किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

میرا بھائی مبین کامرانی

تحریر: دُختر محمد قمرالاسلام (عرف خالد انصاری)

ڈیل ڈول جسم، گول مٹول چہرہ، چہرے پر ہلکی سی داڑھی، ہونٹوں پر مسکراہٹ، نہ صرف ہونٹوں پر مسکراہٹ بلکہ جس کی آنکھیں بھی صدا مسکراتی تھیں۔ جس کےدل میں اپنے پرائے سب کے غم، درد سمائے ہوئے تھے، دوسروں کی تکلیف میں قدم بہ قدم ساتھ کھڑے رہنے والا میرا بھائی نے 6؍مئی 2025ء کو لوگوں کے کندھوں پر سوار ہوکر اپنی آخری منزل کا سفر طئے کیا اور ہمیشہ کے لیے اس دارِ فانی کو چھوڑ کر اپنے آخری مکان میں چین کی نیند سو گئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
جی ہاں، میں بات کررہی میرے بڑے بھائی مبین کامرانی کی،جن سے میری ملاقات 29؍اپریل 2019ء میں ہوئی۔ کچھ اس طرح کہ ابو ( خالد انصاری) کے ہمراہ دوپہر 3 سے 4 بجے کےدرمیان دو لوگ گھر میں داخل ہوئے۔ ایک منور خان ( چاچا) جن سے میری شناسائی تھی اور دوسرے نوجوان آدمی کالے رنگ کا بیگ گلے میں ڈالے گھر کے دالان میں داخل ہوا اور منہ بھر کے والدہ کو سلام کیا۔ اس دوران ابو نے مجھے آواز دی، جب میں سامنے آئی تو تھوڑا سا جھجکی، پھر ابو نے کہا ’’ بیٹا ذرا یہ خبر پڑھ کے تو سنائیں‘‘۔ جب میں نے ابو کے ہاتھ سے پرچہ لے کر خبر پڑھی تو مبین بھیا نے کہا ’’ ہاں، انداز تو ٹھیک ہے لیکن تھوڑا سا ٹھہراؤ آواز میں ضروری ہے۔ ‘‘ تب اپنے بیگ سے مائیک میرے ہاتھ میں پکڑایا اور نیوز ریکارڈ کرنی شروع کی۔ یہ تھی میرے اور میرے گھروالوں کی مبین بھیا سے پہلی ملاقات۔۔۔
ان کے جانے کے بعد میں نے ابو سے پوچھا ’’ ابو آپ کے یہ دوست ان کی عمر ایسی ہے کہ ان کو نہ تو چاچا کہہ سکتے ہیں نہ تایا نہ انکل، پھر انہیں کیا کہہ کر مخاطب کریں؟‘‘
ابو نے کہا ’’ بھیا کہا کرو۔‘‘ تب سے مبین کامرانی ہمارے بھائی بنے۔
اب تو سلسلہ چل پڑا۔ آئے دن مبین بھیا ابو کو خبروں کے پوائنٹس واٹس ایپ کرتے، خبر جب تیار ہوجاتی مبین بھیا اپنا وہی بیگ گلے میں ڈالے گھر آجاتے اور نیوز ریکارڈ کرتے۔ ابتدائی دنوں میں تو نیوز کی ریکارڈنگ کرتے وقت ہدایت دیتے کہ پنکھا بند کردیں، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ خود ہی اُٹھتے پنکھا بند کرتے اور نیوز ریکارڈ رکرتے۔
اتنا سیدھا سادھا مزاج کہ اگر مبین بھیا گھر آتے، شطرنجی یا چٹائی بچھی دیکھتے تو اس کے ایک کونے پر بیٹھ جاتے۔ مسکراتی آنکھوں سے سلام کرتے اور نظریں نیچی کرکے ہی گھر کے موجود ہر فرد سے خیریت دریافت کرتے۔ امی کہتے مبین بیٹھو چائے بن رہی تو کہتے ’’ نہیں آنٹی ابھی پی کے آیا۔‘‘ مگر امی کے اصرار پر کہتے ’’ اچھا تھوڑی پی لیتا۔‘‘ ابو کو کبھی خالد صاحب تو کبھی خالد انکل کہہ کے مخاطب کرتے۔
کوئی نیوز ریکارڈ کرتے اور اگر ریکارڈنگ میں کچھ کمی زیادتی ہوجاتی تو دھیرے سے ملائم سے لہجے میں کہتے ’’ نوشین ایک بار اور سے ریکارڈ کریں گے کیا‘‘ کبھی حکمیہ لہجہ ان کی زبان پر آیا ہی نہیں۔‘‘
کبھی مغرب کے وقت تو کبھی صبح کے وقت فون کرتے اور دریافت کرتے انکل نے کھانا کھائے تو نہیں نا، ابھی کھاؤ مت بولنا میں لے کر آرا۔‘‘ اور 15؍منٹ کے اندر کبھی تہاری، کبھی ثرید، کبھی چکن بریانی لے کر اپنے بیٹے نبیل کامرانی اور حماد کامرانی کے ہمراہ آتے۔
رمضان کا چاند دیکھتے تو سب سے پہلے ابو کو فون کرتے، سلام کرتے، دُعائیں لیتے، پھر پوچھتے انٹی کہاں ہے۔ امی کو سلام کرتے، پھر کہتے آتوں، انٹی مَیں یہ صرف کہنے کے لیے نہیں کہتے آکر ملاقات بھی کرتے۔ رمضان میں جب بھی گھر آتے کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے۔
ان کے مبین کامرانی سے مبین بھیا بننے کے سفر میں ہم تین بہنیں اپنے اپنے گھروں کو رُخصت ہوئیں۔ اسی درمیان ابو کو فالج اور دماغ کا آپریشن بھی ہوا، لیکن ان تمام حالات میں ایک لحظہ بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ مبین بھیا ہمارا خون نہیں ہے۔ ایک فون پر دوڑ کر گھر آنے والا میرا بھائی آج اتنی دوٗر چلا گیا کہ لاکھوں آوازیں دینے پر بھی اب کبھی نہیں آئے گا۔
ابو کی بیماری میں بھیا عبدالرحمن کی ہمیت اور حوصلہ بڑھانے والوں میں سرفہرست میرا بڑا بھائی مبین کامرانی ہی ہے۔ گھر آتے تو امی کو ہم بہنوں کو حوصلہ دیتے۔
لاک ڈاؤن میں بھی اپنے گھر کی طرح ہماری فکر ، خالد انکل کے گھر راشن کٹ پہچانا ہے، ابو کو گھر میں رہنے کا کہنا۔
امی یا ابو جب ہم بہنوں کی شادیوں اور مہنگائی کا تذکرہ کرتے تو ایک جملہ میرے بھائی کی زبان سے ادا ہوتا جو واقعی دلوں کو راحت دیتا۔ ’’ فکر مت کرو انٹی اللہ ہے نا، پھولوں کی طرح ہوجاتے شادیاں میری بہنوں کے۔‘‘
بیماری کے دوران امی جب ان کی عیادت کو گئیں تو ان سے کہنے لگے انٹی نوشین کو بولو میرے لیے دُعا کر، اللہ ان کی دعا قبول کرتا، لیکن افسوس میری د‘عائیں اس بار ان کے حق میں قبول نہ ہوسکی۔
یہ تو ہمارا آپسی معاملہ تھا لیکن میرا بھائی زمانے بھر کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا کرتے۔ کسی سے ان کا کوئی بیر نہیں تھا۔ ہم نے کبھی ان کے لہجے میں کسی کے لیے نفرت محسوس نہیں کی۔ ہر وقت ہر کسی کے لیے محبت ہی ان کے لہجے سے جھلکتی۔
صحافت میں بھی حق گوئی و بیباکی کو ہمیشہ مقدم رکھتے۔ بات کرتے تو الحمدللہ، ماشاءاللہ جیسے الفاظ استعمال کرتے، ہر کسی سے محبت سے ملتے، شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو ان کے گھر سے خالی پیٹ واپس آیا ہوگا۔ اُمت کا درد اپنے سینے سے ہر وقت لگائے رہتے۔ نہ صرف یہ مزاج انہوں نے اپنا بنایا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے بھابی اور بچوں کا مزاج بھی انہوں نے انتہائی ملنسار بنایا۔
ابھی 30؍اپریل ہی کو تو ان سے ملاقات کرنے کامٹھا گئے تھے ہم، اتنے بیمار ہونے کے بعد اُٹھ کر بیٹھے، ہم سب کو دیکھ کر کہنے لگے کب سے نہیں دیکھا تھا میں نے سب کو، بار بار اپنے آنسو کو ضبط کرتے رہے۔ خیریت پوچھتے رہے، ڈاکٹر نے زیادہ بات کرنے سے منع کیا تھا، پھر بھی باتیں کرنے لگے۔ سانس پھولنے لگی، پھر بھی ابو سے بھیا سے اپنی کیفیت بیان کرنے لگے، اتنی تکلیف میں رہنے کے باوجود گھر والوں کو ہم سب کے لیے کھانا تیار کرنے کی ہدایت پہلے ہی دے رکھی تھی۔
27؍اپریل ہی کو ان کی صحت و تندرستی کے لیے آیت کریمہ کا نصاب مکمل کیا گیا۔ دُعا کی گئی لیکن افسوس صد افسوس میری دُعائیں میرے بھائی کے حق میں قبول نہیں ہوئی۔
منگل کی شب 11:30 بجے بھیا نے فون پر جب یہ دلسوز اطلاع دی مجھے تو ایسے لگا مانو وقت رُک گیا ہو، یقین کرنا مشکل تھا۔ رات بھر اپنے بھائی کو یاد کرتی رہی۔ دُعائیں مغفرت کرتی رہی۔ دن بھر سے آنکھوں کے سامنے گزشتہ 7؍سالہ سفر گردش کرتا رہا۔ کیسا میرا بھائی ہر ایک کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔ کیسے مسکراتے چہرے کے ساتھ خندہ پیشانی سے ہر ایک سے ملتے۔
30؍اپریل کو جب ان کو دیکھا تو ایسا لگا جیسے کسی بہت ہی عمر رسیدہ شخص سے ملاقات کررہی ہوں۔ موذی بیماری نے انہیں اندر سے کھوکھلا اور اپنی عمر سے دوگنا بڑا کردیا تھا۔ پھر بھی ہمت اور حوصلہ بدستور قائم ۔ کہنے لگے ’’ بس ایک بار آکسیجن نکل جائے میں پھر اچھا ہوجاتا۔‘‘
اللہ کی حکمت اللہ جانے، اپنے پیچھے تین لڑکیاں، 2 بیٹے، بیوی، والدین اور بھائی، بہنوں کو بلکتا چھوڑ اپنے آخری مکان میں آرام سے سو گئے۔ ہر آنکھ نم ہے، ہر دل غمزدہ ہے، جس کسی سے بھی انہوں نے گھڑی بھر کی ملاقات کی اس کو ایسا لگتا کہ وہ مبین کامرانی کے دل کے بہت قریب ہے۔ دل میں قوم کی خدمت کا جذبہ لیے اپنے کام کرنے والے مبین بھائی آج قوم کی دُعاؤں کے محتاج ہے۔ اللہ ان کی قبر ( لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں) کو روشنی سے بھر دے، جنت کی ٹھنڈی ہوائیں ان کی قبر کو ٹھنڈا کرے، جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام ملے، اللہ لواحقین کو صبر جمیل عطا کریں۔
اللہ میرے بھائی کو اپنے مقرب بندوں میں شامل کریں۔ آج ہمارا فرض ہے کہ ہم مبین کامرانی کے اہل خانہ کی ہر ممکن مدد کریں۔ اتنا کچھ لکھنے کے بعد بھی قلم شکوہ کناں ہے کہ ان کی قابلیت، ان کی اچھائی اور ان کی خوبیوں کا حق ابھی بھی ادا نہیں ہوا۔ آج تک اوروں کے انتقال کی تدفین کی خبریں پڑھا کرتی تھیں، آج اپنے بڑے بھائی کے انتقال کی خبر پڑھ کر کلیجہ منہ کو آگیا۔ اللہ میرے بھابی اور بچوں کو صبر جمیل عطا کریں اور میرے بھائی کے چینل ’’ میری آواز نیوز 24‘‘ کو وہ بلندی وہ عروج عطا کریں جس بلندی اور عروج کا خواب میرے بھائی مبین کامرانی نے دیکھا تھا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کریں
سبزہ نورستاں اس گھر کی نگہبانی کریں

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے