किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

متنازع وقف بل کی منظوری’پلاسی‘ اور ’بکسر‘ کی شکست کے مترادف

تحریر: ندیم عبدالقدیر

قوموں کا برباد ہوجانا، شہروں کا لْٹ جانا،سب کچھ تباہ ہوجانا شاید اسے ہی کہتیہیں ۔ متنازع وقف ترمیمی قانون ایک ایسی تباہی اور بربادی کی شروعات ہے جس کا شاید ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں ہے۔ یہ قانون ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں وہی حیثیت رکھتا ہے جوپلاسی اور بکسر کی جنگ کی شکست رکھتی ہے۔۷۵۷۱ء￿ میں نواب سراج الدولہ پلاسی کے مقام پر ایک تاریخی جنگ میں بنگال ہار گئے اور اس کے سات سال بعد بکسر کے مقام پر انگریزوں کے ہی ہاتھوں نواب شجاع الدولہ پورا خطہ اودھ گنوا بیٹھے۔ ان دونوں شکست نے شمالی ہندوستان سے مسلمانوں کے سنہری دورِ حکمرانی کا تقریباً خاتمہ کردیا۔ایسا خاتمہ کہ اس کے بعد مسلمان اپنی اس عظمت کو دوبارہ کبھی نہیں پاسکے۔ ان جنگوں کی شکست نے مسلمانوں کو اس قدر گہرے زخم دئیے کہ آج تک وہ زخم مندمل نہیں ہوسکے۔ان جنگوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی سج دھج ، وقار، آن بان، عزت ،عظمت، مرتبہ ، شان و شکوہ ،جاہ و حشم اوررعب و دبدبہ سب کچھ تباہ کردیا۔اس کے بعد ہندوستانی مسلمانوں پرذلت کی وہ تاریک رات چھائی جس کی صبح آج تک نہیں ہوسکی۔ جس طرح پلاسی اور بکسر کی جنگ میں شکست کے وقت مسلمانوں کوشاید آنیوالی بربادی کا ادراک نہیں تھاکہ اس کے اثرات کس خطرناک ہونگے ، شاید آج متنازع وقف ترمیمی قانون کے بارے میں بھی مسلمان اس قانون کی ہولناکی اور خوفناکی کا تصور نہیں کرپارہیہیں۔ وقف کے نئے متنازع قانون کے اثرات بھی مسلمانوں پر اتنے ہی بھیانک ہونگے جتنے کے پلاسی اور بکسر کی شکست کے ہوئے ۔
یہ قانون ہندوستان میں مسلمانوں کی دیڑھ لاکھ سے زیادہ مساجد ، ایک لاکھ سے زائد مدرسوں، دیڑھ لاکھ سے زائد زرعی زمینوں، لاکھوں خالی اراضی، مکانات اور دکانوں کو مسلمانوں سے چھیننے کاراستہ صاف کردیتا ہے۔ یہ قانون ایک ڈسٹرکٹ کلکٹر (جو یقینا غیر مسلم ہی ہوگا) کو اس قدر اختیارات دے دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی جانب سے لگائے گئے جھوٹے الزامات کو ہی سچ قرار دے کر وقف کی زمین مسلمانوں سے چھین سکتا ہے۔ یہ قانون اسلام کی تبلیغ، ترویج اور دعوت کی راہ میںزمین وقف کئے جانے کے سلسلہ کو مسدود کردینے کی خطرناک سازش ہے۔ دین اسلام کیلئے زمین وقف کردینے کیلئے اتنی سخت شرائط عائد کردی گئی ہیں کہ مستقبل میں عام مسلمان وقف کرنے کی ہمت نہیں کریگا۔
اپنی زندگی بھر کی محنت سے خریدی ہوئی وہ زمینیں جو نیک مسلمانوں نے اللہ کے دین کو مضبوط کرنے کیلئے راہ خدا میں وقف کی تھیں ان زمینوں پر اب غیر مسلموں کے قبضے ہونگے اور کوئی حیرت نہیں کہ ان زمینوں پر ہی بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف مزید ریشہ دوانیاں بھی کی جائیں۔یہ قانون مسلمانوں پر زمینیں تنگ کردینیوالا ہے۔ مسلمانوں کی ہی زمین مسلمانوں کے ہی پیروں تلے سے کھینچ لینے والاہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مسلمانوں کے تئیں احساس انگریزوں سے بھی کہیں زیادہ سفاک ہیں۔
برطانوی حکومت کا ہم اگر آج بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی سوچ، ذہنیت اور ایجنڈے سے موازنہ کریں تو زمین آسمان کا فرق نظرآتا ہے۔انگریزوں کو کم از کم مسلمانوں کی عبادت، ان کی قربانی ، ان کی شادی، ان کے طلاق، ان کے کپڑوں ان کی داڑھی، ان کے سڑکوں پر نماز ادا کرنے وغیرہ پر کوئی اعتراض نہیں تھا ، بلکہ ہندوستان کا پہلا مذبح(سلاٹر ہاؤس) انگریزوں نے ہی تعمیر کروایاتھا۔عید میلاد النبی کے جلوس کا آغاز انگریزوں کے ہی دور میں ہوا تھا۔ انگریزوں کے ہی دور میں ہندوستان کے بڑے بڑے مدرسے قائم ہوئیجن کے اثرات پوری مسلم قوم پر آج بھی ہے۔ انگریزوں نے کبھی بھی برقع یا حجاب کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی سڑکوں پر نماز پر کوئی اعتراض کیا،لیکن ہمارا بھولا پن دیکھئے کہ ہم اْس دَور کو غلامی کا دَور کہتیہیں اور آج کے دَور کو آزادی کا دَور۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا سارا فلسفہ ہی مسلم مخالف ذہنیت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ بی جیپی اپنی اس ذہنیت میں اس قدر سخت ہے کہ پارٹی نے پارلیمنٹ میں بے تحاشا جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ اس قانون کووضع کرنے کیلئے حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ میں جی بھر کیدروغ بیانی سے کام لیاگیا۔
متنازع وقف قانون کیلئے ہونے والی بحث میں بی جیپی کے وزیر ’کرن ریجی جو‘ اور وزیرداخلہ’امیت شاہ‘ کے ہی بیان ایک دوسرے سے متضادتھے۔ کرن ریجی جو نے کہا کہ نئے قانون کے مطابق وقف بورڈ میں دو غیر مسلم ممبر بھی ہونگے جبکہ امیت شاہ نے کہا کہ بورڈ میں کوئی بھی غیر مسلم نہیں ہوگا۔ مسلمانوں سے وقف کی جائیدادیں چھیننے میں یہ اس قدر بے تاب ہیں کہ انہیں ہوش ہی نہیں کہ یہ ایک دوسرے کے بیان کے خلاف ہی بیان دے رہی ہیں۔
یہ قانون مکاری کا ہمالیہ پہاڑ ہے۔ اپنے دھرم اور اپنے مذہب کیلئے اپنی جائیداد وقف کردینے کا کام صرف مسلمان ہی نہیں کرتیہیں بلکہ ہر دھرم کے لوگ کرتیہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس معاملے میں تمام مذاہب کیلئے ایک جیسا ہی قانون ہوتا لیکن ہمارے ملک میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ مکاری کی انتہا یہ ہے کہ ہندوؤں کے ذریعے دھرم کیلئے وقف کی گئی زمینوں کا قانون الگ ہے اور مسلمانوں کیلئے قانون بالکل الگ۔ سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہندوؤں کے ذریعے عطیہ کردہ زمین کا انتظام دیکھنے کیلئے کوئی مرکزی ہندو’اینڈومینٹ بورڈ‘ (وقف بورڈ کے مساوی) موجود ہی نہیں ہے۔ تمام ’ہندو اینڈومینٹ بورڈ‘ ریاستی سطح پر ہیںاور کسی بھی ہندو بورڈ میں کسی غیر ہندو کو ممبر ہونے کی اجازت نہیں ہے جبکہ مکارانہ طو رپر مودی حکومت نے مسلم وقف بورڈ میں غیر ہندو کا ممبر ہونالازمی قرار دے دیا ہے۔ خواتین کواختیارات دینے کے سارے دعوے بھی مکاری کی ہی سوتے سے پھوٹتے ہیں۔ خواتین کو حقوق تفویض کرنے کے نام پر مسلم وقف بورڈ میں خواتین کی رکنیت لازمی قرار دی گئی ہے۔لگتا ہے ساری ہمدردی صرف مسلم خواتین کیساتھ ہی ہے کیونکہ ہندو اینڈومینٹ بورڈ میں خواتین کی رکنیت لازمی نہیںہیاور بی جیپی حکومت نے اسے لازمی قرار دینے کیلئے کوئی قانون بھی وضع نہیں کیا۔
مسلمانوں کی بہت سی جائیدادیں تب کی وقف کی ہوئی ہیں جب نہ ہی موجود ہ ہندوستان تھا اور نہ ہی ہمارا آئین وجود میں آیاتھا۔ اتنے پرانے وقت کی دستاویزات اور کاغذات جمع کرنا بہت ہی مشکل امرہے بلکہ کئی معاملات میں ناممکن ہے لیکن مودی حکومت نے تمام وقف پراپرٹی کے ذمہ داروں کیلئے دستاویزات پیش کرنا لازمی قرار دے دیا اور تجویزکیا ہے کہ جس کیپاس بھی کاغذات نہیں ہونگے اس سے زمین چھینی جاسکتی ہے۔ یہاں سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ ہندو وقف زمینوں کیلئے ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔
’زیر استعمال‘ زمینوں کے معاملے میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کیلئے قانون الگ ہیں۔ ہندوؤں کی زمین پر اگر کوئی مندر،مٹھ یا آشرم موجود ہے تو اس مذہبی عمارت کی موجودگی کو ہی ایک بڑی دلیل مانا جائے گا خواہ دستاویزات ہوں یا نہ ہوں، دوسری طرف مجوزہ بل میں مسلمانوں کیلئے معاملہ بالکل اس کے اْلٹ ہے۔ اگر کوئی مسجد، مدرسہ ،مزار، خانقاہ یا امام بارگاہ موجود ہے تو اس مذہبی عمارت کی موجودگی کو کوئی دلیل یا ثبوت نہیں مانا جائے گا جب تک کہ دستاویزات نہ ہوں۔یہ اس قانون کا انتہائی خطرناک پہلو ہے۔ اس کی زد میں لاکھوں مسجدیں ، مدرسے، مزاریں ، خانقاہیں اور امام بارگاہیں آسکتی ہیں۔اس کیعلاوہ وہ زمینیں جن پر اب مسلمانوں کا قبضہ نہیں ہے لیکن زمین کا مقدمہ عدالت میں زیر بحث ہے۔ ایسی زمینیں تو کلکٹر صرف ایک دستخط کرکے ہی وقف بورڈ سے چھین سکتاہے۔ایسی پراپرٹی کی سب سے بڑی مثال مکیش امبانی کامحل نما مکان’انٹیلیا‘ ہے ، جو وقف کی زمین پر تعمیر کیاگیاہے۔
قانون کی منظوری کے پورے عمل میں کچھ مثبت نظرآیا تو وہ اپوزیشن کا اتحاد تھا۔ اس کیعلاوہ بہت سے بھرم بھی کھل گئے۔ وہ چہرے بھی بے نقاب ہوگئے جو مسلمانوں کی ہمدردی کا دم بھرتے تھے اور افطار پارٹیاں کرتے تھے۔ اب نتیش کمار، چندر بابو نائیڈو اورچراغ پاسوان کی پارٹی میںصرف وہی مسلمان موجود رہیں گے جنہوں نے مکمل طو رپر اپنے ضمیر اور قومی غیرت کو چند سکوں کے عوض بیچ دیا ہے۔جن لوگوں کیلئے دنیا کی عیش و عشرت اور ان کے ذاتی مفاد اور چندروپے ہی سب کچھ ہیں!! عزت اور غیر ت سے جنہیں کوئی سروکار نہیں اور جو آج بھی میر جعفر اور میرصادق کی اولاد ہیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے