
تحریر: سید معزالرحمان، ناندیڑ
نئی قومی تعلیمی پالیسی (NEP 2020) پر جہاں ایک طرف تنقید اور تبصرے جاری ہیں، وہیں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی فطری ہے۔ حکومت کی نیت پر سوالات بھی اپنی جگہ، لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ چونتیس سال بعد تعلیمی نظام میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی تھی۔
اس پالیسی میں ایسے کئی مثبت پہلو بھی ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہے، تاکہ مسلم نوجوان صرف احتجاج تک محدود نہ رہیں بلکہ غور و فکر کے ساتھ تعلیمی میدان میں قدم رکھیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں فعال کردار ادا کریں۔
صرف مخالفت کافی نہیں:
یہ بات ہمیں سمجھنی ہوگی کہ اگر ہم صرف مخالفت پر اکتفا کریں گے تو ایک بار پھر عصری تعلیم سے منہ موڑنے کا موقع نکل جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تعلیمی پسماندگی مزید گہری ہو جائے گی۔
ہمارے اندر احتجاج کے ساتھ ساتھ "کچھ کر گزرنے” کا جذبہ بھی ہونا چاہیے، ورنہ ہم انقلابی امت سے احتجاجی امت بن کر رہ جائیں گے۔ حقیقی انقلاب یہ نہیں کہ سب کچھ یکسر بدل دیا جائے، بلکہ جو کچھ بہتر ہے، اُسے اپنایا جائے اور جو غلط ہے، اُس کی اصلاح کی جائے۔
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟:
1. نئی تعلیمی پالیسی کا مطالعہ اس زاویے سے کریں کہ ہم ملت کی زبوں حالی کو ختم کرنے کے لیے اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟
2. ان نکات کی نشاندہی کریں جن سے ملک کی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
3. روزگار کے نئے مواقع کہاں پیدا ہو رہے ہیں؟
4. مسلم نوجوانوں کے لیے کن شعبوں میں کام کے امکانات ہیں؟
5. ڈیجیٹل تعلیم میں ہم کیسے حصہ لے سکتے ہیں؟
تعلیمی پالیسی کے اچھے پہلو:
مادری زبان کی تعلیم:
پانچویں جماعت تک مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی، جس سے اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ڈراپ آؤٹ کم ہوں گے۔
ملٹی ڈسپلنری تعلیم:
اعلیٰ تعلیم میں سائنس، آرٹس، کامرس کے درمیان دیواریں گرائی جا رہی ہیں۔ اب ایک ہی وقت میں فزکس اور سوشیولوجی پڑھنا ممکن ہوگا۔
اکیڈمک کریڈٹ بینک:
تعلیم کے تسلسل میں تعطل آنے کے باوجود، دوبارہ شروع کرنا آسان ہوگا۔
ووکیشنل ایجوکیشن:
طلبہ میں ہنر پیدا کیے جائیں گے، تاکہ وہ زیادہ پیداواری بن سکیں۔
اسٹریس فری تعلیم:
نمبر سسٹم کی جگہ شخصیت پر مبنی ‘میک اوور رپورٹ’ دی جائے گی، جو غیر ضروری تناؤ کو کم کرے گی۔
تعلیم کی توسیع:.
نئی تعلیمی پالیسی میں 2040ء تک ہر تعلیمی ادارہ ملٹی ڈسپلنری بنے گا۔ 2030ء تک ہر ضلع میں ایک ادارہ، اور 2035ء تک 50 فیصد انرولمنٹ کا ہدف طے کیا گیا ہے۔
مسلم نوجوانوں کے لیے مواقع:
▪️ڈیجیٹل تعلیم کی طرف فوری توجہ دی جائے، خاص طور پر اردو میڈیم اسکولوں کو آن لائن پلیٹ فارمز سے جوڑا جائے۔
▪️کم فیس میں اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے قائم کرکے تعلیم بھی دی جا سکتی ہے اور آمدنی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
▪️تعلیم میں سماجی کارکنوں اور رضاکاروں کی شمولیت کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ یہ موقع اسلامی تنظیموں اور تحریکوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔
▪️یہ وقت ہے کہ ہم تنقید کے ساتھ تعمیری رویہ اختیار کریں۔ مسلم نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ صرف شکایت نہ کریں، بلکہ نئی پالیسی کو سمجھ کر اس کے اندر موجود مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔ بصورت دیگر ہم صرف تماشائی بن کر رہ جائیں گے۔یاد رکھئے!
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لیے تنگ