریری کے لیے وقف کردیا۔ان کی ذاتی لائبریری میں سیکڑوں معیاری کتابیں ہیں۔جب کبھی ان کی دلچسپی کی کوئی نئی کتاب لانچ ہوتی فوری خرید لیتے ہیں۔پڑوسی ملک کی کوئی کتاب دستیاب نہ ہو تو راست مصنف یا پبلشر سے اس کا پی ڈی ایف حاصل کرلیتے اوراس کا پرنٹ نکال کر مطالعہ کرتے ہیں۔ ان کی لائبریری میں اس وقت 100 سے زائد پی ڈی ایف سے طباعت کی ہوئی کتابیں ملیں گی۔ میں نے سب سے زیادہ خوشی ان کے چہرے پر کتابوں کو خریدتے وقت دیکھی ہے۔ہم چند احباب کی محفل روزانہ رات میں ان کے گھر پر لگتی ہے۔یہ محفل ہمارے علم کی تحصیل کا بہترین وسیلہ ہے۔یہاں آکر جو طمانیت ہوتی ہے اس سے سارے دن کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔یہاں بہت سی علمی باتوں پر تبادلہ خیال ہوتا ہے ، انٹرنیٹ سرفنگ اور کتابوں کے حاصل ِمطالعہ سے ہم سیراب ہوکر گھر لوٹتے ہیں۔
ترجمہ کے فن سے بھی وہ خوب واقف ہیں کئی کتب اور مضامین کے ترجمے انھوں نے کیے ہیں۔ ممبئی کی ایک معروف انٹر نیشنل ایجنسی کی جانب سے ملک کی قدآور سیاسی شخصیات کی مراٹھی کتب کے اردو ترجمے کا کام انھیں سونپا گیا ۔انھوں نے مراٹھی ادب کو اردو قالب میں اس خوبصورتی سے ڈھالا کہ وہ اْردو ہی کی اصل کتابیں لگتی ہیں۔صلہ اور ستائش سے بے نیاز ہوکر انھوں نے بہت سے کام کیے۔شہرت کے بجائے گمنام رہنا پسند کیا۔اپنی تحریراور فن کو کسی اور کے نام سے منسوب کرکے وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔کبھی نام و نمود کے عارضہ میں مبتلاء نہیں ہوئے اور نہ ہی اپنے علم و فن کی نمائش کی۔ وہ فقط کام کو اصل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا کام پسند آگیا بس میرے لیے یہی کافی ہے۔
وہ ایک اچھے اور کامیاب ٹیچر ہیں۔ ٹیچنگ کے اسمارٹ اور جدید وسائل سے تدریس کے فن سے واقف ہیں۔چناں چہ اپنے ساتھیوں کی اس خصوص میں رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔اپنے اسکول سے انھیں بڑا لگاؤ ہے۔ کئی بار گفتگو میں انھوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے اسکول کو ایک کامیاب اور مثالی اسکول بنانا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے کی مکمل صلاحیت بھی ان میں موجود ہے۔ مگر وہ ہمیشہ اسکول کے دیگر مسائل اور کاموں میں اْلجھے رہے کہ وہ حسبِ خواہش اپنے اسکول کو اس درجے پر پہنچانے سے قاصر رہے ۔ اس میں بہت سے داخلی و خارجی مسائل حائل رہے ہیں۔
بھلے ہی وہ کسی مثالی مدرس کے اعزاز سے نوازے نہیں گئے لیکن وہ اپنے طلبہ ، اپنے ساتھی اساتذہ، انتظامیہ اور سماج کی نظر میں مثالی معلم سے کچھ زیادہ ہیں۔کسی نے سچ کہا ہے کہ قدرت جس شخصیت سے کوئی کام لینا چاہتی ہے اسے لاتعداد خوبیوں سے نواز دیتی ہے۔
کیا میٹھے بول سناتے ہو کیا گیت انوکھے گاتے ہو
کیا نغموں پر اتراتے ہو جھنکار نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ نام و نمود کی خواہش کیا یہ علم و فن کی نمائش کیا
اپنا تو عقیدہ ہے یہ سحرؔمعیار نہیں تو کچھ بھی نہیں
(ابو محمد سحرؔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

تحریر:حبیب مسعود علی(لیکچرر مدینۃ العلوم جونیئر کالج ناندیڑ)

ہماری زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو طشت حافظہ میں اپنی جگہ بنانے سے قاصر رہتے ہیں ۔بالکل بے معنی وجود کی طرح،کہ جنھیں یاد رکھنا ہم ضروری نہیں سمجھتے اور کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خو شبو کی مانندسدا ہم رکاب رہتے ہیں۔ پہلے قسم کے لوگ سمجھوتے کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور دوجے قسم کے لوگ محبت کی پیداوار ہوتے ہیں جنھیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ وہ یادوں کے چمن میں کھلتے ہیں،خوشبو کا سفر ہوجاتے ہیں۔میرے لیے اعجاز سر کچھ ایسے ہی ہیں۔ ان کی سبکدوشی پیشے سے تو ممکن ہے لیکن خدمت سے نہیں۔کیوں کہ چھٹی مزدور کو ملتی ہے۔مکتبِ عشق کے دستور کے مطابق سبق یاد کرنے والے کو یا پھرکام سے محبت رکھنے والے کو کبھی چھٹی نہیں ملتی۔وہ کسی نہ کسی حوالے سے ضرور یاد کیے جائیں گے۔
اعجاز سر میرے ہم پیشہ ہی نہیں میرے ہم محلہ بھی ہیں۔گو کہ آج میری رہائش اس علاقہ میں نہیں ہے لیکن میرا بچپن اْن ہی کی قربتوں میں گزرا ہے۔ اْن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ، اْن کے کام کا طریقہ ، ٹیم بِلڈنگ کا طریقہ ، چیالنجیس قبول کرنے کا طریقہ ، وقت پر کام کی تکمیل کا طریقہ ،وہ سب باتیں جو گھر کے فرد کو معلوم ہونی چاہیئے،میرے مشاہدہ میں بھی رہیں۔ایسا اس لیے کہ اعجاز سر عملی تحفظات سے پرے زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔اندیشوں اور خدشوں میں جینا انھیں بالکل پسند نہیں ہے۔جب کوئی قیمتی بات ہو،کوئی علمی نکتہ ہو یا سب کے فائدے کی بات ہو، وہ سرے عام کیا کرتے ہیں اوراپنے ساتھیوں کو یہ ترغیب بھی دلاتے کہ اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ ’’صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے‘‘وہ سب کو فیض پہنچاتے۔اس کے با وصف یہ ہے کہ
میں نے سمندر سے سیکھا ہے جینے کا سلیقہ
چپ چاپ سے بہنا، اپنی موج میں رہنا
اْن سے میری وابستگی دراصل ان کے فن کے حوالے سے ہوئی۔ اْن دنوں ان کے آرٹ کے چرچے ہر خاص و عام کے منہ پرتھے۔وہ فطری آرٹسٹ ہیں۔ ابتداء میں انھوں نے آرٹ کہیں سے نہیں سیکھا۔ یار دوستوں کے توجہ دلانے پرجب انھوں نے فائن آرٹ میں داخلہ لیا تو اس وقت وہ دو بیٹوں کے والد بن چکے تھے اورجب تعلیم سے فراغت حاصل کی تو بیٹوں کی تعدا د دْگنی ہوچکی تھی۔ فائن آرٹ چار سال کا کورس تھا اور دو سال تک انھوں نے یہ بات اپنے کالج سے مخفی رکھی کہ وہ شادی شدہ ہیں۔آج جب کہ وہ ریٹائر ہورہے ہیں توانھیں دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ ریٹائر مینٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔اس وقت جب وہ کالج میں تھے کسی کو اس بات کی بھنک بھی نہیں تھی کہ وہ شادی شدہ اورصاحب اولاد ہیں۔
فائن آرٹ میں داخلہ کے بعد ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور جمالیاتی اقدار میں مزید اضافہ ہوا۔انھیں اس فیلڈ میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ انھوں نے اپنے فن کے اظہار کے لیے کبھی رنگ یا برش پر تکیہ نہیں کیا۔کبھی چمڑے کے ٹکڑے، لکڑی کا بھوسا،رنگین کاغذ اور کپڑے کے چیتھڑوں وغیرہ سے اپنے فن پاروں کی تخلیق کی اور ریاست بھر میں داد بٹوری۔ان کے رنگ ونور کی سمجھ اور فنکارانہ فہم نے ان کے ہم جماعتوں کوکافی متاثر کیا۔وہ اپنے ہم جماعتوں کے کنسپیٹ کلیر کرنے سے لیکر پریکٹیکل کروانے تک ان کی مدد کرتے۔اْن کا یہ ہیلپنگ نیچرآج بھی برقرار ہے۔ادارے کے ہر فرد نے ان سے استفادہ کیا۔ اپنی ذاتی مصروفیت کو کنارہ کرتے ہوئے وہ دوسروں کے کا م آتے ، ایک بار ٹاسک ہاتھ میں لیتے توپھر اسے انجام تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیتے۔ نہ وقت کا خیال رہتا نہ آرام کا خیال،نہ کام میں اپنے پرائے کی تمیز، نہ دوست دشمن کا خیال، سب کا کام ایک ہی معیار پر اور وہ معیار ہے بہتر سے بہترآؤٹ پْٹ دینے کی چاہت۔۔۔
دے خدا وسعت تو سب کے کام آنا چاہیے
دل میں دشمن کے بھی گھر اپنا بنانا چاہیے
موصوف نے فنِ مصوری کے ساتھ فنِ خطاطی میں بھی اپنا بہت نام کیا اور کئی ایوارڈز حاصل کیے۔وہ اچھے آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ،اردو ، عربی ، مراٹھی اور انگلش حروف کی کیلی گرافی سے بھی خوب واقف ہیں۔کتابت اور ڈیزائینگ میں فی الحال اْن کا کوئی ثانی نہیںہے۔آپ جدید ٹیکنالوجی سے بھی کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں۔ کئی گرافک پیکج کا استعمال جانتے ہیں۔ ہارڈ ویر میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔دوست احباب کے سبھی کمپیوٹربلا معاوضہ درست کرتے ہیں۔انھوں نے بدلتے زمانے کے اعتبار سے خود کو ہمیشہ اپڈیٹ رکھا ، جدید ٹکنالوجی ،ذرائع ابلاغ ونشریات کے موثر استعمال سے اچھی طرح استفادہ کیا۔ بہ حیثیت ایڈمین واٹس ایپ اور فیس بک کے پلیٹ فارم کو علم کی تحصیل و ترویج کا ذریعہ بنایا۔ واٹس ایپ پر’’کلاس روم‘‘، ’’نوٹس بورڈ‘‘ اور ’’بک ڈپو‘‘ جیسے معیار ی گروپس کریٹ کیے۔ تبادلہ خیال و ترسیل میں معیار کو ملحوظ رکھا اور ان گروپس کے معیار کی حفاظت بھی کی۔
مطالعے کے ذریعے انسان کی ذہنی نشوونما ہوتی ہے۔ انسان کے کردار کی مثبت تعمیر ہوتی ہے جس سے معاشرے میں فرد کی ایک پہچان بنتی ہے۔ حلقہ احباب میں اْن کاشوقِ کتب اور ذوقِ مطالعہ اْن کی پہچان بن گیا ۔کتابوں سے اْن کی حد درجہ اْنسیت، اْن کو جمع کرنے کا شوق، اپنے ذاتی کتب خانے کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو اْن میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔بالخصوص مذہب، سائنس اور ٹکنالوجی کے موضوعات پرچنندہ اور معیاری کتابیں ان کے ذخیرے میں شامل ہیں۔کوئی نئی کتاب مارکٹ میں آجائے تو اپنے احباب میں اس کا تعارف کراتے ہیں، اس پر تبصرہ کرتے اور پھراپنی مجلسوں میں کتاب کاحاصلِ مطالعہ بیان کرتے ہیں۔ہم نے بہت سی کتابیں اْن کے تبصرے سن کر خریدی ہیں۔ ہم دوستوں کا روز کا یہ معمول ہے کہ علمی استفادے کے لیے ہم بلاناغہ اْن کے گھر جایا کرتے ہیں۔
اعجاز سر کے لکھنے کا شوق بہت بلند ہے وہ ہر دن کچھ نہ کچھ لکھا کرتے ہیں۔وہ بہترین لکھاری ہیں۔ نقاد بھی ہیں۔ وہ دوسروں کی تحاریر کو کبھی تنقید برائے اصلاح اور کبھی تنقید برائے تعمیرکی نظر سے پرکھ کر ہمیں سمجھاتے ہیں۔اچھا لکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کتابوں کے مطالعے کو اپنی عادت بنائی جائے اور جو پڑھا ہے اسے اپنے لفظوں میں لکھنے کی کوشش کی جائے۔ وہ یہ عمل ہر روز کیا کرتے ہیں۔ کتاب فہمی اور شعر فہمی میں وہ ایک مستثنیٰ آدمی ہیں۔ کیسا ہی مشکل موضوع ہو وہ فقط ایک سرسری نظر میں اس کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں بالفاظِ دیگر شعر کے جمیع نکات اور مضمون کے بین السطوراور اس میں پوشیدہ رمزیں ایک ہی نظر میں جان لیتے ہیں۔ اور یہ (ایسی) فضیلت ہے جو صرف اہل قلم سے مخصوص ہے۔میں اکثر اْن سے اپنے مضامین کی اصلاح کرواتا ہوں۔
آپ نے مولانا وحید الدین صاحب کی تحریروں کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔1980سے الرسالہ کے وہ مستقل قاری ہیں۔مولانا کی ساری کتابیں سر کی لائبریری میں موجود ہیں۔علاوہ ازیںہمیں موجودہ دور کے عظیم مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی اور راشد شازکے فہم دین سے متعارف کروانے والے بھی یہی ہیں۔ اْن کی بیشتر کتابیں،میں نے سر کی رہنمائی میں مطالعہ کی ہیں۔ان کتابوں سے ہم نے سیکھا کہ دین میں فوقیت دلائل و براہین کو حاصل ہیں۔علمی پیاس رکھنے والے میرے اور بھی ساتھی ہیں جوان کی صحبت میں مولانا وحید الدین خان صاحب اور غامدی صاحب کے استدلال سے متفق ہیں اور عالم اسلام کی درست سمت میںرہنمائی کو پسند کرتے ہیں۔
25 سالہ خدمات کے بعد وہ بہ حسن وخوبی سبکدوش ہوئے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مدینۃ العلوم ان کی خدمات سے بَہرَہ وَر ہوا ہے۔ادارے کے حق میں انھوں نے جتنے کام کیے وہ مثالی اور لائق ستائش ہیں۔ یہ موقع نہیں کہ میں اْن کی تفصیلات کروں ۔لیکن یہ بات پوری ایمانداری سے کہی جاسکتی ہے کہ اْن کی فراست اورمعاملہ فہمی نے حساس امور کو کامیابی تک پہنچایا ہے۔معاملات کو اچھی طرح سے چلانے کے لیے انسان کو خود کے ساتھ ایک جنگ لڑنی پڑتی ہے۔نامناسب رویے برداشت کرنے پڑتے ہیں ، ناپسند لوگوں سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور کسی کی چالاکیاں اچھے اخلاق سے ٹالنا پڑتی ہیں۔ اندرونی لڑائی زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ یہ اوصاف اور فضل صرف اللہ کی نصرت سے حاصل ہوتے ہیں ۔
بحیثیت ڈرائنگ ٹیچراپنے تقرر سے انھوں نے ڈرائنگ امتحانات کا نتیجہ 100فیصد رکھاہے۔جس کی نظیر سابق میں نہیں ملتی۔مسابقتی مقابلوں میں طلبہ کو شامل کرانا اور انھیں کامیابی سے سر فراز کرانا ان کی ڈیوٹی کا خاصہ رہا ہے۔اسکول کے انفراسٹرکچر سے لیکر تزئین و آرائش ،دفتری امور میں اصلاحات اور اپڈیٹیشن ،خط وکتابت وغیرہ تمام امور کو بحسن وخوبی تکمیل تک پہچانے میں ان کااہم حصہ رہا ہے۔جہاں دیگر ملازمین 5 یا 6 گھنٹے خدمات کے بعد بری الذمہ ہوجاتے ہیں وہ بے آرامی کی حالت میں بھی کی 12سے 18 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ان تمام امور کی سرانجامی کے باوصف وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے بھی غافل نہیں رہے۔ انھیں اعلیٰ تعلیم وہنرسے آراستہ کیا۔آج ان کے تمام بچے برسرروزگار ہیں۔
اْن کی صحت اور مثبت سوچ نے ہمیشہ انھیں جوان رکھا ریٹارمینٹ کی عمر بھی انھیں زیر نہیں کرسکی۔ ادارے سے ان کی سبکدوشی کے بعد بے لوث خدمات کے لیے ان کا نعم البدل ملنا ممکن نظر نہیں آتا۔اللہ انھیں باقی زندگی میں حقیقی کامیابی سے سرفراز کرے اور ان سے دین کی خدمات کا کام لے۔(آمین)
تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا!

تحریر:اختر ؔصادق(موظف صدر مدرس فیض العلوم ہائی اسکول ناندیڑ)

مجھے اس بات پر بڑی حیرت ہوتی تھی، جب میرے ہم پیشہ عزیز دوست شیخ ذاکر اپنے ایک دیرینہ رفیق مسمی شیخ اعجاز صاحب (مدرس مدینۃ العلوم )کی گوناگوں خوبیوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ذکر کچھ اس انداز کا ہوتا تھا کہ ناچیز کو بھی موصوف کے کمالات اور اوصاف کو جاننے کا اشتیاق ہوا۔ جتنا کچھ اْن کے بارے میں سْن رکھا تھا ذہن میں ایک شَبِیہ بن چکی تھی اور لگتا تھا کہ موصوف سے ملاقات بس ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔ پھر ذاکر سر ، شکیل سر اور اعجاز سر تینوں فنکاروں سے ایک ساتھ ملاقات ہوگئی۔یہ اتفاق بھی بڑا عجیب ہے کہ فن و ادب کا مشترکہ ذوق رکھنے والے یہ تینوں احباب برسوں سے ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ایک مثلث کی مانند اپنے راسین سے جڑے ہوئے ہیں۔احقرکو سائنس و ریاضی کا طالب علم ہونے کے سبب دوستی کے اس مثلث کا حصہ بننے میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔
وضع وقطع میں سادگی، سانولی رنگت ، متجسس آنکھیں ، ذہین و فطین دماغ ، ذوقِ لطیف کا مرقع شیخ اعجاز صاحب، کسی کو عام سے لگتے ہوں مگر احقر کے تجربے کے مطابق وہ واقعی بہت خاص ہیں۔ موصوف کے بارے میں اپنے تاثر کو رکھنا ضروری سمجھتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ذاکر سر اور شکیل سر نے مل کر میرے سامنے ان کا غائبابہ جو پورٹریٹ بنایا تھا، میں نے آپ کو تقریباً ویسے ہی پایا۔ویسے تو اعجاز صاحب بنیادی طور پر رنگوں اور خطوں کی دنیا کے سیاح ہیں۔ فنِ مصوری کے شغف نے انھیں بچپن ہی سے چیزوں کی گہرائی و گیرائی تک رسائی میں بھر پور مدد کی۔نیز ڈرائنگ اور پینٹنگ کی صلاحیت و مہارت نے ان کے شوق کو مزید اْبھاراااور یہی مصوری کا شوق اب ان کا پروفیشن بن چکا ہے۔شاعری، مصوری، موسیقی، رقص اور سنگتراشی جمالیاتی احساس کا اظہاریہ ہیں۔یہی فنونِ لطیفہ کی اساس بھی ہے۔ فنونِ لطیفہ دراصل خیال کو شکل دینے کے نازک عمل کا نام ہے۔ کبھی یہ زبان اور الفاظ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی حرکات و سکنات کی شکل میں تو کبھی رنگ و نور کی شکل میں، بس یہ اندر کے احساس کو بیدار کرنے اور باہر لانے کا ایک طرزِہنر ہے۔ جوش ؔملیح آبادی نے شاید ایسے ہی کسی موقع کے لیے کہا تھا کہ:
آہ کو دے کے گرہ حرف بنا دیتا ہوں
خطاطی مصوری ہی کی ایک شکل ہے۔مصوری کے شوق نے آپ کے اندر خطاطی کا جوہر بھی پیدا کردیا۔موصوف اردو کے مانے ہوئے خطاط ہیں، آپ کو مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی جانب سے فن خطاطی کا ایوارڈ بھی ملا ہے۔ آپ نے اپنی مصوّری و خطّاطی کو محدود نہیں رکھا بلکہ مجتہدانہ اسلوب سے کام لے کر اپنے فن میں بالکل نئی جدتیں پیدا کیں۔معروف رسم الخط اردو نستعلق اور عربی رسم الخط ثلث کو نئے پیرائے میں لکھنے کا تجربہ کیا اور آج ناندیڑ وعلاقہ مراٹھواڑہ کے شادی بیاہ کے رقعہ جات میں یہ تبدیلی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔بدلتے وقت اور تقاضوں کے ساتھ انھوں نے اپنے فن اور اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا۔ کمپیوٹر اور موبائیل کو بطور ٹول استعمال کرکے انھوں نے اپنے فن کے اظہار میں ندرت پیدا کی۔کتابوں کی ترتیب و تزئین، اور معنی خیز سرِ ورق ڈیزائن کیے۔ انہوں نے محنت سے کبھی جی نہیں چرایا۔ ایک زمانہ تک آپ علاقہ مراٹھواڑہ کے ایک درجن روز نامے اور ہفت روزوں کی کتابت کیا کرتے تھے۔ بیک وقت اتنے اخباروں اور رسالوں کو مستقل لکھنے کے عمل نے ان کے اندر لکھنے کی غیر معمولی صلاحیتیں پیدا کردیں۔ نام و نمود سے بے نیاز انھوں نے بہت کچھ لکھا۔ تحریر کا اسلوب ایسا اختیار کیا کہ بات سیدھا دل میں اتر جائے۔
اْردو سافٹ ویر اِن پیج کی مقبولیت اور اس کے عام ہونے کے بعد آپ نے کتابت کا سلسلہ موقوف کر دیا، لیکن اپنے فن سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی بلکہ اس کو زندہ رکھنے کے لیے نئی راہیں تلاش کرتے رہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اِن پیج اور مختلف فونٹس کے فنی جمال کو اپنے شہ پاروں کی زینت بنایا۔ نئے فنی اسٹروک وضع کیے۔آج بھی مختلف رقعے جات، مختلف رسائل ،کتابوں اور اخباروں کے ٹائٹل میں ان خوبیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔علاوہ ازیں مراٹھی اور انگریزی کے کیلی گرافی بھی وہ خوب کرتے ہیں۔ مختلف زبانوں میں فن ِ خطّاطی کے اظہار کی اعلیٰ درجہ کی صلاحیت اور اس کے فنی اسرار و رموز سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں۔
مدینۃ العلوم ایک لحاظ سے بڑا خوش نصیب ادارہ ہے کہ اسے ایسا باصلاحیت اور ہمہ وقت اپنی بے لوث خدمات پیش کرنے والا ایک قابل ٹیچر میسر ہوا۔ موصوف نے اپنی خدمات کو ادارہ کے لئے وقف کردیا ہے۔ انھوں نے ڈرائنگ کے مختلف مسابقتی امتحانات میں طلباء و طالبات کی شرکت کو یقینی بنانا اور طلبہ میں فنِ مصوری کے ذوق کو پروان چڑھانا اور ڈرائنگ کی نمائش کا اہتمام کرنا، وغیرہ کام احسن طریقے سے انجام دیے۔
اعجاز صاحب کم سخن واقع ہوئے ہیں۔ عموماً بات چیت میں اس وقت دلچسپی لیتے ہیں جب مد مقابل بھی گفتگو شناس ہوتا ہے۔ آپ کی گفتگو علمی اور معلومات افزاء ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے :’’رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے‘‘۔طنز و تضحیک سے گریز کرتے ہیں۔طبیعت میں نکتہ طرازی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا چاہے کوئی موضوع ہو بات مدلّل کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مد مقابل بھی کم از کم دلیل سے بات کرے۔ بلا تحقیق بات کرنے سے خاموش رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ کو بھی سلجھانے اور اسے انجام تک بخیر پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالانکہ آپ فائن آرٹس کے ڈگری یافتہ ہیں، لیکن اْردو کا منظوم و منثور ادب، سائنس و ریاضی، کمپیوٹر ٹولس اور ہینڈلنگ اسکلس، سیاسیات و سماجی علوم، دین و مذہب غرض کہ کوئی موضوع کسی بھی علمی میدان کا ہو ہر ایک کا باریک بینی سے مطالعہ ان کا خاص شغف رہا ہے۔
ایک مصنف قرطاس پر حروف رکھ کر الفاظ کو لکھ کر معنی مضمون کی افسوں گری کرتاہے، تو وہیں ایک مصور جذبات کو رنگ کر ان میں احساس کے دیپک جگا دیتا ہے۔اسی لئے ایک کہاوت ہے کہ ایک تصویر ہزاروں الفاظ سے بہتر ہوتی ہے۔ اعجاز سر کی شخصیت کے رنگوں کے شیڈس بھی شاید اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اظہر عنایتی کے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ
اپنی تصویر بناؤ گے تو ہوگا احساس
کتنا دشوار ہے خود کو کوئی چہرہ دینا
میں دعا گو ہوں کہ محترم اسی طرح خوش و خرم اور شاد و آباد رہیں۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد

تحریر:محمداحسان الرحمٰن (مدینۃ العلوم جونیئر کالج ، ناندیڑ)

معاشرے میں استاد کو بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کا کردار بے لوث اور اہم ہوتاہے۔وہ معاشرتی، اخلاقی اور فکری بنیادوں پراپنے طلبہ کی تربیت کرتاہے۔ جب ایک استاد اپنے علمی سفر کے آخری مرحلے میں داخل ہوتا ہے، تو اس کے لیے ریٹائرمنٹ کا نیا باب کھل جاتا ہے۔ ایک استاد کی زندگی میں ریٹائر منٹ تب آتا ہے جب اسے مختلف چیلنجز اور مواقعوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ استاد کے رسمی تدریس کا سلسلہ توفی الواقعہ ختم ہوجاتا ہے لیکن اس کا علم اور تجربہ معاشرے کے لئے ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ وہ علمی ورثہ ، جواس نے چھوڑا ہے، معاشرے کی بہتری اور ترقی میںکام آتا ہے۔ اس کی رہنمائی اور تجربات کا خزانہ معاشر ے کے علم و فہم میں اضافہ کرتارہتا ہے۔
یہ جنرل تمہیدی کلمات میں نے جس استاد کی شان میں لکھے ہیں وہ اعجاز سر ہیں جو 31 جنوری 2024 کو ادارہ مدینۃ العلوم سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ وہ میرے لیے متاع ِحیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے 5 سال ان کی رفاقت میں گزرے ہیں۔ بطور کلیگ میں نے ان سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ وہ ایک سرشار معلم ہیں، نوجوان صلاحیتوں کو تشکیل دینے اور انھیں مثبت اقدار سے جوڑے رکھنے میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔زیرِ نظرمضمون اعجازسر کی خدمات کا ایک اجمالی تعارف ہے، ادارے کے تئیں ان کی دیانتداری ، عاجزی، متنوع مہارتوں اور سرگرمیوں نے طلباء اور اپنے ساتھیوں پر دیرپا اثر چھوڑاہے۔
عزم اور لگن سے کام کرنا ان کے مزاج کا ایک لازمی جوہر ہے۔ ان کی دیانتداری اور عاجزی ادارے کے اندر اور باہر دونوں طرف یکساں ہے۔ انہوں نیاپنی مخلصانہ کاوشوں سے ادارے میں سازگار ماحول برپا کیا اور اپنے ساتھیوں میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کے اعتماد کو فروغ دیا۔ وہ اپنے ساتھی اور طلبہ کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ،ان کی یہ خصوصیت صرف اسکول کے افراد تک محدود نہیں تھی وہ اپنے احباب اور روز ملنے جلنے والوں کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھتے ہیں۔ان کا کوئی ساتھی یاطالب علم اگر کوئی مسئلے سے دوچار ہو اور وہ مشورہ طلب کرے تو اس کی مدد کے لیے ہمیشہ دستیاب رہتے ہیں۔
روایتی طریقوں کے بجائے تدریس کے جدید وسائل کے استعمال کو پسند کیا۔ اپنے ساتھیوں ،میں نہ صرف سیکھنے کے جذبے کو فروغ دیا بلکہ انھیں متحرک و فعال بنانے اور تعلیمی سرگرمیوںمیںمل کر کام کرنے کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔وہ طلبا اور سرپرستوں کے ساتھ ذاتی روابط استوار کرنے اور تعلیمی ماحول کو فروغ دینے میں ان کی معاونت کوضروری سمجھتے تھے۔ ادارے سے ان کی وابستگی موقتی نہیں تھی وہ 24/7ادارے کے بہبود میں سرگرم عمل تھے۔تنازعات میں ہمیشہ ثالث کا بہ خوبی رول ادا کیا۔ انصاف اور ہمدردی کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کی قابل ذکر صلاحیت ان میں موجود تھی۔ ان کی اس صلاحیت نے اسکول کے داخلی اور خارجی ماحول میں ہم آہنگی پیدا کی۔
وہ گوناگوں صلاحیتوں کے حامل ہیں۔انھوں نے بہبود کے سرکاری شعبوں اور اسکیمات سے استفادے کے لیے ہمیشہ رہنما خطوط کی نشان دہی کی، طلباء کی متنوع ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدید تدریسی طریقوں کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی۔حکومتی قراردادوں اور سرکاری پالیسیوںکی معلومات کو وسیع ترمفاد میں پہنچایااور طلباء کے مفادات کے تحفظ میں عملی اقدامات بھی کیے۔ڈرائنگ کے امتحانات ہو ں یا مسابقتی مقابلوں میں طلبہ کی شرکت ہواسکول کی نمائندگی میں وہ ہمیشہ پہل کرتے رہے۔انٹرنیٹ کے استعمال میں مہارت کے سبب انھیں متنوع وسائل کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا اس حوالے سے انھوں نے ادارے کو ہر پل اپڈیٹ رکھنے کی سعی کی۔جب بھی میں اْن سے ملا ، وہ مختلف موضوعات پر جاری اپنی تحقیقات کے بارے میں نئی معلومات فراہم کرتے تھے ۔ان میں مسلسل سیکھنے کی جستجو نے ادارے کے تعلیمی ماحول میں نمایاں کردار ادا کیا، وہ فکری تجسس کو فروغ دینے میں بھی پیش پیش رہے۔ وہ اپنے تمام ساتھیوں کے لیے ایک معاون و مدد گار ثابت ہوئے، آن لائن کام سے متعلق مختلف مسائل کا جب بھی سامنا ہوتا وہ سبھی کی رہنمائی کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے والا ماحول پیدا کرتے تھے۔
وسیع تر سیاق و سباق میں تعلیم کی فضیلت کو واشگاف کرنے کی خوبیاں ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں ، اپنے ساتھیوں کو فعال ومتحرک بنانے ، موافقت کی فضا ہموار کرنے ا ور تعاون کے جذبے کو ابھارکر ،صبر و تحمل کے ساتھ اپنے مقصد کو پورا کرنے کی نصیحت کرتے اور سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو مشعل راہ بناتے۔
ان کو الوداع کہنا یقیناً شاق گزر رہاہے، تاہم اس بات کا یقین ہے کہ وہ عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں لیکن علمی و عملی جہتوں سے اپنے تعلق کو کبھی منقطع نہیں کر پائیں گے۔ بلکہ نئے دائرہ عمل میں داخل ہوکر سماج کو وسیع تناظر میں فیض پہنچا نے کی سعی کریں گے۔ مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا شیخ سعدی کے اس مصرع کے مصداق بن جاتا ہے:
’’ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد ‘‘
اُمیدبھی ہے اور دعا بھی کہ اللہ نے انھیں جو صلاحیتیں بخشی ہیں اس کا فیض عام ہو ، اور وہ صحت و دائمی خوشی حاصل کرے۔ نیک خواہشات !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

एक संवेदनशील शिक्षक शेख एजाजसर!

शेख जाकिर (कलाशिक्षक) फैजुलउलूम हायस्कूल, गोकुळ नगर नांदेड.

शासकीयआणिनिमशासकीयसेवेतकार्यरतअसणाच्याकर्मचाऱ्यांनाएकनियतवयअसते. वयाचातोपल्लागाठलाकीसेवानिवृत्ती! हीसेवानिवृत्तीगाठण्यासाठीअनेकांनाखूपकांहीकरावेलागते. तरकुणालासेवानिवृत्तीचापल्लाजवळआल्याचेहीकळतनाही. तेआपलेआपल्यादैनंदिनचाकोरीबद्धकामातव्यस्तअसतात. कुणाकुणालातरआठवणकरूनद्यावीलागतेकी, तुम्हीअमुकवर्षीअमुकवेळीसेवानिवृत्तहोतआहात.

शेखएजाजसरमदिनतुलउलूमशाळेचानांदेडसंस्थेच्याचाकोरीबद्धसेवेतूननिर्धारितनियतःवयानुसारदिनांक 31/01/2024रोजीसेवानिवृत्तहोतआहेत. विश्वासबसतनाही. त्यांचीशरीरप्रकृतीआणित्यांच्याअॅक्टीव्हिटीजकडेपाहूनतेनियतसेवानिवृत्तीच्यावयापर्यन्तपोहोचलेआहेतअसेवाटतनाही. असो, असतातकाहीचोरट्यावयाचीमाणसं. त्यातशेखएजाजही ! असेचम्हणावेलागेल.

शेखएजाजयांचीसेवानिवृत्तीतरनक्कीचहोतआहे. यातवादनाही. पणमाझ्यासमोरप्रश्नआहेतोकशाकशातसेवानिवृत्तहोणारआहे?..शेखएजाजएकसेवाअनेक. शेखएजाजमैलाचादगडआहे. तोचौरंगीचिराआहे. कुठेही, कसाहीबसवा, बसणारच! कलेचाफड, लेखणीचीकसरतअसोकीचित्रकलाकेवळशिक्षणनव्हेअनेकक्षेत्रातआहे. उर्दूकॅलिग्राफीडिझाईन, कम्प्युटरचेकोणतेहीकामअसोऑनलाइनचेसर्वकामेअसोComputer Softwareआणि Hardwareयामध्येहीकौशल्यप्राप्तकेलेलेआहे. इंग्रजीमराठीआणिउर्दूभाषेचेचांगलेज्ञानआणिशैक्षणिकतसेचकार्यालयीनकामकाजअशैक्षणिककर्तव्यपारपाडण्याचीक्षमताआहे.तसेचउर्दूभाषेमध्येत्यांचा कुणीसानीनाहीतेअनेकमराठीपुस्तकांचेउर्दूमध्येभाषांतरकेलेलेआहेत.तसेचसोरामीडियानेमा.पंतप्रधाननरेंद्रमोदी, शरदपवार, देवेंद्रफडणवीसयामान्यवरनेत्यांवरमराठीमध्येलिहिलेल्यापुस्तकांचेउर्दूमध्येउत्कृष्टपणेभाषांतरकरूनदिले. यापुस्तकांचेयाचमान्यवरलोकांच्याहस्तेविमोचनकरण्यातआले.सरांनाप्रत्येकविषयाचेपुस्तकेवाचण्याचाफारमोठाछंदआहे. त्यामुळेत्यांचाप्रत्येकविषयाचाज्ञानफारदांडगाआहे.त्यांनीआपल्याघरामध्येपुस्तकांचेस्वतःचेग्रंथालयतयारकेलेलेआहे.समाजातीलअनेकक्षेत्रातज्यांनीआपलाप्रभावदाखविलात्यातशेखएजाजयापैकीएकआहेत.

गेल्या30वर्षापासूनसरमाझेघनिष्ठमित्रआहेत.ज्यांच्याशीबोलतानाआनंददुप्पटहोतोआणिदुःखअर्धेहोते.एकदिलदारमाणूस, प्रेमळ, सुसंस्कृत, कामातशिस्त, आचरणातशिस्तवजबाबदारपणायासर्वगुणांचेमिश्रणम्हणजेआमचेआवडतेआदरणीयशेखएजाजसरआहेत.त्यांच्यापासूनमलाखुपकाहीशिकण्यासमिळालेलेआहे. यांचेअमूल्यमार्गदर्शनवसहकार्य, त्यांच्याप्रयत्नामुळेमीमाझेतीनपुस्तकेप्रकाशितकरूशकलो. जेआजपर्यंतपंचवीसहजारपुस्तकेविकलीगेलीआहेत. याचेसर्वश्रेयसरांनाजाते. माझ्यासारख्याअनेकलोकांनात्यांनीपडद्याआडराहूनलोकांनापुढेनेलेलेआहे. आपल्यासोबतदुसऱ्यांचेहीचांगलंव्हावंअशीमानसिकतात्यांच्याअंगीआहे, जेमाझ्यासाठीमोठेप्रेरणास्थानआहेत.

एजाजसरांचीनियुक्तीपासूनआजपर्यंतदरवर्षीशासकीयग्रेडपरीक्षेतशंभरटक्केविद्यार्थीउत्तीर्णहोतात.तसेचमदिनतुलउलूमशाळेलापुढेते नेण्यासाठीनेहमीप्रयत्नशीलराहिले. त्यांनीशाळेसाठीअहोरात्रवअनेकउन्हाळी, दिवाळीसुट्ट्याअर्पणकेलेआहे. शाळेमध्येवृक्षारोपणकरूनशाळेचीसुंदरतावाढवलीआहे.तसेचशाळेतीलबांधकामअसोऑनलाईनचेकामअसोकिंवाकोणताहीउपक्रमसर्वजबाबदारीनेनियोजनकरूनउत्तमरीत्यापारपाडलेलेआहेत.त्यांचीप्रतिभापाहूनसंस्थेनेत्यांच्यावरअनेकजबाबदाऱ्यासोपवलेआहेत.त्यात्यांनीअतिशयसक्षमतेनेपारपाडलेलेआहेत. आजपर्यंतमीत्यांनाशाळेतीलकोणत्याहीकामांमध्येकुचराईकरतानांपाहिलेलेनाही. त्यांचेसर्वप्रयासहेकेवळशाळेच्याहितासाठीआहेत. सरांचीकामकरण्याचीहातोटीवेगळीचआहे. संबंधतरजोपासतातचपणआपल्याकार्यात, कामातसंबंधाचेकोणतेहीपरिणामकामावरहोणारनाहीयाचीकाळजीनक्कीचघेतात. अगदीसहजवसोप्यापद्धतीनेकामकसेकरावेहेसमजावूनसांगण्याचेकौशल्यत्यांच्याकडूनचशिकावे.

शेखएजाजम्हणजेबंधुतुल्यव्यक्तिमत्व, हितचिंतक, विद्यार्थिप्रिय, उपक्रमशिलआदर्शकलाशिक्षक, उत्तमतंत्रस्नेहीअष्टपैलू ,सुस्वभावी. तेस्वतःसहसर्वांनाहितकारकठरावेयाभावनेनेत्यांचाप्रवासझालेलाआहे. आजएजाजसरांनाशिक्षणसेवेतूनसन्मानपूर्वकनिरोपमिळतआहे, हीचत्यांच्यासेवेचीखरीउपलब्धीअसावी,असेवाटते. अल्लाहतालासेप्रार्थनाआहेकिशेखएजाजभावीजीवनातसुख- शांती, समृद्धीआणिनिरोगीआयुष्यतसेचत्यांचेजीवनहीआनंदीत, समाधानाचे, भरभराटीचेहोवो.तुमचीसर्वस्वप्नेआणिआकांक्षापूर्णहोवो.हीचआमच्यासर्वांकडूनत्यांनाशुभेच्छा.

त्यांच्यायाकार्यातसदायशमिळो. त्यांचेनवलौकिकवाढो…

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے