किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مرد کے آنسو ۔۔۔۔

تحریر: ایمن فردوس بنت عبدالقدیر

آج مضمون لکھنے کے لیے کوئی عنوان نہیں مل رہا تھا تو اپنے بھائی پر نظر پڑی اور اسپر نظر پڑتے ہی میں نے لکھنا شروع کیا کہ، عنوان مرد کے آنسو ۔۔۔۔
شاید یہ دو متضاد لفظوں کو اکھٹا کیا گیا ہے، بھلا مرد بھی کبھی روتے ہیں؟؟؟ انہیں تو بس رولانا آتا ہے، یہ کبھی روتے بھی ہیں؟؟؟ اور میں نے اپنی ساری بھڑاس الفاظوں کے ذریعے نکالنی شروع کی ،میری انگلیوں نے بھی میرا ساتھ دیا اور میں جی بھر کے مرد کے بارے منفی پوائنٹس لکھتی رہی۔۔سب سے پہلے شروعات کی جائے میرے بھائی کی جو مجھ سے دو برس بڑا ہے ۔۔ جو بہت ہی نکما اور بے حس ہے اس نے میرے ہر کام میں اختلاف کی قسم کھا رکھی ہے۔۔ اور میرے ہر چھوٹے بڑے فعل میں تخریبیں پیدا کرتا ہے!! اورآج تک جتنے بھی آنسو ان آنکھوں سے بہے ہیں، ان کی وجہہ میرا بھائی ہی ہوگا؟؟ سب سے پہلے تو ایک میٹر لمبی اصولوں کی لسٹ ۔۔ اور پھر حکم ، چائے بناؤ، کھانا لگاؤ، میرا ڈریس استری کردو، آج کچھ چٹپٹا کھانے کا دل ہے!!! وغیرہ۔ذرا اس کے اصولوں کی لسٹ پر تو نظر ثانی کی جائے۔۔
1۔۔۔ کالج کو بابا یا میرے ساتھ جائے گی۔۔
2۔۔ بار بار پڑوسی کے گھر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔
جب میں نے کہا کہ ان کا بیٹا مجھ سے دو برس چھوٹا ہے۔ تو بھائی کہتا ہے ، بس میں نے کہہ دیا۔
3۔۔۔ کیا بار بار بالکونی میں کھڑی رہتی ہے ؟؟؟
4۔۔ امی ، اس سے کہہ دو کہ یہ اپنی منحوس سی سہیلی کے گھر نہیں جائے گی!! اگر اتنا ہی اس سے ملنے کا شوق ہے تو اسے یہاں بلا لے۔۔۔
5۔۔۔ گھر کے باہر کے چبوترہ کو جھاڑنے کی کوئی ضرورت نہیں !!!
6۔۔۔ ہر روز شام کے وقت چھت پر آکر سورج دیکھتی رہتی ہو؟ کچھ خاص ہوتا ہے کیا اس میں؟؟؟ میں اسے گھور کر دیکھتی ہوں تو بھائی کہتا ہے، میں بھی یہاں تیرے ساتھ ہوں جی بھر کر دیکھ لے آسمان، کوئی بات نہیں،مفت ہی تو ہے، ان سارے اصولوں سے میں خوب رو ی تو تھی ،لیکن بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ ، ادھر آیا سر پر مارا ، ادھر چوٹی کھینچی، کبھی میرا چاکلیٹ کھا لیا، کبھی گارڈن جانے سے روکا محض اس لیے کہ، گارڈن میں گھٹیا لوگ آتے ہیں،اور میں وہاں جانے نہیں دوں گا ؟؟ بھلے ہی میں نے آنسوؤں کا دریا بہا دیا ہو؟ اس بے حس کو کوئی فرق نہیں پڑتا، بھلا مرد بھی کبھی روتے ہیں؟؟؟اب میں نے بھائی سے ہٹ کر بابا پر نظر ڈالی ، ان کے حال اور ماضی میں جھانکنا، لیکن تاریخ گواہ ہے،وہ کبھی نہیں روۓ؟؟ وہ غمگین ہوتے ہیں جب اگر مجھے چوٹ لگ گئی تو بہت زیادہ کچھ کہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔۔لیکن کبھی روتے نہیں ،یہاں تک کہ ان کے تایا جان جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو بھی انھوں نے ایک آنسو بھی نہ بہایا تھا؟؟؟ یہ میں لکھ ہی رہی تھی ، میں نے موبائل فون ایک جانب رکھا ، بابا کے پاس گئی، اور بے جھجھک پوچھ لیا کہ بابا آپ کبھی روۓ ہیں؟؟ انھوں نے میری جانب ترچھی نگاہوں سے دیکھا !! ہائیں؟؟ یہ کیا پوچھ رہی ہو؟ ہنستا مسکراتا ہوا باپ اچھا نہیں لگتا جو رونے کی بات کر رہی ہو؟؟؟ میں نے کہا بابا میں سب میں پوچھ رہی ہوں؟؟ آپ کبھی روتے بھی ہیں؟؟ بابا نے کہا بیٹا الحمدللہ ، اللہ تعالیٰ نے حالات اچھے رکھے ہیں ،رونے کی ضرورت نہ پڑی۔ کبھی تکلیف ہوتی بھی ہے تو نہیں روتا ، آنسوؤں کو بچا کر رکھا ہے۔۔ تیری شادی میں جو رونا ہے !؟؟ میری پیاری بچی میں تیری شادی میں بہت رونے والا ہوں!!!بابا نے تو اتنا بورنگ قسم کا جواب دیا۔۔ ۔۔ اتفاق سے میرے ماموں جان کی کال آئی تھی، میں نے ماما سے پوچھا ، انھوں نے جواب دیا کہ بھلا میں کوئی لڑکی ہوں جو رونے لگ جاؤں؟؟؟میں نے ان دونوں کے جوابات بھی لکھ دیے۔۔ لیکن ماموں کی بات کا بہت غصہ آیا کہ ،
میری نظر میں رونا یا اپنے غموں اور دکھوں کا اظہار اپنے آنسوؤں سے کرنا ،ہار ماننا ہی نہیں ہوتا ۔۔یا جو کوئی رو پڑا وہ ہار گیا ، ایسا نہیں ہوتا ہارآنسو بھی احساس ہوتے ہیں، ۔۔ میں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ آنسوؤں سے اپنے احساسات جڑے ہوتے ہیں، آنسو بھی ایک احساس ہیں، جو مرد حضرات کے پاس نہیں ہوتا، نہیں ہوتا، ہزار بار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں نے غصہ میں موبائل فون ، پلنگ پر پٹک دیا۔۔۔ اتفاق کہ میرا بھائی آیا ، کہنے لگا ،کہ سنا ہے آج کل دن رات کا سارا وقت مضامین ہی لکھتی رہتی ہو؟؟؟
میں: ہمم، تو
بھائی: کتنے دنوں سے لکھ رہی ہو؟ کچھ فائدہ بھی تو ہو ؟ بخار اترا بھی کہ نہیں ؟
میں: یہ بخار نہیں ہے!!! اور اب مضمون نویسی زندگی کا ساتھی ہے بسسسس ۔
بھائی: اوووو جذباتی( ہنستے ہوئے)
میں :دیکھو تم یہاں سے جاؤ ، ورنہ میں
بھائی: ورنہ میں روؤں گی،ہے نا ۔۔ روتا منہ۔۔ اچھا میں نے سنا ہے، کہ تمہارے ان غریب سے مضامین کو ابھی تک کتنے لوگوں نے پڑھا !!
بھائی: اچھا کھولو تو اسے دیکھیں گے کیا لکھا ہے محترمہ نے؟؟؟
بھائی نے میراموبائل فون لیا اور لکھے ہوئے تصانیف پڑھنے لگے ۔
میں: بھائی ،آپ نا بہترین تصانیف سے کچھ پڑھ لو ، تازہ اشاعت ہرگز مت پڑھنا، وہ آپ کو پسند نہیں آئیں گے۔۔مجھے ڈر تھا کہ بھائی کہیں ، یہ تصنیف نہ پڑھ لیں۔؟؟
بھائی۔۔ تازہ اشاعت ، دیکھیں تو کون کونسے ہیں؟؟؟
اچھا! مرد کے آنسو۔۔۔
اچھا یہی پڑھ لوں گا، مرد کے آنسو۔۔
میں۔۔ بھائی یہ مت پڑھنا ،بہت بور ہے۔۔
بھائی۔۔۔ اب تو یہ ہی پڑھوں گا۔۔
میں کیا کرتی ، میں نے تو کہا بھی کہ مت پڑھے، اب اپنی ہی برائی، بھائی اپنے ہی آنکھوں سے پڑھیں گے! اب تو میری شامت آگئی۔۔۔میں وہاں سے رفو چکر ہو نے لگی لیکن جاتے جاتے بھائی سے کہا کہ بھائی ،غصے میں میرا موبائل فون ادھر پلنگ پر ہی پٹک دو، دیوار پر یا زمین پر مت پھینکنا کیونکہ بابا نے نیا ہی دلایا ہے!!! میں وہاں سے ایسے بھاگ گئی جیسے مجھے سانپ سونگھ گیا ہو؟؟ لیکن مجھے ابھی بھی یوں ہی لگتا تھا کہ مرد حضرات کو کوئی احساس نہیں ہوتا، وہ بے حس ہوتے ہیں۔۔۔ انہیں درد نہیں ہوتا۔۔۔مجھے لگا کہ ، اب بھائی غصہ ہوکر بابا یا امی سے میری شکایت ضرور لگائیں گے۔۔ لیکن،
نہ وہ غصہ ہوئے نہ ہی کچھ کہا، میں نے دیوار سے جھانک کر دیکھا تو ان کے آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے،مجھے کچھ شرمندگی ضرور تھی۔۔۔ ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ میں بھی جذباتی ہوگئی اور رونے لگی، بھائی نے کہامیں نے کہا بھائی آپ کے لیے ، چائے بناؤں ؟؟ میں اب سے ایک کی بجائےدو چوٹیاں بناؤں گی، تاکہ آپ دونوں کھنچ سکو۔۔ اب تک آپ نے مجھے سر پر پانچ بار مارا تھا نا زیادہ ۔ یاد آیا ہاں وہ تھپڑوں کی ادھاری ؟؟میں معاف کردوں گی !! بابا سے ایک دن تمہاری شکایت نہیں لگاؤں گی! نہ ہی تمہاری ویڈیوز!! اچھا یہ ابھی لکھی ہوئی تحریر حذف( delete) کردوں گی ،سواری نا بھائی۔۔ اب زیادہ بھاؤ مت کھاؤ نا ۔۔۔۔بھائی نے ان کا موبائل فون ایک جانب رکھا اور زوروں سے ہنسنے لگے، تب مجھے پتہ چلا کہ وہ رو نہیں رہے تھے، رونے کا ڈھونگ رچا رہے تھے!!!
میں نے غصہ میں بھائی کو سات آٹھ تو مارے ہی، اس کے بال بھی کھینچے۔۔ اب کچھ غصہ ٹھنڈا ہوا تو ایپ پر چیک کیا بھائی نے پہلے ہی میری تحریر حذف( delete ) کردی تھی۔۔
اب ان پر غصہ کا اظہار کرنا چاہ رہی تھی لیکن وہ باہر جاچکے تھے۔۔
میں نے یوں ہی واٹس ایپ کھولا تو کیا دیکھاکہ میری تحریر کی ان کے موبائل فون سے فوٹو لی گئی ہے، اور میرے ندامت بھرے الفاظ کی ویڈیو فیملی گروپ پر ڈال دی۔۔۔ میں نے چیخ چیخ کر کہا بھائی اب تو اس سے بھی برا بھلا لکھوں گی، آپ کی شکایت۔۔۔۔
لیکن بھائی گھر میں تھے ہی نہیں!!

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close