किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مہمانوں کے حقوق

تحریر:مولوی منیب الرحمن قاسمی حسامی حیدرآبادی

اسلام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے جو عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات، اخلاق، معاشرت اور معاشی پہلوؤں پر بھی بڑی تفصیل کے ساتھ رہنمائی اور مکمل رہبری کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسان کے ہر تعلق اور ہر رشتہ کے حقوق متعین کیے ہیں، چاہے وہ والدین ہوں، رشتہ دار، ہمسائے اور پڑوسی ہو یا مہمان۔
مہمان؛اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سبب، محبتوں کا باعث اور گھر کی خیر و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے۔مہمانوں کے ساتھ حسنِ سلوک ایک سماجی ادب ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا اہم حصّہ ہے۔
مہمان نوازی ایک ایسا وصف ہے جو معاشرے میں محبت، خیر سگالی اور اخوت کو فروغ دیتا ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پوری زندگی مہمان نوازی کا بہترین نمونہ رہی ہے چاہے وہ اجنبی ہو یا قریبی، غریب ہو یا مالدار، آپ ﷺ نے سب کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ فرمایا۔
مہمان نوازی انسانیت کی ایک عظیم خوبی اور ایسی پیاری صفت ہے جو ہر دور اور ہر معاشرے میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
مہمان نوازی کا تصور اسلامی تعلیمات کا ایک روشن پہلو ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی، فیاضی اور محبت کے رشتے کو قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے،یہ ایک ایسی سنت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہم تک پہنچی، مہمان نوازی صرف کھانا کھلانے یا رہائش دینے تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ اس میں عزت، محبت، خلوص اور ایثار کا جذبہ شامل ہونا چاہیے۔ جب کوئی مہمان ہمارے گھر آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ اللہ کی رحمت اور برکت لے کر آتا ہے۔ یہ روایت ہمارے اسلاف اور خیر القرون کے زمانہ سے چلی آ رہی ہے کہ مہمان کی عزت کی جائے، ان کی ضروریات پوری کی جائے اور انہیں اپنے گھر میں آرام دہ ماحول فراہم کیا جائے کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے۔
آج کے دور میں جب کہ ہم مادیت پسندی اور خود غرضی کے دور میں جی رہے ہیں اور ایسا دور جہاں ہر شخص اپنی فکر ،اپنی زندگی اور اپنے کاروبار اور دنیوی مصروفیات میں لگا ہوا ہے ایسے دور میں مہمان نوازی کی اہمیت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے ایمان اور اخلاق کا تقاضا اور بنیادی ضرورت ہے ۔
قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں مہمان نوازی کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے،مہمان نوازی ایک ایسی نیکی ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور معاشرے میں محبت،الفت اور بھائی چارے کو عام کرتی ہے ۔ مہمان نوازی کے ذریعے ہم نہ صرف اپنے مہمان کو عزت دیتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے ایمان کو مضبوط کررہے ہوتے ہیں۔
مہمان نوازی کی تعریف:
مہمان نوازی سے مراد کسی آنے والے شخص کی خاطر مدارات کرنا اور خوش دلی سے ان کا استقبال کرنا، ان کی ضروریات کا خیال کرنا اور اس کو بقدرِ استطاعت پوری کرنا،کھانے پینے، آرام اور عزت کا مناسب انتظام کرنا۔ اس کا دل نہ دکھانا، خواہ وہ قریبی ہو یا اجنبی،ان کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کرنا اور اسے اپنے گھر یا معاشرے میں خوش آمدید کہنا ہے۔
مہمانوں کے کچھ بنیادی حقوق:
جاننا چاہیے کہ مہمانوں کے کچھ بنیادی حقوق ہیں جو ہر مسلمان کو پورے کرنے چاہئیں:
مہمان کو گرمجوشی سے سلام اور خوش آمدید کہنا اور انہیں عزت اور وقار کے ساتھ انتظام کرنا۔
مہمان کو اپنی استطاعت کے مطابق کھانا پیش کرنا۔
اگر مہمان رات گزارنے کے لیے رہے تو اسے آرام دہ جگہ فراہم کرنا اور دن میں بھی آرام کیلئے حسبِ استطاعت سہولت بخش انتظام کرنا۔
مہمان سے محبت اور خلوص کے ساتھ پیش آنا اور اسے اپنائیت کا احساس دلانا۔
مہمان کے لیے دعا کرنا اور اس کی خیر خواہی چاہنا۔
مہمانوں کے حقوق ؛قرآن مجید کی روشنی میں:
قرآنِ مجید نے مہمان نوازی کی اہمیت کو مختلف واقعات اور آیات کے ذریعے بیان کیا ہے۔ سب سے مشہور واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے "خلیل اللہ” (اللہ کا دوست) کا خطاب دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر سورۃ الذاریات میں ملتا ہے:
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ * إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ * فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ ( الذاریات: 24-26)
ترجمہ: کیا تمہیں ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی؟ جب وہ ان کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: سلام! ابراہیم نے کہا: سلام! یہ لوگ اجنبی ہیں۔ پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک فربہ بچھڑا لے آئے۔
اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر ہے کہ جب کچھ اجنبی ان کے گھر آئے، جنہیں وہ نہیں جانتے تھے، انہوں نے فوراً ان کی خدمت کی اور ان کے لیے بہترین کھانا پیش کیا،یہ مہمان دراصل فرشتے تھے، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی عزت کی اور انہیں اپنے گھر میں خوش آمدید کہا۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مہمان کی عزت کرنا اور اس کی خدمت کرنا ایک عظیم عمل ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ
ترجمہ: اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم انہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں۔
(بنی اسرائیل: 31)
یہ آیت ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رزق دینے والے ہیں، بعض اوقات لوگ مہمان نوازی سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ انہیں اپنے وسائل کی کمی کا خوف ہوتا ہے؛لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ رزق اللہ تعالیٰ دینے والا ہے؛اس لیے ہمیں مہمان کی عزت کرتے وقت وسائل کی کمی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے کہ ان کی خدمت اور مہمان نوازی ہم کیسے کریں گے، ہمارے پاس اسباب مہیا نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت پر بھروسہ رکھیں ،اللہ تعالیٰ خود انتظام فرماتے ہیں ،بس ضرورت ہے حسنِ نیت اور اخلاص و خلوص کی ‌۔
مہمانوں کے حقوق ؛احادیث شریفہ کی روشنی میں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان نوازی کی بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مہمان نوازی میں بے مثال تھے، آپ علیہ السلام کے گھر میں ہر وقت مہمانوں کا آنا جانا رہتا تھا، اور آپ ان کی خدمت اپنے ہاتھوں سے فرماتے تھے۔ ذیل میں چند احادیث شریفہ پیش کیے جارہے ہیں جس سے دینِ اسلام میں ضیافت و مہمان نوازی اور اس کے حقوق و آداب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
صحیح بخاری کی روایت ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ.
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔(صحیح بخاری : 6138)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان کی عزت کرنا ایمان کا حصہ ہے،جو شخص اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے، وہ کبھی اپنے مہمان کی بے عزتی نہیں کرے گا اور اس سے مہمان نوازی کی اہمیت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ہمارے ایمان و اسلام کی علامت اور اہم ترین حکم ہے۔
اسی طرح ترمذی کی روایت ہے:
عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الكَعْبِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الضِّيَافَةُ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَمَا أُنْفِقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلاَ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ.(ترمذى:٩٦٨)
ترجمہ: حضرت ابو شریح کعبیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مہمان نوازی تین دن تک ہے، اور ایک دن اور ایک رات تک اس کا (مہمان)انعام ہے، پھر اس کے بعد جو کچھ خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ شمار ہوگا، اور کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے ہاں اتنا عرصہ ٹہرے کہ میزبان کو سخت مشکل میں ڈال دے۔
رسول اللہ ﷺ نے مہمان نوازی کا ایک شرعی اور اخلاقی اصول بیان فرمایا ہے کہ:
تین دن تک مہمان نوازی واجب یا سنت مؤکدہ ہے اورایک دن ایک رات تک بہترین مہمانی (یعنی خصوصی اہتمام) کیا جائے،اس کے بعد اگر کوئی مہمان رُک جائے، تو اس پر خرچ صدقہ شمار ہوگا نیز
مہمان کو یہ حق نہیں کہ اتنا طویل قیام کرے کہ میزبان کو تنگی اور پریشانی میں ڈال دے۔
اس حدیث سے ہمیں مہمان نوازی کی مدت کا پتہ چلتا ہے کہ ایک دن اور ایک رات مہمان کا بنیادی حق ہے؛لیکن تین دن تک اس کی خوب خاطر مدارات کرنی چاہیے۔ اس کے بعد جو کچھ کیا جائے وہ صدقہ کے زمرے میں آتا ہے۔
حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے ہجرت کی تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں اس وقت دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے میرے لئے ایک بکری کا دودھ دوہا جسے اپنے اہل خانہ کی خاطر دوہا کرتے تھے میں نے اس کا دودھ پیا صبح ہوئی تو میں نے اسلام قبول کر لیا۔ صبح نبی کریم ﷺ کے اہل خانہ نے کہا ہم نے رات ویسے ہی بھوک کے عالم میں گزاری جیسے کہ گزشتہ رات بھوک سے گزاری تھی ۔ ( مسند احمد )
اس واقعہ پر غور کیجئے کہ آپ ﷺ نے آنے والے غیر مسلم مہمان کو بکری کا دودھ اپنے ہاتھوں سے دوہ کر پلایا، معلوم یہ ہوا کہ غیر مسلم مہمان کی مہمان نوازی بھی سنت ہے۔ چنانچہ مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک کا فر رسول رحمت ﷺ کا مہمان ہوا رسول رحمت ﷺ کے حکم سے ایک بکری کا دودھ دوہا گیا مہمان نے اس کا دودھ پیا پھر دوسری بکری دو ہی گئی اس کا دودھ بھی مہمان نے پی لیا پھر تیسری بکری دو ہی گئی اور اس کا دودھ بھی وہ پی گیا، اسی طرح وہ ایک ایک کر کے سات بکریوں کا دودھ پی گیا،صبح ہوئی تو اس نے اسلام قبول کر لیا، رسول اللہ ﷺ نے پھر صبح اس کے لئے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا اس نے اس بکری کا دودھ نوش کیا پھر آپ ﷺ کے حکم سے دوسری بکری کا دودھ دوہا گیا، لیکن وہ اس دوسری بکری کا دودھ پورانہیں پی سکا رسول رحمت ﷺ نے فرمایا مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کا فرسات آنتوں میں پیتا ہے ۔ (مسلم کتاب الاشربة )
اہل حبشہ کا وفد جب آپ ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ ﷺ نے خود اپنے ہاں ان کو مہمان اتارا اور خود بہ بنفس نفیس ان کی خدمت کی ۔ ( الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ)
مہمان نوازی سے متعلق واقعات:ـ
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی زندگی مہمان نوازی کے سنہرے واقعات سے بھری پڑی ہے،چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مہمان آئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کوئی ان مہمانوں کی خدمت کرے،حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مہمانوں کو اپنے گھر لے جانے کی اجازت مانگی،جب وہ گھر پہنچے تو ان کی اہلیہ نے کہا کہ گھر میں صرف بچوں کے لیے کھانا ہے،حضرت ابو طلحہ نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ بچوں کو سلا دو اور مہمانوں کے لیے کھانا پیش کرو،انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا رکھا اور خود بھوکے رہے، صبح جب یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری اس مہمان نوازی سے بہت خوش ہوا۔ (صحیح بخاری:)
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مہمان نوازی میں ایثار اور قربانی کا جذبہ ہونا چاہیے،اگر ہمارے پاس وسائل کم ہوں تب بھی ہمیں مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔
رسولِ رحمت ﷺ سب سے بڑے مہمان نواز تھے،آپ ﷺ کی زیارت کیلئے دور دور سے لوگ آتے تھے اور آپ ﷺ ان کی مہمان نوازی فرمایا کرتے تھے اور جو بھی آپ ﷺ کے پاس آتے تھے کچھ کھائے پیئے بغیر واپس نہ جاتے تھے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ ﷺ آئے ہوئے مہمانوں کو کھلا دیتے یا پلا دیتے اور آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اہل خانہ بھو کے پیاسے سوجاتے تھے۔
رسولِ رحمت ﷺ کی مہمان نوازی بالکل عام تھی اور آپ ہر حالت میں اپنے مہمان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے،روایتوں میں آتا ہے کہ جب کوئی بھوک سے نڈھال ہو جاتا وہ آپ س کے ہاں مہمان بن جاتا اور آپ ﷺ اس کی بھی بھر پور خاطر تواضع فرماتے تھے۔
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی اس قدر تنگ دست تھے کہ شدت بھوک سے ہماری بینائی اور سماعت جاتی رہی۔ ہم لوگوں نے خود کو رسولِ رحمت ﷺ کے صحابہ کے سامنے پیش کیا تا کہ وہ ہمیں کھانا کھلا دیں اور پیٹ کی آگ بجھا دیں، لیکن کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں کی ( اس لئے کہ خود ان صحابہ کی حالت بھی انتہائی خستہ تھی وہ خود بھو کے پیاسے تھے ) چنانچہ ہم لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ سے ہمیں لے کر اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچے اور پہلے اور وہاں تین بکریوں کو دکھا کر فرمایا کہ ان بکریوں کا دودھ پیا کرو چنانچہ اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص دودھ دوہ کر اپنا حصہ پی لیا کرتا تھا۔ (خلاصہ از صحیح مسلم)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے فقر و فاقہ کی درد انگیز داستان یوں بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن شدت بھوک سے نڈھال ہو کر شاہراہ عام پر بیٹھ گیا وہاں سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت کے متعلق دریافت کیا اور میرے پوچھنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں اور کھانا کھلا دیں لیکن وہ گزر گئے اور میری حالت کی طرف توجہ نہ کی، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی وہاں سے گزر ہوا لیکن ان کے ساتھ بھی کچھ ویسا ہی نتیجہ نکلا جو ابو بکر کے ساتھ پیش آیا اتنے میں نبی رحمت ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا آپ ﷺ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور حقیقت حال کو بھانپ کر فرمایا میرے ساتھ آؤ گھر پہنچے تو دودھ کا ایک پیالہ نظر آیا جو بطور ہد یہ کہیں سے آیا تھا آپ ﷺ نے دیگر اصحاب صفہ کو بلوایا اور ہم سب کو دودھ پلایا ۔ ( بخاری )
(ماخوذ از: حقوق العباد اور خدمتِ خلق احادیثِ شریفہ کی روشنی میں،مؤلفہ: حضرت مولانا غیاث احمد رشادی صاحب دامت برکاتہم)
عملی اقدامات:
مہمان نوازی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے کچھ عملی اقدامات یہ ہیں:
سخاوت سے پیش آئیں اور اپنی استطاعت کے مطابق مہمان کی خدمت کریں۔
گھر کو صاف ستھرا رکھیں اور مہمان کے لیے گھر کو صاف ستھرا رکھیں تاکہ اچھا ماحول ملے۔
مہمان کی بات سنیں اور مہمان سے اچھے انداز میں بات کریں اور اس کی ضروریات کو سمجھیں۔
بچوں کو بھی مہمان نوازی سکھائیں اور بچوں کو چھوٹی عمر سے مہمان نوازی کے آداب سکھائیں تاکہ وہ اس سنت پر عمل کریں۔
مہمان کی دعا لیں اور مہمان سے دعا کی درخواست کریں کیونکہ مہمان کی دعا قبول ہوتی ہے۔
خلاصہـ:
مہمان نوازی ایک ایسی سنت ہے جو ہمارے ایمان، اخلاق اور معاشرتی زندگی کو مضبوط کرتی ہے اور اخوت و بھائی چارگی اس کے ذریعہ رواج پاتی ہے اور مہمان نوازی ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب لے جاتی ہے اور ہمارے گھروں میں برکت کا باعث بنتی ہے۔
معروف شاعر جناب ماجد دیوبندیٓ نے کیا خوب کہا تھا کہ :
اللہ مرے رزق کی برکت نہ چلی جائے
دو دن سے مرےگھر میں مہمان نہیں ہے
قرآن مجید اور احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان اللہ تعالیٰ کا تحفہ ہے اور ان کا احترام کرنا، ان کی عزت کرنا اور ان کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے،انبیاءِ کرام علیہم السلام اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگیاں مہمان نوازی کے سنہری اصولوں سے بھری پڑی ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس سنت کو زندہ رکھیں اور اپنے گھروں کو مہمانوں کے لیے کھلا رکھیں۔
آئیے ہم عہد کریں کہ ہم اپنے مہمانوں کی عزت کریں گے، ان کی خدمت کریں گے اور اس عظیم سنت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے