किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مولانا ابوالحسن علیؒ ندوی کی تصنیف جو ان کا آئیڈینٹٹی کارڈ بن گئی

تحریر:عارف عزیز(بھوپال)

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (۱۹۹۹-۱۹۱۴ء) ۲۰ویں صدی کی نابغۂ روزگار شخصیت تھے، جو بیک وقت مفکر، مدبر، مؤرخ، مصلح، داعی، قائد، طبیبِ روحانی، علم ظاہری و باطنی کے غواص، زمانہ شناس اور نباضِ وقت تسلیم کئے گئے، اللہ تعالیٰ نے مولانا کو عوام و خواص میں بڑی محبوبیت عطا کی تھی۔ امتِ مسلمہ کا جیسا اجماع اُن کے بارے میں نظر آیا، کسی دوسری ہم عصر شخصیت میں دکھائی نہیں دیا۔ حضرت کی ایک معروف کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ ہے، جو مصنف کی زندگی کا عنوان جلی بھی ہے۔ حالانکہ اِن دو جملوں میں مولانا کی ہمہ گیر زندگی کی تصویر کشی امرِ محال ہے، لیکن خواجہ حسن ثانی نظامی نے کیا ہی اچھا نکتہ پیش کیا کہ اِس مشکل کو خود مولانا نے ’دعوت و عزیمت‘ کی تاریخ اپنے قلم سے رقم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کو باکمالِ خوبی اُس میں ڈھال کر حل فرما دیا ہے۔
مفکر اسلام کی ایک اور تصنیف ’’ماذا خسر العالم بانحطاطِ المسلمین‘‘ ہے، جس کا اُردو قالب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ فی الوقت میرے پیش نظر ہے۔ یہ مولانا کی دوسری تصنیف ہے جو نو عمری کے زمانہ میں لکھی گئی۔ اِس کتاب کے وجود میں آنے کی تفصیل مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے الفاظ میں یہ ہے:
’’عربوں کو متوجہ کرنے کے لئے حضرت مولاناؒ نے کچھ مضامین لکھے، اِن مضامین کے تحریر کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ اِن میں مناسب اضافہ کرکے ایک جامع کتاب بنادیں، جس میں اسلام کے عہد اوّل کی دینی و سیاسی فتوحات کا جائزہ آجائے اور پھر اِس خیر امت کے زوال اور اُس کے حریفوں کی ترقی و کمال کے تذکرہ کے ساتھ صحیح اسباب و محرکات کا تعین ہو جائے، تاکہ ملت میں اِن اسباب و محرکات کو سمجھ کر دوبارہ اپنی سربلندی کی طرف لوٹ سکنے کی اہلیت و صلاحیت پیدا ہو، اِس عرصہ میں مولانا کو حجازِ مقدس کے سفر کا موقع ملا، وہ حج کے ساتھ کئی ماہ ’مرکز اسلام‘ میں مقیم رہ کر علماء و فضلاء سے ملاقات اور تبادلہ خیال میں مصروف رہے، اِس سفر کے تجربات سے مولانا کو اپنی کتاب میں اضافہ کرکے مزید بہتر بنانے اور مصر سے اُس کی اشاعت کا سامان ہونے میں تحریک و مدد ملی۔‘‘
یہ وقیع و مؤثر کتاب ۱۹۵۰ء؁ میں مصر سے طبع ہوکر منظر عام پر آئی، اُس وقت مولانا کی عمر بمشکل سے چونتیس پینتیس سال رہی ہوگی اور کتاب میں شامل اکثر تحریریں اِس سے پہلے یعنی نوجوانی میں لکھی گئی تھیں۔ کتاب کی اشاعت کے مراحل اور غیر معمولی مقبولیت کی روئیداد بیان کرتے ہوئے صاحبِ کتاب خود لکھتے ہیں:
’’اِس مسودہ کو اُنہوں نے طباعت کی منظوری کے لئے الجنّہ التالیف و الترجمہ والنشر، مصر کے صدر ڈاکٹر احمد امین کو بھیجا لیکن کئی ماہ گزر گئے انجام کی کوئی خبر نہیں ملی، اِسی اثنا۱۹۵۰ء؁ میں دوسری مرتبہ حجاز کا سفر پیش آیا اور حسنِ اتفاق سے ناگہانی طور پر مجھے اس کا مطبوعہ نسخہ شامی سفیر استاد جواد المرابط کے پاس مل گیا، وہ ایک فاضل و ادیب تھے اور المجمع العلمی العربی دمشق کے رکن بھی۔ اِس کا دلچسپ واقعہ ہے اس سفر میں مکہ کے طویل قیام کے دوران میرا شام کے سفر کا ارادہ ہوا، چنانچہ شام کا ویزا لینے میں شامی سفارت خانہ جدہ گیا تو میں نے ویزا لینے کے بعد شامی سفیر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ سفارت خانہ کے ذمہ داروں نے میری اُن سے ملاقات کرائی۔ سفیر صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، اِس گفتگو میں مصر کے ادباء اور اہل قلم پر گفتگو کے دوران ہم نے اُن سے اپنے تاثر کا اظہار کیا لیکن اِس کے برعکس وہ علماء ہند کی تعریف کر رہے تھے جس سے اندازہ ہوا کہ ہندوستانی اہلِ قلم کی فکری گہرائی اور پختگی کے وہ بڑے قدرداں ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی علماء اور مصنّفین کی تحریروں میں جو اثر اور دلآویزی محسوس ہوتی ہے وہ اُن مصری ادباء کے یہاں نہیں جو بہت شہرت رکھتے ہیں، مثال کے طور پر انہوں ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ کا نام لیا جو مصر کے حالیہ سفر میں اُن کے ہاتھ لگی تھی اور قاہرہ سے اِس کا ایک نسخہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کتاب کے مصنف سے بات کر رہے ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک غیر مشہور نوجوان مصنف کو سب سے بڑے دارالاشاعت سے شائع ہونے والی اپنی اِس پہلی کتاب کو اچانک دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی ہوگی۔ چنانچہ میں نے محترم سفیر صاحب سے چند دنوں کے لئے اِس کو مستعار لے لیا، لیکن اِس کے ساتھ ہی یہ بھی احساس ہوا کہ احمد امین نے کتاب پر جو چھوٹا سا مقدمہ تحریر کیا ہے اُس نے کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ کرنے کے بجائے اُس کی روح کو نقصان پہنچایا ہے۔ اِس میں وہ قوت اور تاثیر نہیں تھی جس کی مصنف کو ڈاکٹر احمد امین جیسے ادیب سے ایک عظیم اسلامی اسکالر ہونے کی بنا پر توقع تھی، کیونکہ انہوں نے کتاب اور مصنفِ کتاب کے بارے میں اپنے احساسات اور تاثرات کے اظہار میں بڑی احتیاط سے کام لیا تھا۔
جنوری ۱۹۵۱ء؁ میں مصنفِ کتاب کو مصر کے سفر کا موقع ملا جب کہ کتاب کی اشاعت پر دو تین مہینے گزر چکے تھے تو اُس کو یہ جان کر تحیر آمیز مسرت ہوئی کہ علمی اور دینی حلقوں میں کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور بڑی گرمجوشی سے اس کا استقبال ہوا تھا نیز مصنف کی توقع سے بڑھ کر (بلکہ جس کا وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا) اِس کو پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔ یہ کتاب جدید تعلیم یافتہ طبقوں اور اسلامی فکر کے اُن حلقوں میں وسیع پیمانہ پر پڑھی گئی جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور مسلمانوں کی بیداری سے دلچسپی رکھتے تھے۔
اُس وقت مصر میں اخوان کی سرگرمیاں محدود پیمانے پر دوبارہ شروع ہوچکی تھیں، اِس کتاب نے اُن کی کچھ مشکلات کو آسان کر دیا گویا یہ کتاب مناسب وقت پر مناسب جگہ منظر عام پر آئی۔ یہ اخوانیوں کو اپنی فکر و دعوت سے ہم آہنگ محسوس ہوئی۔ امام حسن البناء شہیدؒ کی شہادت کی وجہ سے اُن کا زخم ہرا تھا اور اخوان کی تحریک پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، یہ کتاب اُن کے لئے باعثِ تعزیت و تسکین ثابت ہوئی بلکہ اِس نے ایک علمی ہتھیار کا کام بھی دیا جس سے وہ اپنی فکر و دعوت کا دفاع کرسکیں اور اپنی بیٹری کو از سر نو چارج کرسکیں، اخوان کے ذمہ داروں نے اِس کتاب کو اپنے تعلیمی و تربیتی کورس میں شامل کر لیا تھا، مطالعہ و تربیت کے حلقوں سے لے کر جیل خانوں تک میں اس کی رسائی ہوگئی تھی، عدالت کی بحثوں اور پارلیمنٹ کی تقریروں میں اِس سے استفادہ کیا جارہا تھا۔ چنانچہ فطری طور پر اخوان کے حلقوں میں کتاب کے مصنف کا بڑی محبت اور گرمجوشی سے استقبال ہوا۔ کتاب اس نووارد مہمان مصنف کے لئے بہترین تعارف کا ذریعہ ثابت ہوئی، گویا اُس نے ’’وزیٹنگ کارڈ‘‘ کا کام دیا، مستقبل میں اُس پر اعتماد کی راہ ہموار اور اللہ کو عالم عربی میں اُس سے جو دعوتی کام لینا تھا اُس کے لئے میدان صاف کر دیا۔
سید قطبؒ جو مصر میں اسلامی فکر اور دعوت کے سب سے بڑے علمبردار اور ادبِ اسلامی کے ایک بلند مینار تھے، انہوں نے اس کتاب کا بڑے ذوق و شوق سے مطالعہ کیا تھا، اس کی بہت داد دی اور بڑی حوصلہ افزائی فرمائی تھی، اُنہوں نے اپنے دوستوں اور شاگردوں کو بھی اس کے مطالعہ پر آمادہ کیا تھا، ان کی ہفتہ وار مجلس مذاکرہ میں جو اُن کے مستقر حلوان میں ہر جمعہ کو منعقد ہوتی تھی اور جہاں کسی اسلامی موضوع کو موضوعِ بحث بنایا جاتا تھا اِس کتاب کی تلخیص اور اِس پر بحث و مباحثہ ہوا، مصنف کو بھی ایک دن اس میں شرکت کی سید قطب کی طرف سے دعوت ملی، اُن کے ایک شاگرد (جو جامعہ فواد الاول کے فارغ تھے) نے ’’ماذا خسرالعالم‘‘ کی تلخیص کی۔ مصنف نے اِس دعوت کو بسر و چشم قبول کیا جو درحقیقت اس کی حقیر علمی اور تصنیفی کوشش کی قدردانی کے لیے ایک انعقاد تھا۔ چنانچہ اُس نے اس مجلس میں شرکت کی اور بحث میں حصہ لیا نیز مصنف کی حیثیت سے بعض سوالوں کا جواب دیا۔
اِسی اثنا میں مصنف کے ذہن میں یہ بات آئی کہ سید قطبؒ سے کتاب پر مقدمہ لکھنے کی فرمائش کی جائے تاکہ وہ اپنے طاقتور مومنانہ قلم اور بامقصد علمی اسلوب سے اس پر مقدمہ لکھیں۔ انہوں نے اس فرمائش کو انتہائی مسرت کے ساتھ قبول کیا اور پورے جوش و جذبہ کے ساتھ مقدمہ تحریر فرمایا، وہ ایسا مؤثر مقدمہ ہے جس میں انہوں نے کتاب کی پوری روح کھینچ لی ہے، اس سے کتاب کی قدر و قیمت میں ایک وقیع اضافہ ہوا۔ اس طرح اس نقصان کا تدارک ہوا جو احمد امین کے مقدمہ سے کتاب کو پہنچا تھا۔
اسی موقع پر مصنف کے مخلص دوست اور کتاب کے خاص قدرداں ڈاکٹر یوسف موسیٰ (استاد جامع ازہر اور اُس کے اشاعتی ادارہ جماعۃالازہر للتالیف والترجمہ والنشر کے سربراہ) نے اپنی کمیٹی کی طرف سے کتاب کی طبع ثانی کے لیے پیشکش کی۔ مصنف نے بخوشی ان کو اجازت دے دی۔ شیخ یوسف موسیٰ نے ڈاکٹر احمد امین سے اس کی قانونی اجازت حاصل کرکے از راہ کرم ایک مقدمہ تحریر فرمایا جس میں کتاب کے متعلق اپنے قلبی تاثرات اور علمی خیالات کا اظہار ہوا اور کتاب کا بہترین تعارف ہوگیا، اِس کی سطر سطر سے ان کا اخلاص و محبت اور مقصد کتاب سے ان کی ہم آہنگی کا پتہ چلتا ہے۔
مصنف کو۱۹–؁ میں کتاب کی طبع ثانی کا علم ہوسکا، اُس کے بعد سے کتاب کے مسلسل کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور مشرق و مغرب کی متعدد زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں، جس میں اردو، انگریزی، فرنچ، فارسی، ترکی کے علاوہ جنوبی ایشیاء کی دوسری زبانیں شامل ہیں۔ ابھی اس کا تیرہواں قانونی ایڈیشن منظر عام پر آیا ہے۔
’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ کی اشاعت اور اِس کے ذریعے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی عرب ممالک کے ادیبوں اور مصنفوں کے درمیان روشناس بلکہ ہر دل عزیز ہونے کی یہ تفصیلات ہیں جو مولانا نے خود بیان کی ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کتاب میں مولانا نے اسلامی تاریخ کا نئے انداز سے جائزہ لیا، نیز یہ پہلو پورے وثوق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کا وجود دنیا کے لئے باعث رحمت ہے اور جب تک اُنہیں دنیا میں اقتدار حاصل تھا اسلامی احکام و اخلاق کا رواج و نفوذ ہورہا تھا، مسلمان زخمی دلوں کے لئے مرہم کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ مظلوموں اور بے کسوں کے لئے سہارا تھے اور دنیا میں محبت و الفت کی جو ہوائیں چل رہی تھیں اُِن کا سبب مسلمان ہی تھے، جب یہاں ظلم و استبداد کا بازار گرم ہوا تو مسلمان سیاسی لحاظ سے ہر جگہ بے کس و بے بس ہوگئے، اگر دنیا پھر امن و سلامتی کے راستے پر آنا چاہتی ہے تو اسلام ہی اِس کا بدل ہے، مولانا ندوی نے اِس فکر کو صرف منطقی انداز میں ہی پیش نہیں کیا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ُاس وقت اُن کے لہو میں غیر معمولی گرمی اور اُن کے قلب و جگر میں ایک لو اور دھن مضمر تھی جس نے عربی زبان میں طاقت کے ساتھ ساتھ ایک رعنائی بھی پیدا کر دی اور یہی مولانا کی تحریروں کا طرۂ امتیاز ہے۔
کتاب کی اشاعت کے بعد مولانا محترم نے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ عرب ممالک کا دورہ کیا جس میں مملکت عربیہ سعودیہ، مصر، شام اور اردن شامل ہیں، مولانا ان ممالک میں جہاں بھی پہنچے وہاں کے علمی و ادبی حلقوں میں اُن کا جس شان سے استقبال ہوا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ’’ماذا خسر العالم بالخطاط المسلمین‘‘ نے مولانا کے لئے ہراول دستہ کا کام کیا ہے، ہر جگہ اُن کے اعزاز میں جلسے منعقد کئے گئے اور مولانا سے خطاب کرنے کی گزارش کی گئی۔ مولانا بڑے وثوق اور اعتماد کے ساتھ عربی زبان میں خطاب فرماتے اور کہیں بھی خطاب کرنے میں انہیں تردد نہیں ہوتا، اِن جلسوں میں مولانا نے جو تقریریں کیں یا اُن کے اثرات جو وہاں کے ادیبوں اور نوجوانوں پر مرتب ہوئے وہ ناقابلِ بیان ہیں، اُس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مولانا اِسی علاقے کے لوگوں کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور اُن کی سیاسی و فکری رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کی سرپرستی بھی کریں گے، عرب ملکوں میں جہاں مولانا نے جدید تعلیم سے واقفیت اور اُس کے ساتھ ساتھ اُن کے اندر جوش و خروش دیکھا تو مولانا کا دل باغ باغ ہوگیا لیکن اِس کے ساتھ وہ مغربی مفکرین کی تحریروں کے اثرات یونیورسٹیوں اور کالجوں میں دیکھتے تو بے چین ہوجاتے۔
سطور بالا میں مولانا ندوی کی یگانۂ روزگار تصنیف ’’ماذا خسر العالم…‘‘ کیسے وجود میں آئی، اِس کے محرکات اور تقاضے کیا تھے اور عالم عرب خود صاحب کتاب کی شخصیت پر اِس کی اشاعت سے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اِس پر روشنی ڈالی گئی ۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا کی اِس فکر انگیز اور انقلاب انگیز کتاب کے ابواب پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔
فی الوقت میرے سامنے ساڑھے تین سو صفحات اور سات ابواب پر مشتمل۱۹۱۴ء؁ میں شائع کتاب کا بائیسواں اُردو ایڈیشن ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کااثر‘‘ ہے۔ اِس کے اوّل باب میں بعثت نبویؐ سے قبل زمانہ جاہلیت کی عام اسلوب سے ہٹ کر تصویر کشی کی گئی ہے، کیونکہ بیشتر سیرت نگاروں کی روش یہ رہی کہ انہوں نے رسول اکرمﷺ کی بعثت سے پہلے اہل مکہ یا بعض عرب قبائل کی اعتقادی و عملی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے۔ مثلاً معاشی بے انصافی، اخلاقی بدعنوانی اور انارکی کو تفصیل سے بیان کیا ہے، جس میں دختر کشی، چوری و رہزنی، شراب نوشی اور قمار بازی آپس کی جنگیں اور طویل مدت تک انتقام کا سلسلہ قائم ہونا وغیرہ شامل ہے۔
’’ماذا خسر …‘‘ کے مصنف نے صرف عربوں کے نہیں بلکہ تمام انسانی آبادی کا اخلاقی سروے بھی پیش کیا ہے اور عرب کے باہر ساری دنیا میں جو جاہلی نظام رائج تھا، اُس کی حقائق کی روشنی میں تصویر کشی کی ہے، تاکہ معلوم ہو کہ اُس وقت انسانیت عالمگیر پیمانے پر کس پستی بلکہ خود کشی اور خود سوزی کی منزل پر پہنچ گئی تھی اور قرآن نے جو عربوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے ’’کنتم علی شفا حفرۃ من النار‘‘ (تم آگ کے گڈھے کے کنارے پر پہنچ گئے تھے۔) وہ صرف عربوں کا حال نہیں، بلکہ اُس وقت تمام عالم کا یہی حال تھا اور اسلام کا ظہور کن نامساعد حالات اور کس تاریک ماحول میں ہوا اور اُس نے انسانیت کی نشاۃ ثانیہ میں کتنا عظیم اور کس درجہ دشوار کردار انجام دیا۔
اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کہیں یکجا اتنا مواد نہیں ملتا، جتنا ’’ماذا خسرالعالم…‘‘ میں موجود ہے، کیونکہ اس زاویہ سے کسی نے پہلے سونچا ہی نہ تھا، کہ جاہلیت کا مسکن صرف عرب قبائل کے علاقے ہی نہیں بلکہ سارا عالم اس شکنجہ میں کسا ہوا تھا، لہٰذا ہر براعظم بلکہ ہر بڑے ملک کے حالات، اخلاقی گراوٹ اور انسانی بربادی کے قصوں کو مختلف مآخذ و مصادر سے حاصل کیا گیا، اِس کی خاطر برسہا برس کی دیدہ ریزی اور مختلف زبانوں کے لٹریچر تہذیب و تمدن اور رسوم کو چھانا گیا، یہ کام چیونٹیوں کے منہ سے شکر کے دانے جمع کرنے اور اُس کا انبار لگانے کے مرادف تھا۔
یہ کام اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق و تائید غیبی کے بغیر ناممکن تھا، اس باب کا حق ادا کرنے کے لئے مصنف کو کتب خانے کھنگالنے پڑے، یقینا اس کتاب کا یہ نادر باب ہے جس کا مواد پہلے کہیں یکجا نہیں دیکھا گیا۔
کتاب کا دوسرا باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سازی کے تابناک نمونوں پر مشتمل ہے، اِس باب میں فاضل مصنف نے بتایا کہ درس گاہِ نبوت سے جو نسل تعلیم پاکر نکلی اُس کی زندگی ایمان لانے سے پہلے کی زندگی سے کس درجہ مختلف تھی اور نبی کریمؐ نے تربیت نفوس میں کس کو اولیت کا درجہ دیا، کام کہاں سے شروع ہوا اور کہاں ختم ہوا، اور یہی طریقہ قیامت تک کے لئے کامیابی کا ضامن اور انقلاب حال کا ذریعہ ہے، اس باب میں حوالہ جات کے لیے قرآن کریم، احادیث نبوی اور سیرت و تاریخ کی کتابیں ہیں اور تمام عربی مآخذ ہیں، قرآن کریم سے رات دن کا سابقہ، تفسیر کی تدریس اور احادیث نبوی سے شغف کی بنیاد پر مصنف کو اِنہیں جمع کرنے میں آسانی ہوئی ہوگی، لیکن ان آیات و احادیث اور تاریخی واقعات سے مفید نتائج نکالنا ایک دیدہ در مفسر اور صاحب بصیرت عالم کا ہی کام ہے جس کی نظر میں قدیم جدید مآخذ موجود ہوں۔
تیسرے باب میں مسلمانوں کے زوال کی المناک داستان سنائی گئی اور اس کے تاریخی انحطاط اور اس کے حقیقی اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے، پھر ترکوں کا میدان قیادت میں آنا اور عالم اسلام کے خلافت سے محروم ہونے کا ذکر ہے، بعدہٗ ترکوں میں انحطاط کس طرح شروع ہوا اور اُس کے واقعی اسباب کیا تھے، اُن کا تاریخی حوالوں کے ساتھ اور اسباب و علل کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے، اس کتاب میں ترکی کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے مصنّفین کی تحریروں سے بھی مصنف نے فائدہ اٹھایا۔
کتاب کا چوتھا باب یورپ کی نشاۃ ثانیہ پر مشتمل ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ یورپ کے منصب قیادت پر آنے اور دنیا کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لینے کے کیا محرکات تھے اور اس کے مادی اسباب کیا تھے؟ اور یورپ نے کس طرح اور کیوں عیسائیت سے انحراف کیا؟ اور خالص مادیت کے راستہ پر مُڑ گیا، اس کو علمی تجزیہ اور تاریخی معلومات کی روشنی میں پیش کیا گیا۔ یورپ میں مذہب و سائنس کی آویزش، ریاست و حکومت کی رقابت اور یورپ کے اخلاقی زوال اور نئے اخلاقی تصورات نیز اقدار، قوم و نسل پرستی کے ارتقاء کے بارے میں مصنف کے مطالعہ کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے، اس باب کے مطالعے سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ مصنف علماء کی صف سے نکلنے والے پہلے عالم دین ہیں۔ جن کی یورپین مصادر پر اِتنی گہری نظر ہے، اس باب میں مصنف نے جن مآخذ سے کام لیا، وہ اکثر انگریزی میں ہیں اور انگریزی میں لکھی ہوئی درجنوں کتابوں سے مصنف نے خود استفادہ کیا ہے۔
پانچواں اور آخری باب کتاب کا نچوڑ اور حاصل ہے جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ عالم اسلام کس طرح اپنے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے اور دنیا کو بدامنی، انارکی، انسانی کشی سے نجات دلا سکتا ہے، اس سلسلہ میں ایمان و عمل، روحِ دعوت، اخلاق و روحانیت سے لے کر حربی اور صنعتی تیاریوں نیز عالم اسلام کو خود کفیل بنانے کا مشورہ خاص ہے، آخر میں عربوں کو عالم اسلام کی قیادت اور اس کے منصب امامت سنبھالنے کی پرزور دعوت دی گئی ہے اور ان کمزوریوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اُن کے ازالہ کی تدابیر بھی بتائی گئیں ہیں۔ کتاب کا بڑا طاقتور اور مؤثر حصہ وہ ہے جس کا عنوان ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم روح العالم العربی‘‘ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عربوں کو جو کچھ نصیب ہوا وہ سب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے صدقہ اور آپؐ کے طفیل میں ہوا، اگر وہ اس نعمت کی ناشکری کرتے یا اُن کو اپنی جاہلیت یاد آتی ہے اور عرب قومیت میں اُنہیں اپنی ترقی و سربلندی دکھائی دیتی ہے تو اس عطیہ کو واپس کرکے دیکھیں اُن کے پاس کیا رہ جائے گا، کتاب کا یہ حصہ جذبات و عقیدت کے ساتھ حقیقت پسندی کا بھی شاہکار ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ جذبات اور خیالات کا اظہار میلاد خوانی، یا وعظ کی مجالس میں نہیں ہوا، جہاں مبالغہ آویز روایت سن کر اہل محفل جھوم اٹھتے ہیں اور درود و سلام کا نذرانہ بہ آواز بلند پیش ہونے لگتا ہے، یہ بات عربی زبان میں کہی گئی اور اُس کے مخاطب جذبات سے مغلوب عوام نہیں بلکہ چوٹی کے اسکالرس، عرب اور مسلمانوں کی تاریخ کے ایک ایک حادثہ پر گہری نظر رکھنے والے، علماء و دانشور تھے اور اُنہوں نے اس طرح سنا جیسے کوئی نئی بات اُن کے سامنے رکھی گئی ہے، یا جیسے کسی سوتے ہوئے انسان کو کوئی سوئی چبھو کر بیدار کردیا جاتا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ’’ماذا خسر العالم ……‘‘ یا اُس کا اُردو نام ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ فکر انگیز ہی نہیں ایک انقلاب انگیز کتاب ہے۔ جس میں فاضل مصنف مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے چھٹی صدی عیسوی میں مسلمانوں کے عروج سے امت مسلمہ کو جو فائدہ پہنچا اُس پر ہی روشنی نہیں ڈالی، مسلمانوں کے زوال سے انسانیت کو جو خسارہ ہوا یا بحیثیت ایک امتِ دعوت اَِس خدا شناس ملت کے ہاتھ سے دنیا کی قیادت چھن جانے سے انسانیت کا جو زوال ہوا اُس کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیا ہے۔ یہ ایک نادر موضوع ہے جس پر مزید علمی و تحقیقی کام ہونا چاہیے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے