Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the perfecty-push-notifications domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/u488245609/domains/aitebarnews.com/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
’’نباتات، نجات اور نبی ﷺ کی تعلیمات‘‘ – urdu
किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

’’نباتات، نجات اور نبی ﷺ کی تعلیمات‘‘

تحریر: خان اجمیری(عرف خان میڈم )
اسٹڈی اسمارٹ کوچنگ کلاسیس، اردھاپور

نباتات قدرت کی وہ نعمت ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور ادھورا ہے۔ درخت، پودے، سبزہ، جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں زمین کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں، مگر ان کا کردار صرف خوبصورتی تک محدود نہیں۔ نباتات ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں، فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، مٹی کی زرخیزی کو برقرار رکھتے ہیں، موسم کے توازن میں مدد دیتے ہیں، درجہ حرارت کو کم کرتے ہیں اور بارش کے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ انسانوں، جانوروں، پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں سب کے لیے پناہ، خوراک اور زندگی کا ذریعہ ہیں۔ اگر نباتات نہ ہوں تو زمین صحرا بن جائے، پانی خشک ہو جائے، آکسیجن ختم ہو جائے اور زندگی کا نظام رک جائے۔
بدقسمتی سے جیسے جیسے انسانی ترقی بڑھی، ویسے ویسے زمین کے وسائل کا بے دریغ استعمال بھی بڑھتا گیا۔ درختوں کی کٹائی، زمین کی بے جا کھدائی، آبادی کا پھیلاؤ اور صنعتی آلودگی نے ماحول کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ آج دنیا بھر میں گرمی کی شدت، بارشوں میں کمی، پانی کی قلت، زمین کی بنجر پن اور بیماریوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس کی بڑی وجہ نباتاتی حیات کی تباہی ہے۔ مرہٹواڑہ، جو مہاراشٹرا کا ایک اہم لیکن پسماندہ خطہ ہے، اس ماحولیاتی بگاڑ کا ایک نمایاں شکار ہے۔ یہاں کے اضلاع جیسے ناندیڑ، لاتور، بیڑ اور اورنگ آباد شدید گرمی، کم بارش، اور قحط جیسی صورتحال سے دوچار رہتے ہیں۔
ناندیڑ، جو دریائے گوداوری کے کنارے آباد ہے، آج خشک سالی، درجہ حرارت کی شدت اور پانی کی قلت کا شکار ہو چکا ہے۔ گرمی کے دنوں میں درجہ حرارت 46 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے، سڑکیں تپتی ہوئی دھوپ سے جھلس جاتی ہیں، اور کسان پانی کے لیے ترسنے لگتے ہیں۔ درختوں کی شدید کمی، زمین پر سبزے کا فقدان اور قدرتی وسائل کی ناسمجھی نے یہاں کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ان حالات میں نباتات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ درخت لگانا اب صرف ایک اختیاری عمل نہیں بلکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔
اگر ہم ناندیڑ اور مرہٹواڑہ میں وسیع پیمانے پر شجرکاری کریں تو نہ صرف درجہ حرارت میں کمی آئے گی بلکہ بارشوں کا دورانیہ بڑھے گا، پانی زمین میں محفوظ ہوگا، اور فضا کی آلودگی میں نمایاں کمی آئے گی۔ درخت نہ صرف ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ ذہنی سکون، جسمانی صحت، اور معیشت کی بہتری کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ مقامی اقسام کے درخت جیسے نیم، پیپل، برگد، گل موہر، سیشم اور ببول اس خطے میں کم پانی میں بھی پنپ سکتے ہیں، اور سخت موسم کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے عوامی، تعلیمی، زرعی اور سرکاری سطح پر متحد کوششیں ناگزیر ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں بچوں کو درختوں کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے، ہر تعلیمی ادارے میں شجرکاری مہم چلائی جائے، اور عوام میں شعور بیدار کیا جائے کہ درخت لگانا ان کی زندگی بچانے کے مترادف ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ "ہر گھر ایک درخت”، "میرا پیڑ، میرا مستقبل” جیسے پروگرام شروع کرے، کسانوں کو ایگرو فارسٹری کی تربیت دی جائے، اور مساجد، مدرسوں، پنچایتوں کے ذریعے عوامی شعور میں اضافہ کیا جائے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر ایک اور پہلو بھی نہایت اہم ہے، جو اس مسئلے کو صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ دینی اور اخلاقی ذمہ داری بھی بناتا ہے، اور وہ ہے اسلامی تعلیمات۔ اسلام میں نباتات اور ماحول کی حفاظت کو بہت بلند مقام دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، اس کے بعد کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہو” (سورۃ الاعراف: 56)۔ یہ حکم دراصل ماحولیاتی تباہی، آلودگی، درختوں کی کٹائی اور فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے باز رہنے کی تنبیہ ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: "اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو، تو اگر وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگائے۔” (مسند احمد)۔ اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ درخت لگانا قیامت جیسے بڑے موقع پر بھی باعثِ اجر ہے۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے: "جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے، اور اس سے کوئی انسان، پرندہ یا جانور فائدہ اٹھاتا ہے، تو وہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔” (صحیح مسلم)۔ اسلام میں بغیر ضرورت کے درخت کاٹنا گناہ ہے، یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی درختوں کو نہ کاٹنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ نبی ﷺ نے پانی کے ضیاع سے بھی منع فرمایا، حتیٰ کہ اگر کوئی دریا کے کنارے وضو کر رہا ہو تو بھی پانی کم استعمال کرنے کی تلقین کی گئی۔
اسلام ہمیں زمین کی نعمتوں کا محافظ بننے کا درس دیتا ہے، کیونکہ انسان کو زمین پر خلیفہ مقرر کیا گیا ہے۔ خلیفہ کا مطلب ہے نگہبان، نگران، اور امانت دار۔ ہمیں زمین کی خوبصورتی، سبزہ، پانی، پہاڑ، اور جانوروں کی حفاظت کرنی ہے، نہ کہ ان کا بے جا استعمال۔ لہٰذا، ناندیڑ اور مرہٹواڑہ جیسے علاقوں میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عوام کو یہ پیغام دینا کہ درخت لگانا صرف دنیا کا فائدہ نہیں بلکہ آخرت کا ذخیرہ بھی ہے، ایک بہت مؤثر قدم ہو سکتا ہے۔
اگر آج ہم نے درخت لگانا، پانی کو بچانا، سبزہ بڑھانا اور زمین کی قدر کرنا نہ سیکھا، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس فریضے کو انجام دیں۔ درخت لگانا عبادت ہے، اور درخت کی حفاظت صدقہ جاریہ۔ ناندیڑ کو پھر سے سبز، پُرفضا، اور سرسبز بنانا ہم سب کا مشترکہ دینی، اخلاقی، معاشرتی اور انسانی فرض ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے