किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

قانون کی چوکھٹ پر ملت کی امانت

تحریر: عرفان قادری
جنرل سکریٹری مسلم مجلس اترپردیش

سپریم کورٹ میں زیر سماعت وقف املاک سے متعلق ایک انتہائی حساس اور اہم مقدمے نے ملک کے قانونی اور سماجی حلقوں میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ یہ صرف ایک قانونی معاملہ نہیں، بلکہ ہندوستان کی اقلیتی برادری، بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور تعلیمی تشخص سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ وقف کا نظام اسلامی روایت میں ایک مقدس، غیر منافع بخش اور فلاحی ادارے کے طور پر تسلیم شدہ ہے، جسے صدیوں سے عوامی فلاح، تعلیم، عبادت گاہوں کی تعمیر و نگہداشت اور یتیموں و مساکین کی خدمت جیسے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ، اس مقدس ادارے کو انتظامی بدعنوانی، سیاسی مداخلت، اور طاقتور حلقوں کے لالچ نے کھوکھلا کر دیا ہے۔
ملک کے مختلف حصوں میں وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضے، غیر قانونی لیز، فرضی سودے اور جعلسازیوں کی خبریں عام ہو چکی ہیں۔ کئی جگہوں پر خود سرکاری ادارے یا ان کے افسران ان املاک پر قابض پائے گئے ہیں۔ یہ محض جائیداد کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کے اعتماد، وقار اور اجتماعی مفاد کا سوال ہے۔ ایسے حالات میں جب عدالت عظمیٰ اس معاملے پر غور کر رہی ہے، تو یہ سماج کے لیے صرف ایک عدالتی کارروائی نہیں بلکہ ضمیر کی بیداری کا لمحہ بھی بن چکی ہے۔ کیا واقعی ریاستیں اور حکومتیں وقف املاک کے تحفظ کو سنجیدگی سے لے رہی ہیں؟ کیا وقف بورڈز کو خود مختار اور بااختیار ادارے بنانے کی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے؟ کیا بدعنوان افراد، خواہ وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری، ان کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کی جا رہی ہے؟ یا یہ صرف رسمی کاروائیاں اور خانہ پْری ہیں؟
وقف املاک کے تقدس کو برقرار رکھنا صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ پورے ملک کی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ جب عدالت یہ کہتی ہے کہ یہ جائیدادیں عوامی فلاح کے لیے مخصوص ہیں، تو یہ کسی خاص مذہب کے فائدے کی بات نہیں بلکہ ایک اجتماعی سماجی بہبود کا تصور ہے۔ تعلیمی ادارے، اسپتال، یتیم خانے، مدارس، لائبریریاں اور دیگر فلاحی ادارے جب ان جائیدادوں سے چلتے ہیں تو پورا معاشرہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ کیا ہم اتنی بنیادی اور اہم چیز کے تحفظ میں بھی ناکام رہیں گے؟بدقسمتی سے وقف بورڈز، جنہیں ان املاک کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اکثر خود بدعنوانی، نااہلی، یا سیاسی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔ وقف املاک کا کوئی منظم، شفاف اور جدید ڈیجیٹل ریکارڈ اکثر دستیاب نہیں ہوتا۔ بعض ریاستوں میں تو ایسی املاک کے وجود سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے، یا انہیں حکومت کی عام جائیدادوں میں شمار کر کے بیچنے یا کرایہ پر دینے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کیا یہ رویہ انصاف پر مبنی ہے؟ کیا یہ آئین میں دی گئی اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی روح سے میل کھاتا ہے؟
یہ وقت ہے کہ ملت اسلامیہ ہند اپنے اندر ایک نیا عزم، نئی ہوش مندی اور اجتماعی بیداری پیدا کرے۔ ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار ضرور ہے، مگر اس سے پہلے ہمیں خود اپنے اداروں، اپنے بورڈز، اپنے مقامی رضا کاروں اور اپنے نوجوانوں کو تیار کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کب تک صرف رد عمل کی پالیسی پر چلتے رہیں گے؟ کب ہم عملی اقدامات کے لیے تیار ہوں گے؟ کیا ہم ہر ضلع میں وقف املاک کا شفاف ڈیجیٹل ریکارڈ بنانے اور اسے عام کرنے کے لیے مہم چلا سکتے ہیں؟ کیا ہم مقامی سطح پر عوامی نگرانی کے سیل قائم کر کے ان املاک کی حفاظت کو یقینی بنا سکتے ہیں؟
اس کے ساتھ ہمیں تعلیمی اور دینی اداروں میں وقف کے تصور، اس کی تاریخ اور اس کی افادیت پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ نئی نسل کو اگر اس امانت کی اہمیت کا شعور نہ دیا گیا، تو آئندہ اس کے تحفظ کی امید بھی کمزور پڑ جائے گی۔ مساجد، مدارس، کانفرنسوں، خطبوں اور دینی اجتماعات میں اس مسئلے کو باقاعدہ موضوعِ خطابت بنایا جانا چاہیے۔ کیا علمائے کرام، مفکرین، اور دینی قائدین اس اہم فریضے کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟میڈیا کا کردار بھی اس موقع پر کلیدی ہو سکتا ہے۔ اگر میڈیا صرف کرپشن یا تنازعہ کی سرخی بنا کر کام کرے گا تو عوام کے اندر مایوسی بڑھے گی۔ لیکن اگر وہ اس عدالتی کارروائی کو ایک اصلاحی، تعمیری اور امید افزا پیش رفت کے طور پر پیش کرے، تو اس سے عوامی اعتماد بحال ہوگا۔ کیا ہم اپنی صحافت کو اس رخ پر لانے کے لیے منظم دباؤ ڈال سکتے ہیں؟ کیا ملت کے نوجوان سوشل میڈیا پر اس پیغام کو مؤثر انداز میں پھیلانے کے لیے تیار ہیں؟سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہمیں ایک داخلی اصلاحی عمل کا آغاز کرنا ہوگا۔ وقف بورڈز کو سیاسی اثر سے پاک اور عوامی نگرانی کے تابع بنانا ہوگا۔ ان کے کام کاج کا شفاف احتسابی نظام قائم کرنا ہوگا۔ ریاستی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ وقف قوانین میں ضروری ترامیم کریں اور ان اداروں کو محض خانہ پری کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ کیا ہم ایسے عملی مطالبات کو عوامی سطح پر منظم انداز میں پیش کرنے کے لیے تیار ہیں؟
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ وقف املاک کے تحفظ کی جدوجہد صرف ایک قانونی یا تنظیمی معاملہ نہیں، یہ درحقیقت ایک فکری، سماجی اور دینی فریضہ ہے۔ جو قوم اپنی امانتوں کی حفاظت نہیں کر سکتی، وہ اپنی شناخت کا تحفظ کیسے کرے گی؟ سپریم کورٹ میں جاری سماعت ہمیں آئینی، قانونی اور اخلاقی بنیادوں پر اپنے موقف کی صفائی کا موقع دے رہی ہے۔ کیا ہم اس موقع کو صرف تماشائی بن کر گنوا دیں گے؟
یہ وقت احتجاج سے زیادہ تعمیر کا ہے۔ سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ لائحہ عمل دینے اور اس پر عمل کرنے کا ہے۔ ملت کو چاہیے کہ وہ اپنے نمائندہ اداروں پر دباؤ ڈالے کہ وہ سنجیدہ، بااثر، اور مربوط قانونی اور انتظامی کوششیں کریں۔ جہاں کہیں وقف جائیداد پر قبضہ ہو، وہاں ثبوت کے ساتھ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ جو وقف بورڈز اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں، ان کے خلاف عوامی احتسابی مہم چلائی جائے۔
یہ مقدمہ صرف ایک معاملہ نہیں، ایک تحریک کی شروعات ہے۔ ایک ایسا موقع ہے جو ہمیں قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی، اور اقلیتوں کے مذہبی تشخص کے تحفظ کا پیغام دیتا ہے۔ اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا، تو شاید کل ہمارے پاس شکایت کرنے کو بھی کچھ باقی نہ رہے۔ لیکن اگر ہم آج متحد ہو کر، سنجیدگی سے، دانشمندی کے ساتھ میدان میں اترے، تو یقین جانیے صرف وقف املاک ہی نہیں، پوری ملت کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔تو کیا ہم اس جدوجہد کو صرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر چھوڑ دیں گے؟ یا خود اپنے کردار کی تشکیل کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے؟ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے