किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مولانا غلام محمد وستانوی رحمہ اللہ کی خدمات

از: سیّد عبدالقدوس علی ابن مولانا حافظ عبدالقادر
مدرس ایف ایم کے اُردو اسکول پھلمبری

حضرت مولانا غلام محمد وستانوی (پیدائش: یکم جون 1950ء – وفات: 4 مئی 2025ء) ایک عظیم عالم دین، ماہر تعلیم، اور دینی و عصری علوم کے امتزاج کے علمبردار تھے۔ ان کی زندگی دین کی خدمت، تعلیم کے فروغ، اور امت کی فلاح کے لیے وقف رہی۔ ان کی خدمات کو دینی، تعلیمی، سماجی، اور اصلاحی شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں ان کی اہم خدمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:1. جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا کا قیاممولانا وستانوی کی سب سے نمایاں خدمت مہاراشٹر کے اکل کوا میں جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم کا قیام ہے، جو 1980ء میں عمل میں آیا۔ یہ ادارہ دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کی ایک منفرد مثال ہے۔ اس کے تحت:دینی تعلیم: درس نظامی کے تمام شعبے قائم ہیں، جہاں ہزاروں طلبہ قرآنی و حدیثی علوم، فقہ، اور دیگر دینی علوم حاصل کرتے ہیں۔عصری تعلیم: جامعہ نے میڈیکل، انجینئرنگ، فارمیسی، نرسنگ، قانون، اور دیگر عصری شعبوں میں کالجز قائم کیے۔ یہ ہندوستان کا پہلا اقلیتی ادارہ ہے جس نے میڈیکل کونسل آف انڈیا (MCI) سے تسلیم شدہ میڈیکل کالج قائم کیا۔اس وقت جامعہ میں 10,000 سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں، جو اسلامی ماحول میں دینی و عصری علوم سے استفادہ کر رہے ہیں۔انہوں نے غریب اور پسماندہ طبقات کے طلبہ کے لیے مفت تعلیم اور رہائش کے انتظامات بھی کیے، جس سے ہزاروں خاندان مستفید ہوئے۔2. دار العلوم دیوبند میں خدمات مولانا وستانوی نے دار العلوم دیوبند کے ساتھ بھی اہم خدمات انجام دیں:1998ء میں وہ دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور تاحال اس عہدے پر فائز رہے۔11 جنوری 2011ء کو وہ دار العلوم دیوبند کے مہتمم (وائس چانسلر) منتخب ہوئے، جو ایک تاریخی اقدام تھا۔ انہوں نے ادارے میں اصلاحی اقدامات کی کوشش کی، لیکن گجرات فسادات (2002ء) کے حوالے سے ان کے مفاہمتی بیانات تنازعات کا باعث بنے، جس کی وجہ سے انہوں نے سات ماہ بعد استعفیٰ دے دیا۔
3. دینی و عصری تعلیم میں ہم آہنگی مولانا وستانوی روایتی دینی تعلیم کو عصری علوم کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے مشہور تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی مہارت حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ معاشرے میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے:تعلیمی اداروں کا جال: میڈیکل، انجینئرنگ، اور قانون کے کالجز کے علاوہ دیگر عصری شعبوں میں تعلیمی ادارے قائم کیے۔مسلمانوں کے لیے عصری تعلیم کی ترغیب: انہوں نے بارہا زور دیا کہ ہر صوبے اور ضلع میں اسلامی ماحول میں عصری تعلیمی ادارے قائم ہونے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صرف 2% مسلم بچے مدارس میں پڑھتے ہیں، باقی 98% کے لیے عصری تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ان کی اس سوچ نے ہزاروں مسلم نوجوانوں کو ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، اور دیگر شعبوں میں پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرنے کی راہ دکھائی۔
4. سماجی اور فلاحی خدمات مولانا وستانوی نے سماجی بہبود کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں:مساجد کی تعمیر: وہ "عامر المساجد” کے لقب سے مشہور تھے کیونکہ انہوں نے متعدد مساجد کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔غریبوں کی امداد: انہوں نے غریب طلبہ کے لیے مفت تعلیم، رہائش، اور دیگر سہولیات فراہم کیں۔ ان کی جامعہ نے پسماندہ طبقات کے لیے فلاحی پروگرامز بھی شروع کیے۔مذہبی ہم آہنگی: مولانا نے ہندو اور مسلم کمیونٹیز کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کی، جس کی ایک مثال ان کے گجرات کے بارے میں بیانات تھے، اگرچہ وہ تنازعات کا باعث ب
5. روحانی و اصلاحی خدماتمولانا وستانوی نہ صرف عالم دین تھے بلکہ ایک روحانی رہنما بھی تھے:انہوں نے محمد زکریا کاندھلوی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور 1982ء تک ان سے استفادہ کیا۔ بعد میں وہ سید صدیق احمد باندوی اور محمد یونس جونپوری سے اجازت بیعت حاصل کر کے روحانی رہنمائی کے میدان میں بھی خدمات انجام دیں۔ان کی تقویٰ پر مبنی زندگی اور سادہ طبیعت نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا۔ وہ اپنی تقریروں اور خطابات میں امت کو اتحاد، تعلیم، اور دین پر عمل کی تلقین کرتے۔
6. دیگر تعلیمی و ادبی خدماتماہنامہ شاہراہ علم: مولانا وستانوی اس ماہنامے کے سرپرست تھے، جو دینی و علمی موضوعات پر شائع ہوتا ہے۔ ان کے صاحبزادے مولانا حذیفہ وستانوی اس کے مدیر ہیں۔قانون کی تعلیم کا فروغ: انہوں نے اکل کوا میں کالج آف لا کی بنیاد رکھی، جو غریب طلبہ کے لیے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بنا۔انہوں نے اپنے اداروں کے ذریعے متعدد کتب اور دینی مواد کی اشاعت کو بھی فروغ دیا
7. امت کے لیے عظیم سرمایہ مولانا وستانوی کی خدمات کو ان کے معاصرین اور عقیدت مندوں نے "امت کے لیے عظیم سرمایہ” قرار دیا۔ ان کی وفات پر علمی و دینی حلقوں میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا، اور ان کی تعلیمی و اصلاحی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کا عزم کیا گیا۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے بھی ان کی ہمہ جہت خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
مولانا غلام محمد وستانوی رحمہ اللہ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کو نہ صرف نظریاتی طور پر فروغ دیا بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ ان کے قائم کردہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، ہندوستان میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے لیے ایک نمونہ ہے، جہاں ہزاروں طلبہ دینی و عصری علوم سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ان کی سوچ کہ "مسلمانوں کو عصری تعلیم کے ذریعے معاشرے میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے” نے ایک نئی نسل کو پیشہ ورانہ شعبوں میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ان کی سماجی خدمات، خصوصاً غریب اور پسماندہ طبقات کے لیے مفت تعلیم اور فلاحی پروگرامز، ان کے انسان دوست رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے مساجد کی تعمیر، مذہبی ہم آہنگی، اور روحانی رہنمائی کے ذریعے امت کے اتحاد اور ترقی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ دار العلوم دیوبند میں ان کی مختصر لیکن اہم خدمات نے بھی ان کے علمی مقام کو اجاگر کیا۔مولانا وستانوی کی وفات (4 مئی 2025ء) ایک عظیم نقصان تھی، لیکن ان کے قائم کردہ ادارے، ان کی تعلیمی و اصلاحی تحریک، اور ان کا پیغام آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ رہے گا۔ ان کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ دین اور دنیا کے علوم کو یکجا کر کے امت کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ ان کے معاصرین اور عقیدت مندوں نے انہیں "امت کا عظیم سرمایہ” کہہ کر خراج تحسین پیش کیا، جو ان کی خدمات کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے