किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

فیض احمد فیضؔ نے ترقی پسندی کو نئی جہت عطاکی

ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندوی

فیض احمد فیض کی وفات 19نومبر 1984ء میں ہوئی۔ والد کا نام سلطان احمد خان تھا جو شہر کے رئیسوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ گھر کا ماحول نہایت ہی ادبی و علمی تھا۔ جس سے فیض ؔ کو ابتدائی تعلیم حاصل کرنے میں کہیں کسی طرح کی دشواری پیش نہیں آئی۔ والد محترم کی طرف سے تعلیم حاصل کرنے کیلئے پوری طرح اجازت تھی۔ جس سے فیض کے اندر علم حاصل کرنے کی چاہت شب و روز بڑھتی چلی گئی۔
تقسیم ہند کے بعد ترقی پسند ی کی حیثیت ثانوی تسلیم کی گئی لیکن اس کی جمالیت ہنوز باقی تھی۔ اس حیثیت سے اس کے اثرات دور تک اور دیر تک ہوتے رہے۔ میرا ماننا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد1970سے پہلے تک کے اہم شعراء اس تحریک کے پروردہ ہیں۔ مثلاً سردار جعفری، مخدوم محی الدین، فیض احمد فیض، اسرار الحق مجاز، جمیل مظہری، معین احسن جذبی، مجروح سلطان پوری، فراق گورکھپوری ، ساحر لدھیانوی ، کیفی اعظمی، پرویزشاہدی، احمد ندیم قاسمی اور دیگر غزل گو شعراء اس تحریک کے نمائندہ شعرا ء ہیں۔ ان لوگوں میں مجروح کے سوا جو بھی تھے سب کے سب ترقی پسندی کی نظریاتی اور انقلابی فضائوں میں نظم گوئی کو اپنے اظہار کا موثر ذریعہ بنایا تھا۔ ان لوگوں کو اس میں کامیابی بھی ملی۔ اس سب کے باوجود یہ لوگ غزلیں بھی کہہ لیا کرتے تھے۔ غزلیہ شاعری کے تعلق سے یہ زمانہ ذرا مشکل تھا پھر بھی مخدوم، مجروح ، جمیل مظہری، فراق ، جذبی، مجاز اور فیض نے غزلیہ شاعری میں اسالیب کا ایک نیا نقش پیدا کیا۔ تعجب ہے ان لوگوں نے کلاسیکی لفظیات میں ہی رنگ و آہنگ کا ایک ایسا اسلوب اخذ کیا جو ہر اعتبار سے ماقبل شاعری میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں اشعار پیش کرنا ضروری نہیں اسے ہر اہل نظر محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے اس سے قطع تعلق میرا خیال ہے کہ ترقی پسند شاعری کی تکنیک ہمیں دو طرح کے اسلوب سے آشنا کراتی ہے۔ اسے ہم اجتماعی اسلوب اور انفرادی اسلوب کہہ سکتے ہیں۔
اجتماعی اسلوب فنکار کا ایک ایسا اسلو ب ہوتا ہے جسے فنکار اپنے عہد کے رجحانوں کی پیروی میں اخذ کرتا ہے۔ اس تعلق سے فنکار اپنے موضوعات کو پیش کرتے ہوئے میلان و رجحان یا پھر اپنے زمانے کی تحریک کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ محتاجی معاصرین کے مزاج ، لہجہ اور موضوع سے قدر مشترک ہم آہنگی کی وجہ سے راہ پاتی ہے۔ انفرادی اسلوب کا تعلق فنکار کی ذات سے ہے۔ جو ہر لکھنے والے کا بنیادی وصف ہوا کرتا ہے۔ اپنے اس وصف یا طرز اد ا کی بنیاد پر ہی فنکار کیا کہتا ہے؟ اور کیسے کہتا ہے؟ کو ملحوظ رکھتا ہے۔ اس طرح ہر فنکار اپنا ایک علاحدہ اسلوب خلق کرتا ہے۔ فیض کے تعلق سے یہ باتیں اس لئے بھی اہم ہیں کہ آج تک انہیں ترقی پسندنظریوں کے وسیع کینوس میں ہی دیکھا جاتا رہا۔ ارباب ادب نے دنیا کی تمام جذباتی شاعری میں ایک بات قدر مشترک تسلیم کیا ہے کہ شاعر اور سامع کے جذبات کی ملی جلی صورتیں ہی اہم اور وقیع ہیں کہ ہر دور کا اپنا اک تقاضا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعری شاعر کی جان ہوا کرتی ہے ا س لئے اس کی قدر ومنزلت لازمی ہے۔ ہمیں اس کا احساس ان کے اسلوب سے ہوتا ہے کہ اسلوب ہی شاعری اور شاعر کے خصائص کو واضح کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فیض کی غزلیہ شاعری میں تراکیب لفظی، صرفی، نحوی اور صنائع و بدائع کی تکنیک میں ایک انفرادی رنگ ہے۔ یہ رنگ ان کی شاعری کے داخلی خصائص کو بھی واضح کرتا ہے۔
پچھلے ساٹھ ستر سالہ دور کے اندر جو غزلیہ شاعری کا مزاج ہے اس میں فراق کے بعد سب سے اہم رول فیض کا ہے۔ اس لئے کہ فیض نے حالات کی جبریت کا احساس جھیلا ہے۔ سماج میں افراد کے باہمی رشتوں کو محسوس کیا ہے۔ شہری زندگی میں شخصیت کا کچلا جانا، پرسکون گاوں کی فضائو ں میں زہر آلودگی اور سرمایہ دارانہ نظام کی کرامت سب فیض کی آنکھو ں کے سامنے تھے۔ یہ ساری باتیں فیض کے معاصرین نے بھی محسوس کیں لیکن جیل کی سلاخوں سے لگاتار دیکھتے رہنا کسی کے بس کا نہ تھا کہ ’’خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے‘‘۔ ان کا یہ رویہ حالات کی جبر کو پیہم جھیلتے رہنے سے پیدا ہوا ہے۔ وہاب ا شرفی ساقی فاروقی کی ایک رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’حشر کے میدان میں فیض واحد ترقی پسند شاعر ہیں جو سرا ٹھاکر چل سکتے ہیں‘‘ اور خلیل الرحمن اعظمی کا ماننا ہے کہ ’’ان کی شاعری میں خون جگر کی نمود کچھ اس طرح ہوئی کہ خالص ادب کے پرستاروں نے بھی ان کی فنی اور جمالیاتی خوبیوں کا اعتراف کیا ہے ‘‘۔
مختصر یہ کہ فیض رمزیہ اسلوب کے وسیع دائرہ میں رہ کر شعری لوازم کو برتنے کی تکنیک کو بحسن و خوبی سمجھتے تھے۔ ورنہ روایتی لفظیات و علائم، تشبیہات و استعارات اور علامتوں کی پیکر تراشی میں غزلیہ شاعری کے مروجہ لغت سے انحراف کی صورت پیدا ہی نہیں ہوتی۔ ان کی شاعری کی جو لفظیات ہے اسے اردو غزل کے شعرا ابتدا سے ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن فیض نے تجربے کی صداقت، تخیل کی انفرادیت اور شخصیت کی آنچ سے محض روایتی نہیں رکھا تو اس کا جواز کیا ہے؟ یہ شاعر کا اسلوب ہے جو رمزیت کے صد رنگ پیرائے میں ادا ہوا ہے۔ فیض کے یہاں ایسے اشعار بھی ہیں جس کی معنویت قدیم تصورات کو پیش کرتے ہیں۔ لیکن فیض کی شعری تکنیک سامع یا قاری کے ذہنوں کو قدیم تصورات سے گریز کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اس لئے فیض کو رمزیہ اسلوب کا متحرم شاعر تسلیم کیا جانا چاہئے۔ 19نومبر 1984ء کو فیضؔ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے