किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

فلسطینی وفی: زیتون اور ماہی گیری کے جال میں پنہاں مزاحمت

حسنین جمال

اگر زیتون کے درختوں کو خبر ہوتی
کہ
جن ہاتھوں نے انہیں زمین میں لگایا
ان کا انجام کیا ہوا
تو
ان کے پھلوں سے نکلتا ہوا تیل
آنسوں کی صورت برآمد ہوتا
فلسطینی عوام اور زیتون کے درختوں کے تعلق بہت پرانا ہے، گہرائی میں جائیں تو 3600 قبل مسیح تک زیتون کی تجارت اور کاشت، دونوں کی مستند تاریخ موجود ہے۔ محمود درویش نے بھی وہی وابستگی اپنی شاعری میں ڈھال دی لیکن ایک بڑے سے رومال کی کہانی میں یہ شاعری، فلسطینی شاعر اور زیتون کے درخت کہاں سے آ گئے؟بتاتا ہوں، پہلے یہ جان لیجیے کہ 2015 تک اسرائیلی فوجیں انفراسٹرکچر، سڑکیں بنانے اور مختلف رہائشی عمارتوں کے چکر میں دس لاکھ سے زیادہ زیتون کے وہ درخت اکھاڑ چکی تھیں جو کئی سو برس سے فلسطین میں اپنی جگہ پر موجود تھے۔ اس کے بعد کا شمار ہی کوئی نہیں، خود اسرائیلی اخباروں کی چلتی پھرتی گواہی موجود ہے!اب وفی پہ نظر ڈالیں، یہ جو ایک میٹر کا سکارف ہے، اس کے بیرونی حصے پہ آپ کو جو ڈیزائن نظر آتا ہے، وہ زیتون کے پتے ہیں۔ یہ جملہ بعینہ ایک فلسطینی سے مجھ تک پہنچا اور میں نے آپ تک پہنچا دیا تاکہ آپ وفی اور زیتون کا تعلق سمجھ سکیں۔ فلسطینی اور زیتون کی خوراک اس طرح لازم و ملزوم ہیں جیسے آپ لوگ روٹی کھاتے ہیں۔تو اسرائیل ان درختوں کو پے در پے جلا کیوں رہا ہے، کاٹ کیوں رہا ہے، سکارف پر یہ پتے کیوں موجود ہیں اور یہ مزاحمت کی علامت کس طرح ہیں، ان چیزوں کا تعلق اب واضح ہو گیا۔اس کے بعد وفی پر جو تین کالی پٹیاں آپ کو نظر آتی ہیں، یا لائنیں ہیں جن میں سے درمیان والی موٹی اور باقی دو پتلی ہیں، یہ فلسطین کے پرانے تجارتی راستوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ قدیم سڑکیں جن کی وجہ سے فلسطین علاقائی تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔لیکن فلسطین تجارتی مرکز کیوں تھا؟ یہ بات وفی کا تیسرا اور آخری اہم ڈیزائن واضح کرتا ہے جس کی شکل مچھیروں کے جال جیسی ہے۔ مچھیروں کے جال نما یہ نقش بحیرہ روم کے اطراف میں بسنے والے فلسطینیوں کے اس قدیم ترین تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو ازمنہ قدیم سے ان کا اس سمندر کے ساتھ رہا۔ اسے آپ من النہر ل البحر کے نعرے کی مدد سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ انگریزی میں سرچ کرنا ہو تو From the river to the sea کا سلوگن ڈھونڈیے۔ اردو سمجھنا ہے تو بسم اللہ؛ دریائے اردن سے بحیرہ روم تک، ایک ہی ملک فلسطین۔1960 سے موجود اس نعرے اور وفی کے اس فش نیٹ کا مطلب کیا ہوا؟ یعنی فلسطینی اس رومال کو سر پہ باندھ کر یا گلے میں لٹکا کر اپنی قدیم ترین علاقائی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، وہ اہمیت جو سمندر کنارے بسے کسی بھی شہر کی ہو سکتی ہے جیسے سعودی عرب کا جدہ، انڈیا کا ممبئی، آسٹریلیا کا سڈنی، عرب امارات کا دبئی، ترکی کا استنول یا آپ کا کراچی! قرآن میں زیتون کی قسم کھائی گئی ہے، سات مرتبہ اس کا ذکر موجود ہے، ابن ماجہ کی حدیث سامنے ہے کہ اول تو مسجد اقصی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار راتوں کے برابر اور اگر کوئی مسلمان وہاں پہنچ نہ سکے تو اسے چاہیے کہ مسجد کو زیتون کا تیل نذر کرے چونکہ وہاں اس تیل سے دیے جلائے جاتے ہیں اور اس کا ثواب بھی وہاں جانے کے برابر ہے۔جہاں اتنے سارے حوالے ہوں، مقامی لوگوں کی زیتون کے درختوں سے اپنی اولاد جیسی محبت ہو، کئی گیت اس وابستگی پر ہوں، وہاں مخالف ملک کیا زیتون کا ایک درخت باقی بھی رہنے دے سکتا ہے؟ ادھر ظاہری بات ہے ماحولیاتی مسئلے بھی کہاں کسی کو یاد آتے ہیں۔ تو یہ جو وفی پر زیتون کے پتے ہیں، وہ بس یہ سب کچھ ہے۔وفی کی تاریخ کم از کم تین ہزار سال قبل مسیح تک میسوپوٹیمیا کے ساتھ جا کے ملتی ہے، اسی حوالے سے یہ بھی روایت ہے کہ اس کا نام وفی عراقی شہر کوفہ ہی کی وجہ سے پڑا۔موجودہ دور میں یہ سکارف اس وقت ٹھیک معنوں میں متعارف ہوا جب انگریزوں کی جانب سے یہودی آبادکاری کے خلاف 1936 میں فلسطینی جدوجہد شروع ہوئی۔مختصرا یہ جان لیجے کہ 1933 میں ہٹلر کا دور شروع ہوا تو جرمنی سے یہودیوں کا انخلا پہلے کی نسبت زیادہ تیز ہوا اور یہ سب برطانیہ کے زیرانتظام فلسطین کا رخ کر رہے تھے جہاں پہلی عالمی جنگ کے دوران حمایت کے عوض برطانیہ انہیں جغرافیائی برتری دینے کو تیار تھا۔ تو یہودیوں کی اس تیز تر نقل مکانی اور اپنا وطن اپنے پاس رکھنے کی فلسطینی تحریک جب تیز ہوئی تو مزاحمت کاروں کا واحد اور بڑا واضح نشان وفی تھا۔1947 میں برطانیہ نے صرف برصغیر ہی کی تقسیم میں ہاتھ نہیں کیے، فلسطین بھی اسی برس برطانوی قبضے سے یہودیوں کے زیر تسلط گیا۔اقوام متحدہ سے قرارداد پاس کروائی گئی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک یہودی اور ایک عرب ریاست قائم کی جائے جبکہ بیت المقدس بین الاقوامی شہر ہو گا۔ مئی 1948 میں اسرائیل بنا تو اگلے ہی روز پہلی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جہاں عرب ریاست بننا تھی، وہ علاقہ اسرائیل سمیت مختلف ممالک کے قبضے میں پہنچ گیا۔ پھر1967 میں جب دوبارہ فلسطینیوں پر جنگ مسلط ہوئی تو جن علاقوں پر اسرائیلی قبضہ ہوا، وہاں غیر قانونی بستیاں تعمیر کی گئیں جن میں اس وقت لاکھوں یہودی آباد ہیں۔ اسی حملے میں اسرائیل نے بیت المقدس پر بھی ناجائز قبضہ کیا۔فلسطین کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ اس کی سرحد 1967 کی جنگ سے قبل کے نقشے پر طے ہونی چاہیے تاہم اسرائیل آج تک ایسی کسی بات کو تسلیم کرنے سے عاری ہے۔1970 میں عرب اسرائیل امن مذاکرات شروع ہوئے جن کے متعلق فلسطینی مزاحمت کار لیلی خالد کا ایک جملہ نہ صرف قابل ذکر ہے بلکہ اب تک مکمل منطبق ہے۔ یہ ایک سیاسی عمل ہے جس میں طاقت کا سارا توازن اسرائیل کے حق میں ہے۔ ان کے پاس کھیلنے کے لیے تمام کارڈ ہیں اور فلسطینیوں کے پاس کوئی ایک آسرا بھی ایسا نہیں جس پر وہ انحصار کر سکیں۔ لیلی خالد نے اوائل عمر سے آج تک وفی کو ہمیشہ ایک الگ شناخت دی۔یاسر عرفات فلسطین کی تاریخ میں ایک اہم رہنما رہے اور وفی ہمیشہ ان کے سر پہ موجود دیکھا گیا۔ 1930 سے آج تک فلسطین کے مزاحمت کار آپ جہاں بھی دیکھیں گے وفی سب سے پہلی شناخت آپ کو نظر آئے گا۔اس کے بعد چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ 2021 میں لوئی وٹاں نے فلسطینی مزاحمت کا نشان وفی اپنا برانڈ بنا کے 705 ڈالر میں فروخت کرنا شروع کیا اور مہذب ملکوں کی تنقید کے بعد اسے اپنا یہ قدم واپس لینا پڑا۔2023 میں گوگل ٹرینڈز پہ اکتوبر سے اب تک وفی ایک راکٹ جیسا ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ذاتی طور پہ مجھ سے پوچھیں تو پہلے سرخ اور سفید، بعد میں بلیک اینڈ وائٹ یہ عرب رومال مجھے مسجدوں میں صرف مولانا حضرات کے کندھوں پہ نظر آتا تھا یا بالی وڈ کی فلموں میں مسلمان کرداروں کو زبردستی پہنایا جاتا تھا۔ اب اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مذہب اور نسل سے قطع نظر وفی ہر عمر کے مرد و خواتین نہ صرف گلے میں لپیٹے نظر آ رہے ہیں بلکہ اس ڈیزائن کی قمیصیں اور جرسیاں بھی مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے