किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مہاراشٹر کا اولین اُردوگھر ناندیڑ کا مختصر تعارف

از: ڈاکٹر سید شجاعت علی
سابقہ پرنسپل و منیجر اردوگھر ، ناندیڑ

نومبر2021 کا آخری ہفتہ تھا۔ میں جلگائوں کے اقراء تھیم کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے اپنی پانچ سالہ میعاد کے مکمل ہونے کا انتظارکررہا تھا۔ جو 14؍ڈسمبر 2021کو مکمل ہونے والی تھی۔ پنشن کے کاغذات جاچکے تھے۔ لہٰذا میں بے فکر تھا۔ مستقبل کے تعلق سے کوئی جلدی نہیں تھی ایک دو offerمیرے پاس تھے۔ مگر میں دو تین مہینے آرام کرنے کے بعد اس پر غور کرنے والا تھا۔
1982ء؁سے طالب علمی کے زمانے سے میں مسلسل نوکری کررہاتھا۔ اب مجھے آرام کی ضرورت تھی۔ اسی دن whats App پر مجھے ایک میسج موصول ہوا۔ جس میں اُردو گھر کے منیجر کا اشتہار تھا۔ جو میرے ایک شاگرد نے بھیجا تھا۔ جس کے تمام شرائط میرے BioData کے عین مطابق تھے۔ تنخواہ جو میرے پاس آفر تھے ۔اس سے بہت کم تھی۔ لیکن نوکری میرے Passionکے عین مطابق تھی۔ میں نے Applyکردیا۔ 14؍دسمبر 2021کو شام پانچ بجے میں Retireہوکر ناندیڑ اپنے گھر واپس آگیا۔
ایک ہفتہ کے بعد کلکٹر آفس ناندیڑ سے میرے موبائل پر فون آیا کہ 29؍ڈسمبر2021کو انٹرویو ہے۔ آپ Short Listed امیدوار ہیں۔
اس وقت مجھے یاد آیا۔ میرے یشونت کالج کے شعبہ کے ساتھی ڈاکٹر انیس الحق نے اس پوسٹ کے لئے Applyکیا تھا اور وہ Selectبھی ہوگئے تھے۔ مگرناگہانی موت نے انہیں جوائن کرنے کا موقعہ بھی نہیں دیا تھا۔ بعد میں کوئی دوسرے صاحب نے جوائن کیا اور کچھ مہینے بعد Medical Groundپر انہوں نے Resignکردیا۔ اُس خالی جگہ کے لئے انٹرویو تھا۔ مقررہ دن میں بہت بے دلی سے کلکٹر آفس کے گرائونڈ میں داخل ہوا۔ پارکنگ میں Activaپارک کی۔ ڈکی سے مختصر فائل اور ایک کتاب لئے میں جیسے ہی انٹرویو کے مقام پر پہنچا میری ملاقات مدینتہ العلوم ہائی اسکو ل کے ایک سائنس ٹیچر سے ہوئی جو اس پوسٹ کے اُمیداور تھے۔
انہوں نے مجھ سے یہاں آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے کہا ’’اس پوسٹ کا میں بھی ایک اُمیدوار ہوں۔‘‘ ان کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ جملہ گیارہ اُمیدوار تھے۔
ایک اُمیدوار ڈاکٹر حمید خان Treasury Officeسے رٹائرتھے۔ لیکن اُن کا میڈیم مراٹھی تھا۔ وہ کس مضمون میں ڈاکٹریٹ کئے تھے وہ مجھے نہیں معلوم تھا۔ مگر وہ سب سے زیادہ پرجوش سرگرم اور فعال نظر آرہے تھے۔ آفس کے اندر باہر ایسے آجارہے تھے جیسے ان کا تقرر بالکل پکا ہو۔ دوسرے جس منیجر کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا وہ بھی مطمئن اور فون پر کسی سے مسلسل ربط میں تھے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا۔ انہوں نے کسی کے ذریعہ سفارش کروارکھی ہو اور ان کو پل پل کی رپورٹ دے رہے ہوں۔ تیسرے اُمیدوار ڈاکٹر قطب الدین تھے۔ جنہوں نے Lawمیں ڈاکٹریٹ کی تھی۔ اور MSEBناندیڑ کے آفس میں سینئر کلرک سے رٹائر ہوکرکسی Law Collegeمیں CHBپر پڑھارہے تھے۔ انہوں نے بھی کسی سے سفارش کروارکھی تھی۔ سابقہ ناندیڑ کے ایم ایل اے نوراللہ خان کے چھوٹے بھائی اور تین امیدوار اور تھے۔ جن سے میں واقف نہیں تھا۔
گیارہ کی فہرست تھی۔ جس میں سے آل انڈیا ریڈیو اورنگ آباد کے اناونسرخان مقیم خاں غیر حاضر تھے۔
میرا نمبر ساتواں تھا۔ انٹرویو لینے والے کون تھے؟ مجھے کوئی Ideaنہیں تھا۔ لوگ جاتے گئے ۔ دوچارمنٹ میں واپس آتے گئے۔ چپراسی نے میرا نام پکارا۔ میں نے اجازت لیکر اندر قدم رکھا۔ چیرمین کی درمیانی کرسی پر Deputy Collectorصاحب براجمان تھے۔ دولوگ ڈپارٹمنٹ سے Concernتھے۔ اور Subject Expertکے طورپر ڈاکٹر سلیم محی الدین سابقہ صدر شعبہ اردو شری شواجی کالج پربھنی کو دیکھ کر جتنا حیران میں تھا ۔ اتنے سلیم نہیں نظر آئے ۔ کلکٹر آفس کے اسٹاف نے تمام امیدواروں کا Bio Dataایک ساتھ نہیں رکھا۔ جیسے جیسے نام پکارا جاتا۔ اس امیدوار کی فائل Subject Expertکے سامنے رکھی جاتی۔ اس طرح میرے اندر داخل ہونے سے پہلے ڈاکٹر سلیم محی الدین کا معلوم تھا کہ اگلا اُمیدوار میں ہوں۔
میرے پورے Bio Data اورCarearسے ڈاکٹر سلیم محی الدین کو واقفیت تھی۔ اس لئے انہوں نے صرف ایک سوال کیا اور وہ بھی اردو گھر کے Future Planکے تعلق سے ۔ جس کا میں نے جواب دے دیا۔ Deputy Collectorصاحب نے تب ہی کہہ دیا۔ آپ کب سے جوائن کرسکتے ہیں؟ انٹرویو کے بعد سلیم اور میں نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔ انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ میرا Selection ہوگیا ہے۔ لیکن آرڈر ڈاکٹر وپن اٹینکر صاحب کلکٹر ناندیڑ کے Signکے بعد Web Siteپر مل جائینگے۔ سلیم واپس ہوگئے۔ میں گھرآگیا۔
شام کی چائے پی اور صوفہ پر بیٹھ کر کوئی کتاب دیکھ ہی رہاتھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ انجانا نمبر تھا میں نے فون اُٹھالیا۔ دوسری طرف سے ڈاکٹر حمید خان اردوگھرکے منیجر کے اُمیدوار تھے۔ انہوںنے مجھے مبارک باد دی اورکہا ’’آپ کا نمبر پہلا ہے۔ اور میں دوسرے نمبر پر ہوں۔ اگر آپ جوائن نہیں کرتے ہیں تو مجھے موقعہ مل سکتا ہے۔ ویسے آپ کو کیا ضرورت ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’جناب !ابھی مجھے کوئی اطلاع نہیں۔ آرڈر ملنے کے بعد اس پر غور کرینگے۔ ویسے مجھے اس کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اس کی آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ بندے نے جھلا کر فون رکھ دیا۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق حضرات کا میں یہی حال کرتاہوں۔ دوسرے دن کلکٹر آفس سے فون آیا۔ ’’سر آپ آرڈر آکر لیجایئے۔ اور ہوسکے تو کل ہی جوائن کرلیجئے۔‘‘
میں دوسرے دن کلکٹر آفس گیا۔ ضیا سولا پوری سے آرڈر لیا۔ آرڈر پر باضابطہ انٹرویو کے نمبرات درج تھے۔ دوسرے نمبر پر ڈاکٹر قطب الدین تھے۔ ڈاکٹر حمید خان تیسرے نمبر پر تھے۔
دوسرے دن میں نے جوائن کرلیا۔ ایک کلرک محمد ساجد اور ایک لائبریرین پہلے سے کارکردتھے۔ اتفاق سے کلرک یشونت کالج میں اسٹوڈنٹ رہ چکا تھا۔ اور یونیورسٹی میںبھی کام کرچکا تھا۔ اس لئے مجھ سے واقف تھا۔ لائبریرین ناندیڑ میونسپل کارپوریشن سے ریٹائرڈکلکرک تھے اور انہیں لائبریری میں کام کا تجربہ تھالیکن وہ Qualifiedنہیں تھے۔ B.Libکی ڈگری یا لائبریری کا کوئی Diplomaیا سرٹیفکیٹ کو رس انہوںنے نہیں کیا تھا۔ مگر لائبریری کے تجربہ کی بنیاد پر انہیں یہ نوکری ملی تھی۔ اور مجھ سے پہلے چونکہ انچارج تھے۔ اس لئے انہیں لگتا تھا کہ اردو گھر کے وہ مختار کل ہیں۔ مزاج میں تنگ مزاجی تھی۔ غصہ ناک پردھرارہتا۔ دل کے مریض تھے ۔ چونکہ مجھ سے واقف نہیں تھے۔ لہٰذا کچھ دنوں تک کٹے ھٹے رہے۔ ایک Under Standing کے تحت میں نے اُن کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کی اورکسی حد تک کامیاب بھی رہا۔
لیکن وہ Public Sectorمیں کام کرکے آئے تھے اور اس مزاج میں رچ بس گئے تھے۔ اس لئے ان کا رویہ ہمیشہ غیرمناسب رہتا۔
اردوگھر کی ایک ثقافتی کمیٹی بھی تھی۔ جس میں شہر کے جانے مانے ایک وکیل، ایک پرائمری ٹیچر، دوجونیئر کالج کے لیکچرر، ایک سینئرکالج کے صدر شعبہ اُردو، ایک انگریزی کے سینئر کالج کی میڈم، دوصحافی اور ایک شاعر اس کے رکن تھے۔
پہلی ہی میٹنگ جو کلکٹر آفس میں ہوئی۔ ان لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ میں ان کے مزاج سے اتفاق نہیں رکھتا۔ اورمیں اپنا کام اپنے انداز سے کرنے کا عادی ہوں۔ بیچ میں ایک خود ساختہ سینئر صحافی نے ان لوگوں کو میرے خلاف بہکانے کی بہت کوشش کی۔ مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ ایک دو میٹنگ کے بعد حکومت بدل گئی۔ وکیل صاحب نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ دوسروں نے بھی اردو گھر آنا چھوڑدیا۔ دراصل کمیٹی کو یہ غلط فہمی تھی کہ میں ان کے آگے سرنگوں رہونگا۔ ان کا کام کلکٹر صاحب کو تجاویز پیش کرنا۔ اورکلچرل پروگرام کے لئے لوگوں کو راغب کرنا تھا۔ ان کے اختیارات محدود تھے اور وہ مجھے کوئی حکم نہیں دے سکتے تھے۔
وکیل صاحب چونکہDPOکے ممبر تھے۔ اس لیے انہوں نے اردو گھر کے ثقافتی پروگراموں کے لئے Fundکی تجویز رکھی۔ کلکٹر ناندیڑ ڈاکٹر وپن اٹینکر نے دس لاکھ روپئے UPSEاورMPSCکی کتابوں کے لئے منظورکئے۔ اس طرح اردو گھر کی لائبریری میں یہ بیش قیمتی کتب کا ذخیرہ آگیا۔ اب تو خیر وہ کمیٹی کی معیاد ہی مکمل ہوگئی ہے ۔
آج اردو گھر ناندیڑ میں طلباء و طالبات کے لئے Self Study Centerموجود ہے۔ مسابقتی امتحانات کے لئے کتب موجود ہیں جس کے ذریعہ ایک کلکرک سے کلکٹر بننے تک کا سفر طئے کیا جاسکتا ہے۔ محدود تعداد میں سہی اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند طلباء و طالبات اس سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ اُمید ہے موجودہ سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے شہریان ناندیڑ اپنے علم کی پیاس بجھا سکیں گے۔ اس اُمید کے ساتھ اجازت!

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے