किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

قربانی عبادت اور اطاعت وفرمابرداری کی اعلیٰ مثال

تحریر: عبداللطیف ندویؔ

قربانی کا مفہوم صرف جانور ذبح کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا جامع تصور ہے جو روحانی بالیدگی، اخلاقی پاکیزگی اور سماجی فلاح کے عناصر کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی خواہشات کو اللہ کی رضا پر قربان کرے، اپنی محبوب چیز کو اللہ کے حکم کے سامنے نچھاور کر دے اور اس کے بندوں کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرے۔ ہر سال جب عید الاضحی کا موقع آتا ہے تو اہل ایمان نہ صرف عبادت کے ایک عظیم فریضے کو ادا کرتے ہیں بلکہ ایک منفرد سماجی خدمت کے جذبے سے بھی سرشار نظر آتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بعض طبقات کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قربانی گویا وسائل اور جانوروں کا ضیاع ہے۔ یہ بات وہی لوگ کہتے ہیں جو مذہب کی روح، اس کے معاشرتی و اخلاقی پہلو اور قربانی کے حقیقی مقصد سے ناآشنا ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قربانی صرف ایک رسم نہیں بلکہ ایک گہرا روحانی، اخلاقی اور سماجی پیغام رکھتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ عمل ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت کی یاد دلاتا ہے جو بے مثال وفاداری، اطاعت اور اللہ کی رضا پر ہر چیز قربان کرنے کا مظہر ہے۔
قربانی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ایک جانور کو ذبح کر دیا جائے، بلکہ اس کا اصل پیغام یہ ہے کہ انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ تسلیم کرے کہ دنیا کی کوئی شے، کوئی تعلق، اور کوئی خواہش ایسی نہیں جو اللہ کی اطاعت پر مقدم ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے اکلوتے بیٹے کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کے لیے پیش کیا، تو انہوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ بندگی کا معیار صرف زبانی دعویٰ نہیں، بلکہ عملی اطاعت اور جذبات کی قربانی ہے۔ وہ جذبہ آج بھی زندہ ہے، اور عید الاضحی کے موقع پر ہم اسی جذبے کو یاد کرتے ہیں۔اسلام میں عبادات کا تصور محض انفرادی نجات تک محدود نہیں، بلکہ ان کا دائرہ معاشرے کی بھلائی تک وسیع ہوتا ہے۔ قربانی کا گوشت جب غرباء، یتیموں، اور مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے تو یہ عمل ہمیں ایثار، ہمدردی، اور باہمی محبت کا درس دیتا ہے۔ وہ لوگ جو عام دنوں میں گوشت جیسی نعمت سے محروم ہوتے ہیں، قربانی کے موقع پر ان کے دستر خوان پر بھی رنگ آ جاتا ہے۔ اس طرح قربانی ایک مذہبی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی خدمت کا بھی عظیم ذریعہ بنتی ہے۔
اکثر ناقدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں پر جو اخراجات ہوتے ہیں، وہ اگر غرباء کو نقد دیے جائیں تو شاید زیادہ فائدہ ہو۔ یہ بات بظاہر معقول لگتی ہے مگر حقیقت میں دین اسلام صرف مادی ضرورتوں کی تکمیل کا نام نہیں، بلکہ روحانی مقاصد کا بھی داعی ہے۔ اگر صرف پیسہ خرچ کرنے سے اللہ کی رضا حاصل ہو جاتی تو حج کی مشقت، نماز کی پابندی، روزے کی بھوک و پیاس، اور قربانی کی آزمائش کیوں رکھی جاتیں؟ عبادت میں قربانی، ایثار اور تسلیم و رضا کی جو کیفیت مطلوب ہے، وہ صرف مالی امداد سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں جانور خوراک کے لیے ذبح ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف تجارتی نفع اور خوراک کی ضروریات کی تکمیل ہوتا ہے، اور اکثر ان جانوروں کی پرورش، ذبح اور گوشت کی تقسیم کے عمل میں نہ صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اخلاقی پہلو کا۔ جبکہ اسلامی قربانی میں جانور کی پرورش سے لے کر اس کے ذبح اور گوشت کی تقسیم تک، ہر قدم اللہ کے حکم کے مطابق، صفائی، نیت، اور خیرخواہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم تجارتی بنیاد پر ذبح کیے گئے جانوروں کو دیکھیں تو نہ اس میں خلوص ہوتا ہے، نہ عبادت کا پہلو، اور نہ ہی غرباء کی بہبود۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسلام میں ہر عبادت ایک مکمل تربیت کا ذریعہ ہے۔ نماز ہمیں وقت کی پابندی، خشوع و خضوع اور تعلق باللہ سکھاتی ہے۔ روزہ ہمیں صبر، تقویٰ اور بھوکوں کا احساس دلاتا ہے۔ زکوٰۃ مال کی پاکیزگی اور سماجی مساوات کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے ہم اپنی پسندیدہ چیز بھی قربان کر سکتے ہیں، اور اپنے مال و وسائل میں دوسروں کا حق پہچانتے ہیں۔ یہ تربیت معاشرے میں ایثار، عدل، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتی ہے۔بعض جدید ذہن رکھنے والے افراد قربانی کو صرف ایک ظاہری عمل سمجھ کر رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسے فرسودہ رسم یا دقیانوسی طریقہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے ہر عبادت کے پیچھے ایک فلسفہ رکھا ہے، اور قربانی کا فلسفہ بھی اتنا ہی گہرا اور بامعنی ہے جتنا کہ نماز یا روزے کا۔ اگر ہم عبادات کو صرف معاشی یا جسمانی فائدے کی نظر سے دیکھیں تو دین کے اصل مقصد سے ہم دور ہو جائیں گے۔ قربانی دراصل وہ دروازہ ہے جس سے ہم اپنے رب کے قریب ہوتے ہیں، اور اپنی انا، خودغرضی، اور دنیا پرستی کو ذبح کرتے ہیں۔
قربانی کا عمل ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ دنیاوی مال و اسباب فانی ہیں، اور اصل کامیابی اس میں ہے کہ ہم اللہ کی رضا کو حاصل کریں۔ ایک مومن کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو، اور وہ عبادت کے ہر عمل میں خلوص نیت کے ساتھ شریک ہو۔ یہی خلوص، یہی نیت، اور یہی جذبہ قربانی کو ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت بناتا ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں عبادات، معاملات، اخلاق، اور معاشرت سب شامل ہیں۔ قربانی اس نظام کا ایک اہم اور پراثر ستون ہے، جو نہ صرف ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی تسلیم و رضا کی یاد دلاتا ہے بلکہ نبی کریم ؐکی سنت کی پیروی کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ نبی اکرم ؐ نے خود قربانی کی اور امت کو اس کا حکم دیا، اور اس عمل کو امت مسلمہ کیلئے قیامت تک ایک دائمی عبادت بنا دیا۔
لہٰذا قربانی کے بارے میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کو علم و فہم، ادب و اخلاق اور دلیل سے جواب دینا ضروری ہے۔ یہ سمجھانا ہوگا کہ قربانی صرف ایک مذہبی رسم نہیں، بلکہ یہ انسان کی خودی، مال کی محبت، اور دنیاوی مفادات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا عملی مظہر ہے۔ جو شخص اس عبادت کی اصل روح کو سمجھ لیتا ہے، اس کے لیے قربانی ایک سعادت، فخر اور رحمت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔قربانی کا موسم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں صرف جانور نہیں ذبح کرنے، بلکہ اپنی انا، نفسانی خواہشات، حسد، بغض، لالچ، اور دنیا پرستی کو بھی قربان کرنا ہے۔ یہی قربانی کی اصل روح ہے، اور یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں حقیقی معنوں میں "مسلمان” بناتا ہے۔ اگر ہم اس جذبے کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، تو نہ صرف ہماری عبادات بامعنی ہوں گی بلکہ ہمارا معاشرہ بھی ایثار، محبت، اور اخوت کی جیتی جاگتی تصویر بن جائے گا۔

 

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے