किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

مجھے ایک آف لائن ماں چاہیے۔۔۔’’ڈیجیٹل دور کی ماں‘‘سے معصوم بچے کی فریاد

تحریر: پٹھان شریف خان
9422409471

ماں…
ایک ایسا لفظ جو لبوں پر آتے ہی دل کو ایک عجب ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔
ماں صرف ایک رشتہ نہیں، بلکہ وہ خالص ترین محبت ہے جو دنیا کے کسی اور تعلق میں نظر نہیں آتی۔
ماں وہ ہستی ہے جس کی گود میں دنیا کی سب سے پرسکون نیند آتی ہے،
جس کے لمس میں شفا چھپی ہوتی ہے،
اور جس کی دعا میں وہ تاثیر ہوتی ہے جو تقدیر بھی بدل دے۔
اور ہاں، وہی ماں جو ہر درد کو محسوس کر لیتی تھی،وہ جو میری ہچکیوں سے میری پیاس جان لیتی تھی،
جو میری آنکھوں کے نیچے سوجن دیکھ کر میری رات کی بے خوابی کو بھانپ جاتی تھی…
مجھے وہی ماں دوبارہ چاہیے!
لیکن اب وہ ماں کہیں کھو گئی ہے…
یا شاید وہ میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی میرے پاس نہیں رہی۔
آج میری ماں میرے کمرے میں ہوتی ہے، مگر اُس کی نظریں کسی "ریلز” پر جمی ہوتی ہیں،
وہ میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے کے بجائے موبائل پر انگلیاں گھماتی رہتی ہے۔
میں اُس کے پہلو میں بیٹھا ہوتا ہوں، لیکن اُس کی سوچ کہیں اور، کسی اور "لائیو” میں الجھی ہوتی ہے۔
جو ماں پہلے مجھے لوریاں دیتی تھی، وہ اب یوٹیوب پر کسی بلوگر کی ویڈیو پر تبصرہ کر رہی ہوتی ہے۔
پہلے وہ میرا حال پوچھتی تھی، اب وہ وائی فائی کا پاسورڈ مانگتی ہے۔

ماں!
مجھے وہ دن یاد ہیں جب آپ میرے ساتھ بیٹھ کر ٹفن تیار کرتی تھیں،
میرے بستے کو صاف کرتی تھیں،
میرے ہر امتحان پر مجھ سے زیادہ فکرمند ہوتی تھیں۔
لیکن اب جب میں خوشی خوشی بتاتا ہوں کہ "ماں! میں آج فرسٹ آیا ہوں”،
تو آپ کہتی ہیں:
"اچھا؟ ایک منٹ… یہ میسج مکمل کرلوں!”
ایسا کیوں ہے ماں؟
آپ نے تو کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو میرے قریب سے ہٹا نہیں سکتی،
پھر یہ چھوٹی سی اسکرین کیسے آپ کو مجھ سے دور لے گئی؟
کب آپ نے مجھے چھوڑ کر ورچوئل دنیا کی آغوش اپنالی؟
پہلے آپ مجھے ڈانٹتی تھیں کہ "فضول وقت برباد مت کرو!”
اب دل چاہتا ہے کہ میں ہی کہوں:
"ماں! بس کرو نا… تھوڑی دیر کے لیے میرے ہو جاؤ!”
مجھے وہ ماں چاہیے…
جو شام کو دروازے پر کھڑی ہو کر میرا انتظار کرتی تھی،
جو مجھے گلے لگا کر چومتی تھی،
میرے جوتے اتارتی، میرا بستہ سنبھالتی،
اور کہتی: "آج میرے شیر نے کیا کارنامہ کیا؟”
اب وہی ماں فیس بک یا یوٹیوب پر نیوز کلپس دیکھ کر کہتی ہے:
"اُف، دنیا کتنی خراب ہو گئی ہے!”
مگر یہ نہیں پوچھتی کہ میرے اندر کیا چل رہا ہے۔
پہلے آپ میرے آنسو دیکھ کر بے چین ہو جاتی تھیں،
اب میرے چہرے کا زرد رنگ بھی آپ کی نظر سے اوجھل ہے،
کیونکہ آپ کی نظریں اب مجھ پر نہیں،
اسکرین کی ان روشن روشنیوں پر مرکوز ہیں،
جو نہ آپ کو سکون دیتی ہیں، نہ مجھے۔
ماں! مجھے ایک آف لائن ماں چاہیے…
ایسی ماں جو ڈیٹا پیک کے بجائے میرے جذبات کو اپڈیٹ کرے،
جو نوٹیفکیشن بند کرکے میری آواز سنے،
جو میری کہانیوں میں دلچسپی لے،
اور پھر وہی پرانی لوری چندہ ماما دور کے ۔۔۔۔۔۔۔۔سنا کر مجھے سلا دے…
مجھے وہ لمحے واپس چاہیے ماں…
جب آپ مجھے گود میں لے کر آسمان کے تارے گنتی تھیں،
جب میرے خوابوں کی دنیا میں صرف آپ کی آواز گونجتی تھی۔
ماں!
میں جانتا ہوں، آپ بھی تھک گئی ہیں…
آپ بھی زمانے کی تیز رفتار ٹیکنالوجی میں بہک گئی ہیں…
لیکن کیا تھوڑی دیر کے لیے صرف تھوڑی دیر کے لیے ۔۔
آپ پھر سے میری ماں بن سکتی ہیں؟
بس میرے لیے… مکمل، سچی، بے لوث…
اور آف لائن ماں؟
ماں ایک جذبہ ہے،
لیکن جب ماں بھی مشینوں میں مصروف ہو جائے تو اولاد کہاں جائے؟
بچپن کسی بھی انسان کی زندگی کا سب سے نایاب، سب سے حسین دور ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے ترقی کی،
مگر اس ترقی کی دوڑ میں وہ بھول گیا کہ بچوں کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ماں باپ کی توجہ، ان کا لمس، اور ان کے ساتھ گزارا ہوا وقت ہے۔
اے میری ڈیجیٹل ماں!
یاد رکھو ! بچے آپ کی باتوں سے نہیں، بلکہ آپ کے عمل سے سیکھتے ہیں۔
اگر آپ خود وقت نہیں دیں گی تو آنے والی نسلیں بھی اس دائرے میں گم ہو جائیں گی۔
آج تھوڑی دیر کے لیے موبائل بند کیجیے،
اپنے بچوں کو سینے سے لگایئے،
ان کے بچپن کو محفوظ اور روشن بنایئے
تاکہ کل کو ایک خوبصورت اور باشعور معاشرہ جنم لے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے