किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مولانا سجاد نعمانی: دور اندیش قیادت اور ہماری کوتاہیاں

از قلم محب العماء و قائدین
بذریعہ ضلع نامہ نگار اعتبار نیوز پربھنی

مہاراشٹر کے حالیہ انتخابات مسلمانوں کے لیے ایک آئینہ ثابت ہوئے، جنہوں نے قوم کے سیاسی انتشار اور قیادت کے فقدان کو واضح کیا۔ مسلمانوں کی اکثریت مختلف جماعتوں میں تقسیم رہی، اور اجتماعی اتحاد کا فقدان نمایاں رہا۔ ایسے میں ہر فکر مند مسلمان یہ خواہش کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی رہنمائی کے لیے کسی کو مقرر کرے جو ان کے سیاسی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کی سمت میں رہبری کرے۔
مولانا سجاد نعمانی: خدمت کے جذبے سے قیادت:
اللہ کا شکر ہے کہ مولانا سجاد نعمانی صاحب آگے آئے۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ مولانا نے کبھی اپنے آپ کو حکمرانی یا قیادت کے لیے پیش نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ خود کو ایک خادم کے طور پر پیش کیا، جو قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ مولانا نے جس گہرائی سے حالات کا تجزیہ کیا اور قوم کو رہنمائی فراہم کی، وہ ان کی بصیرت، حکمت، اور خلوص کا مظہر ہے۔
مولانا نے اپنی بصیرت کی بنیاد پر کئی اہم حلقوں میں امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا اور قوم کو ان کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے کسی پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے صرف مشورہ دیا اور قوم سے اجتماعی مفاد میں فیصلے کرنے کی اپیل کی۔
مولانا کی حکمت عملی اور زمینی حقائقـ:
مولانا کی حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن امیدواروں کی انہوں نے حمایت کی تھی، ان میں سے کئی محض چند ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارے۔ اگر ان کی بات کو قبول کیا جاتا اور مقامی سطح پر اتحاد قائم رہتا، تو یہ نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔
اس وقت اپوزیشن کی 48 سیٹیں موجود ہیں۔ لیکن اگر مولانا کے حمایت یافتہ امیدوار، جو محض 5,000 ووٹوں کے فرق سے ہارے، جیت جاتے تو حالات یکسر بدل سکتے تھے۔ مولانا کی حمایت یافتہ 100 ایسے امیدوار تھے جو صرف پانچ ہزار یا اس سے کم ووٹوں کے فرق سے ہارے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ اگر ان سیٹوں پر جیت حاصل کر لی جاتی، تو آج اپوزیشن کی تعداد 148 ہو سکتی تھی، اور حکومت سازی میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا نمایاں کردار ہوتا۔
تنقید: عجلت اور غیر دانشمندانہ رویہ:
بدقسمتی سے، جیسے ہی مولانا نے اپنی حمایت کا اعلان کیا، چند حلقوں نے ان پر تنقید شروع کر دی۔ یہ تنقید جذبات اور جلد بازی کا نتیجہ تھی۔ مولانا کو بغیر سمجھے اور ان کی حکمت عملی کو بغیر پرکھے مسترد کرنا قوم کے لیے ایک بڑا نقصان ثابت ہوا۔
قیادت کا کام نہایت مشکل ہوتا ہے۔ قوم کے جذبات کو سنبھالنا، تنقید کا سامنا کرنا، اور پھر بھی ان کے بہتر مستقبل کے لیے کام کرنا آسان نہیں۔ مولانا نے نہایت صبر و حکمت سے یہ ذمہ داری نبھائی، لیکن قوم نے ان کی خلوص نیت کو سمجھنے کے بجائے تنقید کو ترجیح دی۔
سیاسی شعور کی ضرورت:
ہماری سب سے بڑی ناکامی سیاسی شعور کا فقدان ہے۔ قیادت کے فیصلوں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ہی قوم کی ترقی کا راستہ ہے۔ مولانا سجاد نعمانی کی حکمت عملی کو اگر وقت پر تسلیم کیا جاتا اور انتشار سے گریز کیا جاتا، تو آج نتائج بہت مختلف ہوتے۔
نتیجہ: اتحاد اور قیادت کا احترام:
مولانا سجاد نعمانی صاحب نے اپنی بصیرت اور خلوص کے ساتھ قوم کے لیے ایک راستہ پیش کیا تھا، لیکن ہم نے اپنی داخلی کمزوریوں اور اختلافات کے باعث اس موقع کو ضائع کر دیا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں، قیادت پر اعتماد کریں، اور ان کے ساتھ مل کر ایک مضبوط اتحاد قائم کریں۔
قیادت کا احترام، ان کے فیصلوں کی حکمت کو سمجھنا، اور اجتماعی مفاد میں ان پر عمل کرنا ہی قوم کی ترقی اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں بہتر مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے