किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

چٹھی آئی ہے وطن سے چٹھی آئی ہے

تحریر: علیم خان فلکی9642571721

پنکج اداس کے انتقال نے یادوں کے کئی دریچے کھول دیئے۔
میں غزل گلوکاروں کے معاملے میں تھوڑا سا انتہاپسند ہوں۔ بالکل انہی مولویوں کی طرح جو کسی غیرمولوی کی تقریر سننا گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح جو اہلِ زبان نہیں ہوتےمیں ان کی غزلیں نہیں سنتا۔ غیراردو داں اچھا غزل گو ہو بھی جائے تو غزل فہم نہیں ہوسکتا، اس لئے راگوں میں شعروں کی نزاکت تک نہ خود پہنچ سکتا ہے اور نہ سامع کو پہنچاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہر اہلِ زباں مہدی حسن اور جگجیت ہی ہوتا ہے۔ بے شمار اہلِ زباں گلوکار ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کو سننے کے بعد ہمیں انوپ جلوٹا یا ہری ہرن ہی کو سننا بہتر لگتا ہے۔ پنکج اداس کا فی زمانہ غزل گائیکی میں بہت اونچا مقام ہے۔ پنکج اداس نے اپنے فن سے اردو غزل کو باقی رکھا۔ ہم ان کی غزلیں سنتے بہت کم تھے، لیکن ان کی قدر بہت کرتے تھے کہ ایسے فنکاروں کے بعد اردو کو باقی رکھنے والے نہیں ہوں گے۔ میرے انتخاب میں ان کا صرف ایک گیت ہے۔
ایسا گیت جو شاید میری طرح کے سینکڑوں انسانوں نے جب پہلی بار سنا تو اپنے آنسو روک نہ سکے، اور فوری Exit re-entry لگوا کر ماں باپ سے ملنے پہلی فلائیٹ سے وطن آگئے۔ یہ گیت جب بھی سنتا ہوں وہ دن جس کو گزرے ہوے تقریبا چوتیس یا پینتیس سال ہو چکے ہیں آج بھی گزرے ہوئے کل کی طرح لگتا ہے، اس دن پہلی بار یہ گیت سن کر میں بہت رویا تھا۔ عزم تو یہی لے کر سعودی عرب گیا تھا کہ جب تک خوب مال کما نہیں لوں گا، اس افلاسی ملک کو واپس نہیں آؤں گا، لیکن اس گیت کے سنتے ہی دل اتنا بھرآیا کہ گھر کی یاد تڑپانے لگی۔ ماں باپ بھائی بہنوں کے چہرے ریالوں اور درہموں سے کہیں زیادہ عزیزمحسوس ہوئے۔ ہر مصرعہ دل کو چیرکر رکھ دینے والا تھا

او پردیس کو جانے والے،
لوٹ کے پھر نہ آنے والے
سات سمندر پار گیا تو
ہم کو زندہ مار گیا تو
خون کے رشتے توڑ گیا تو
آنکھ میں آنسو چھوڑ گیا تو
پہلے جب تو خط لکھتا تھا
کاغذ میں چہرہ دِکھتا تھا
بند ہوا یہ میل بھی اب تو
ختم ہوا یہ کھیل بھی اب تو
ڈولی میں جب بیٹھی بہنا
رستہ دیکھ رہے تھے نینا
میں تو باپ ہوں، میرا کیا ہے
تیری ماں کا حال برا ہے
تو نے پیسہ بہت کمایا
اس پیسے نے دیس چھڑایا
دیس پرایا چھوڑ کے آ جا
پنچھی پنجرہ توڑ کے آ جا
آجا عمر بہت ہے چھوٹی
اپنے گھر میں بھی ہے روٹی
چٹھی آئی ہے وطن سے چٹھی آئی ہے

اس تڑپا دینے والی شاعری کے خالق تو آنند بخشی تھے، لیکن پنکج اداس کی آواز نے اس میں جو درد جگادیا تھا، اس کی داد نہ دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔ اس گیت کو سننے کے بعد وہ بے شمار منظر آنکھوں میں گھوم گئے جو ریال و درہم کے چکّر میں ایک خواب کی طرح ہم بھول گئے تھے۔ کبھی رات دوستوں کے ساتھ فضول گپ شپ میں گھرآنے میں دیرہوجاتی، سارے گھروالےآنے تک سوجاتے سوائے ایک ہستی کےجوبیٹے کے انتظار میں چاہے جتنی رات ہوجائےوہ سو نہیں سکتی۔ ہم چپکے سے سائیکل کو اسٹانڈ لگاتے لیکن ذرا سی آہٹ ہوہی جاتی اور امّی کی آواز آتی، علّو؛ آگیا ماں تو؟ کھانا نکالوں؟ اس گیت نے اُس من و سلوٰی کی یاد دلائی جو ہم سعودی عرب میں ہرروز سینڈُوچ، رزّبخاری، البیک اور فول جیسے کھانے کھاکر بھول چکے تھے۔ ہمیں یہ بھی یادنہیں رہاکہ امّی کوبیٹے کےلئے گھنٹوں انتظار کی عادت تھی، اب تو گھنٹوں نہیں، ہفتوں یا مہینوں نہیں بلکہ ایک ایک یا دو دو سال سے اتنظار کررہی ہیں۔ اب بھی رات بے رات کوئی آہٹ ہوجائے، ہوا سے دروازہ ہل جائے تو بے اختیار خیال آجاتا ہوگا کہ علّوآیا ہوگا۔
جانےکتنے پتھر سینے پر رکھ کر امّی نے یہ انتظار کی عادت کو ختم کیا ہوگا۔
پھربابا کی آواز کانوں میں آتی، پتہ چلتا وہ بھی جوان بیٹے کے گھرنہیں آنے پرسونہیں پائے۔ وہ پوچھتے بیٹا عشا ہوگئی؟ یاد آیا کہ سعودی جاکر ویزا اور ٹکٹ کے قرضے تو سارے ادا کردیئے لیکن بے شمار نمازوں کا قرض چڑھ گیا کبھی نہ ہمیں احساس ہوا اور نہ کوئی یاد دلانے والا تھا۔ ایک بار امی بابا کے سائے سے دور کیا ہوئے، گویا اللہ کے سائے سے دور ہوگئے۔

وہ سارے دوست یاد آئےجو کبھی محرمِ غربت و بیروزگاری تھے،جن کے ساتھ جیب میں آدھی چائےاور آدھا سگریٹ ہی پی لینے کے پیسے ہوتے۔ لیکن کہیں وہ دوست قرض نہ مانگ لیں، اِس خوف سے ان سے خط و کتابت بھی ختم ہوچکی تھی، ان کے ساتھ گزرے ہوئے کڑکی کے سارے لمحات اس گیت کے پس منظرمیں گھومنے لگے۔ اس گیت کے ساتھ وہ دن بھی یاد آئے جب کسی باہر سے آنے والے کے پاس بڑی امیدیں لے کر ویزہ کی درخواست لے کر جاتے، اور یہ سن کر خالی منہ لوٹتے کہ "اب پہلے جیسا نہیں رہا، خلیج کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں”۔

وہ سارے چہرے بھی یادآئےجوپھول اور امام ضامن لے کر بیگم پیٹ ایرپورٹ آئے تھے۔ کوئی بس میں تو کوئی آٹو میں، کوئی اسکوٹرپر تو کوئی کسی کی لِفٹ لے کر۔ اُن میں سارےلوگ پیسے یا تحفوں کی آس میں نہیں آئے تھے، اُن میں کئی اک اپنےایک پیارے سےاُس کے بچھڑنےسے پہلےایک بار مل لینےآئے تھے۔امام ضامن میں تو چارآنے یا آٹھ آنے سے زیادہ کچھ نہ تھا، لیکن جس تگ و دو میں انہوں نےاتنے گھنٹے ہمارے نام کردیئے تھےان کی قیمت اب سمجھ میں آئی۔ ایک بار ریال جمع ہونے شروع ہوجائیں آدمی ان ایک دو روپیہ کے پھولوں، امام ضامنوں اورامام ضامن باندھنے والے سبھی کوفراموش کرڈالتا ہے۔ اس گیت نے ان الوداع کہنے والے سارے چہروں کی یاد دلادی تھی۔

بہرحال، آنند بخشی اور پنکج اداس کایہ گیت کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس میں ہر تارکِ وطن کی تصویرہے۔ جتنی تیزی سے عمرگزرتی جارہی ہے، اِن پرانی تصویروں کی قیمت اور بڑھتی جارہی ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے