किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

وہ چراغ بجھا جس سے زمانہ روشن تھا

(حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں)

از قلم : سید آصف ندوی، ناندیڑ

یہ کیسا دن ہے کہ دل بیٹھ گیا ہے۔ ایک ہْو کا عالم ہے۔ روح کانپ رہی ہے۔ ریاست مہاراشٹر بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ملکِ ہندوستان کی مایہ ناز شخصیت، خادم القرآن والمدارس، مربی العلماء والطلبہ، محسنِ ملت حضرت مولانا غلام محمد وستانوی نور اللہ مرقدہ، ابھی کچھ دیر قبل اس فانی دنیا سے کوچ فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعون۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جیسے ہی حضرت والا کے وصال کی خبر ملی، دل جیسے تھم سا گیا۔ زبان پر سکتہ، آنکھوں میں نمی، دل میں کرب اور روح میں خلش۔۔۔ جیسے پورے وجود پر ایک سکوت سا طاری ہو گیا ہو۔ لیکن چند لمحوں کے بعد جب دل نے حقیقت کا ادراک کیا تو بے اختیار آنکھیں چھلک پڑیں۔ حضرت کی جدائی کا غم کوئی معمولی دکھ نہیں۔ ایک عہد، ایک روایت، ایک تحریک اور ایک مشن رخصت ہو گیا۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب فرمایا تھا، جنہوں نے سادگی، خلوص، حکمت اور اخلاص کے ساتھ اپنی پوری زندگی امت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دی تھی، آج وہ ہم میں نہیں رہے۔
حضرت کا تذکرہ صرف کسی عالم دین کا تذکرہ نہیں، یہ صدی کی ایک تحریک، ایک کارواں، ایک انقلاب کا تذکرہ ہے۔ وہ ایک ایسے مرد درویش تھے جنہوں نے اکل کوا جیسے پسماندہ علاقے میں علم و عرفان، تہذیب و تمدن اور قرآن و سنت کے خزانے بکھیر دیے۔ ان کی زندگی وقف تھی۔ نہ شہرت کی ہوس، نہ دنیا کی طلب۔ بس ایک درد تھا امت کا، ایک شوق تھا دین کی خدمت کا، اور ایک خواب تھا علم کو عام کرنے کا۔ اور وہ خواب تعبیر بن گیا۔
حضرت والا کی ابتدائی زندگی ایک دیہی اور سادہ ماحول میں گزری۔ وہ معمولی وسائل، لیکن عظیم مقاصد کے حامل انسان تھے۔ دین سے محبت، قرآن سے شغف اور علم سے عشق نے انہیں ابتدا ہی سے ممتاز بنا دیا۔ اْن کے والد بزرگوار ایک صالح اور دیندار انسان تھے جنہوں نے حضرت کے قلب و دماغ میں دینی جذبات کی شمع روشن کی۔
مولانا نے مظاہر العلوم سہارنپور اور دیگر ممتاز دینی اداروں سے تعلیم حاصل کی اور جلد ہی اپنے علم، حلم اور تقویٰ کی بنا پر اساتذہ اور رفقاء میں ممتاز ہو گئے۔ لیکن یہ علم صرف اْن کا زیور نہ رہا، بلکہ وہ اسے امت تک پہنچانے، عام کرنے اور اسے عمل کا جامہ پہنانے کے مشن پر لگ گئے۔
جامعہ اشاعت العلوم اکل کواں جو حضرت والا کی فکر و عمل کا سب سے بڑا مظہر ہے، آج ملک بھر میں ایک عظیم تعلیمی تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ حضرت نے مہاراشٹر کے کونے کونے میں قرآن و سنت کی روشنی پھیلانے کے لیے سینکڑوں مکاتب، مدارس، حفظ و عربی مدارس کی بنیاد ڈالی۔ اْن کا سب سے بڑا ہنر یہ تھا کہ وہ چھوٹے چھوٹے دیہات اور پس ماندہ علاقوں میں دینی ادارے قائم کرتے، مقامی لوگوں کو اعتماد میں لیتے، اْن کے دلوں میں دین کی محبت جگاتے اور یوں رفتہ رفتہ دین کی شمع ہر طرف روشن ہوتی چلی گئی۔
آج ملک کی کوئی ریاست ایسی نہیں جہاں حضرت والا کے ادارے یا اْن کے تلامذہ موجود نہ ہوں۔ ان مدارس میں صرف تعلیم ہی نہیں دی جاتی بلکہ تربیت، اصلاحِ معاشرہ، ملی شعور اور دعوتِ دین کا کام بھی بخوبی انجام دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی قائم کردہ شاخوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان اداروں سے ہر سال ہزاروں حفاظ، علماء اور مربی فارغ ہو کر ملت کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
حضرت کا طرزِ زندگی سادگی، عاجزی، اخلاص اور اخفاء پر مبنی تھا۔ نہ شہرت کا شوق، نہ نمود کا جذبہ، نہ تصاویر کا جھمگٹ، نہ فخر و مباہات کا کوئی انداز۔ ہمیشہ زمین سے جْڑے ہوئے، عوام سے رابطے میں، طلبہ سے محبت کرنے والے، اساتذہ کا ادب کرنے والے اور مشورہ لینے کے عادی۔ اْن کا چہرہ علم و عمل کا پیکر تھا، گفتگو میں نرمی، لہجے میں شفقت، نظر میں وقار، اور پیشانی پر سجدوں کا نور۔
ایک بزرگ عالم نے حضرت کے بارے میں کہا تھا: ’’حضرت وستانوی‘‘ کو اگر اس امت کے مدارس کا معمارِ جدید کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ وہ ایک ایسے انجینئر تھے جنہوں نے ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق دینی ادارہ تعمیر کیا۔
ان کے بعض تلامذہ بیان کرتے ہیں:’’حضرت استاد کم اور والد زیادہ لگتے تھے۔ وہ ہمیں صرف پڑھاتے نہیں تھے، بلکہ جیتے جاگتے دین کا عملی نمونہ پیش کرتے تھے۔ اْن کی ایک بات، ایک دعا، ایک توجہ، زندگی بدل دیتی تھی۔‘‘
حضرت کی وفات کا دن بروز اتوار چار مئی 2025 تاریخِ مدارس میں ایک سیاہ دن بن کر آیا۔ جیسے ہی ان کے وصال کی خبر آئی، ملک بھر کے علماء ، طلبہ، مدارس، تنظیمات اور عوام الناس میں رنج و الم کی لہر دوڑ گئی، ہر آنکھ اشک بار، ہر دل غمزدہ، ہر زبان پر کلمۂ خیر ہے۔
آج ہم حضرت کے بعد ایک ایسے خلا کا سامنا کر رہے ہیں جس کو پر کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ اْن کے بعد اگرچہ ادارے باقی ہیں، شاگرد زندہ ہیں، تحریک جاری ہے، لیکن وہ مرکز، وہ رہنما، وہ کارواں کا سالار آج ہم میں نہیں رہا۔
ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں:’’اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ وأکرم نزلہ و وسع مدخلہ و اجعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ۔ اللّٰہم اخلف لھنا فی مصیبتنا و لا تفتنا بعدہ۔‘‘
یا اللہ! حضرت والا کے درجات بلند فرما، اْن کے اداروں کو ثمر آور فرما، ان کے شاگردوں کو اْن کا نعم البدل بنا، اور ہمیں اْن کے مشن کو سنبھالنے، چلانے اور آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرما۔
ہم سب پر لازم ہے کہ ہم حضرت کے مشن کو جاری رکھیں۔ دین کے ہر کام کو اخلاص سے کریں۔ مدارس کے قیام، قرآن کی تعلیم، نونہالوں کی تربیت اور ملت کے بیدار شعور کی کوششوں کو جاری رکھیں۔ یہی حضرت وستانویؒ کے لیے سچا ایصالِ ثواب اور ہمارے لیے ذریعۂ نجات ہو گا۔
اللہ تعالیٰ حضرت وستانویؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور اْن کے علمی، تربیتی، اصلاحی اور تعلیمی مشن کو قیامت تک باقی رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے