किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

فارسی میں ہندوستان کے تہذیبی و اخلاقی سرمایہ کا عروج و زوال!

تحریر: عارف عزیز(بھوپال)

فارسی زبان و ادب کی ہندوستان میں ترقی مغلوں کی خصوصی سرپرستی کا نتیجہ ہے، جس کے بعد فارسی نہ صرف سرکاری بلکہ ادبی و تہذیبی زبان کے درجہ پر فائز ہوگئی۔ بادشاہوں، شہزادوں اور سلاطین نے بھی اِس زبان کو تصنیف و تالیف کا ذریعہ بنایا، یہاں تک کہ اُن کی توجہ سے سنسکرت کے مختلف علوم و فنون کی کتابیں فارسی میں منتقل کی گئیں۔ مہابھارت، گیتا، اُپنشد، جوگ و ششٹہ وغیرہ کے ترجمہ نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے فروغ اور ہندوستانی زبانوں کو فارسی سے قریب کرنے میں مدد کی، اِس دور میں اور اس سے پہلے بھی ہندوستان کے طول و عرض میں تعمیر ہونے والی عمارات پر فارسی کے کتبات، نقوش اور طغرے فارسی کی وسیع و عریض فرمانروائی کھلا ثبوت ہیں۔ اس زمانہ میں فارسی زبان کے دبدبے کا یہ عالم تھا کہ سرکار و دربار میں ہی نہیں میلوں و ٹھیلوں میں بھی یہی زبان رائج تھی، جو فارسی نہیں جانتے وہ غیر تعلیم یافتہ کہلاتے تھے، اس کی شیرینی، تروتازگی، ہمہ گیری اور دلکشی کے آگے دوسری ملکی زبانوں نے ایک طرح سے خود سپردگی کردی تھی، اِس دور کے تعلیمی و تہذیبی ادارے جو ملک کے چپہ چپہ پر قائم تھے، مندروں، مسجدوں، صاحبِ حیثیت ہندو مسلمانوں کی دیوڑھیوں اور بیٹھکوں میں چل رہے تھے اور اُن میں ہندو مسلمانوں کے بچے جو کتابیں پڑھ رہے تھے، وہ فارسی میں تھیں، خاص طور پر کریما یا مقیما، گلستاں، بوستاں، پندنامہ، انوارِ سہیلی کا پڑھنا ہر طالب علم کے لئے ضروری تھا۔ اِس سے آگے بڑھتے تو حافظ شیرازی، عرفی، نظیری، مولانا روم اور فرودسی کی غزلیات، قصائد، مثنوی اور شاہنامے کی تعلیم ہوتی۔
اِن کتابوں کے درس و تعلیم کا نتیجہ صرف یہ نہیں نکلا کہ نئی نسل کو فارسی زبان میں مہارت حاصل ہوگئی، یہ بھی ہوا کہ اِن کتابوں میں موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے اخلاقی محاسن، تہذیبی نکات اور فکر کی پاکیزگی سے بھی وہ ایسی متعارف ہوگئی کہ اُس کے آگے اخلاقی پستی، ذہنی کثافت، عریانیت، و فحاشی یا غیر شریفانہ عادات و اطوار دماغ میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اِسی اخلاقی و تہذیبی برتری کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کے باشندے عرصہ تک انگریزوں کی فکری یلغار اور اُن کی تہذیبی چمک و دمک سے متاثر نہیں ہوئے اور فوجی و عسکری سطح پر شکست کھانے کے باوجود اُن کی تہذیب اور کلچرل کے آگے خودسپردگی پر آمادہ نہ ہوئے۔ اِس کے بجائے وہ انگریزوں کی تہذیب کو قابلِ نفرت اور اُن کے وجود کو اِتنا بڑا دشمن گردانتے رہے کہ کسی انگریز سے ہاتھ ملانے کے روادار بھی نہ تھے۔ اگر ایسی مجبوری آجاتی تو ہاتھ دھونا ضروری سمجھتے تھے۔
اِس تہذیب اور اِس کلچر نے ہندوستانیوں کو ذہنی طور پر اِتنا بلند بنا دیا تھا کہ محکوم ہونے کے باوجود انگریزوں کو اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے اور فرنگی تہذیب کو شیطانی تہذیب قرار دیتے تھے۔ اس صورت حال کی موجودگی میں انگریزوںکے لئے ضروری ہوگیا کہ وہ اُس زبان کو ختم کرنے کی فکر سب سے پہلے کریں جو اِس ذہنی پاکیزگی اور تہذیبی برتری کا سرچشمہ ہے، اِس ایک ضرورت اور ناگزیر سبب کے سوا اِس زبان کو ختم کرنے کے فیصلہ میں ایک دوسرا اور اہم مقصد یہ بھی شامل تھا کہ ہندوستان کے تہذیبی رشتہ کو باقی دنیا سے منقطع کر دیا جائے۔ فارسی زبان کے چلن کی بدولت ہندوستان کا رشتہ نہ صرف افغانستان بلکہ اس سے بھی آگے ایران، ماوراء النہر، یعنی بخارا، سمرقند،تاشقند،آرمینیااور آذربائیجان تک کے علاقوں سے براہ راست قائم تھا۔ یہ علاقے اُس وقت تک چین اور روس کے زیر اقتدار نہیں آئے تھے، انگریز ہندوستان کی تاریخ اور اُس کی تقدیر پر افغانستان اور ایران کے فیصلہ کن اثرات سے بخوبی واقف تھے اور اُن خطرات سے بھی جو مستقبل میں اِن ملکوں کی طرف سے ہوسکتے تھے۔آج کے ہندوستان میں یہ بات خواہ عجیب اور معمولی سمجھی جائے،لیکن انگریزوں کے دورِ حکومت میں ۱۹۲۰ء بلکہ ۱۹۳۰ء تک افغانستان کی حکومت ہندوستان میں انگریزی اقتدار کے لئے سب سے بڑا خطرہ مانی جاتی تھی اِس کی ایک مثال کابل میں ہندوستان کی ’’جلاء وطن‘‘ حکومت کے قیام کی صورت میں، تاریخ کے صفحات پر رقم ہے اور اِسی لئے انگریز جس ہندوستان کو تاج برطانیہ کا سب سے قیمتی ہیرا قرار دیتے تھے، افغانستان کے امکانی حملوں سے محفوظ رکھنے کی فکر اور سازشوں میں مسلسل مصروف رہے۔
ہندوستان سے فارسی کے چلن اور یہاں کی سماجی اور معاشرتی سرگرمیوں سے فارسی کے تہذیبی پس منظر کو مٹا دینے کے فیصلہ کے مطابق ہی انگریزوں نے فورٹ ولیم کالج میں دیسی زبانوں کو ترقی دیکر فارسی کے مقابلہ میں کھڑا کر دینے کی جد و جہد شروع کی تھی اور اس مقصد سے انہوں نے ایسی سرگرمی، ایسی دلچسپی، ایسی جد و جہد اور انہماک کے ساتھ کام کیا کہ مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہونے سے پہلے پہلے اردو اور انگریزی زبانیں علمی اور لسانی اعتبار سے پائیدار بنیادوں پر کھڑی ہوگئیں۔ اِس عرصہ میں انہوں نے ایک طرف انگریزی زبان کی تعلیم اور اس تعلیم کے ساتھ معاشی فائدے وابستہ کر دیئے اور دوسری طرف دیسی زبانوں کی مقبولیت میں اضافے کرکے اُن کا چلن عام کرنے اور انہیں سرکاری زبان کی حیثیت سے اپنی سرپرستی میں آگے بڑھانے کی ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ فارسی زبان یہاں کے تعلیمی، معاشرتی، سماجی اور سرکاری اداروں سے مکمل طور پر بے دخل ہوگئی اور رفتہ رفتہ یہ وقت آگیا کہ وہ ہندوستان میں ایک اجنبی، بیرونی اور غیر ملکی زبان کی حیثیت تک پہنچ گئی۔
ہندوستانی مشاہیرمیں گرامی چشتی فارسی کے آخری شاعر تھے اور پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد وہ آخری آدمی تھے جنہوں نے فارسی کی مکتبی تعلیم مسجد کے اُس مدرسہ میں حاصل کی تھی جس کا وجود بیسویں صدی کی ابتدا تک قائم تھا۔ فارسی زبان کی تعلیم اور رواج کے خاتمہ کا نقصان صرف اتنا ہی نہیں ہوا کہ پڑوسی ملکوں، افغانستان، ایران اور روس و چین، ترکستانوں کے ساتھ ہمارے لسانی اور تہذیبی روابط ختم ہوگئے اور تہذیبی تعلقات کے احیاء اور استواری کی آسان اور فطری بنیادیں موجود نہ رہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب سعدی کی دانش و حکمت، حافظ کی متصوفانہ اور حکیمانہ سرشاری، مولانا روم کی مضطرب روحانی جستجو اور بلندی پروازی، عطار کی پندو نصیحت سے بھرپور اخلاقی تعلیم، فردوسی کے پرشکوہ رزمیہ انداز بیان، عرفی و نظیری کی شوکت خیالی کے لازوال خزانوں سے محروم ہوگئی،اسی طرح اخلاقی تربیت نیز بلند خیالی کا وہ سرچشمہ خشک ہو گیا جو صدیوں تک ہندوستانی تہذیب کی سیرابی، سرسبزی اور شادابی کا سبب بنتا رہا ہے۔
زیادہ دور کی بات نہیں اب سے پچھتر برس پہلے تک کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ہندوستان میں ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب کہ فارسی کا چلن اس ملک سے ختم ہوجائے گا اور اِس کے جاننے والے تلاش کرنا پڑیں گے۔ تقسیمِ ملک سے پہلے تک اِس مشترکہ تہذیب کا وقار اور عظمت جس کی نشو و نما میں فارسی زبان اور اُس کے اندر سموئے ہوئے کلچر نے سب سے بڑا حصہ لیا تھا اِس حد تک باقی تھی کہ خالص ہندو ریاستوں میں راجاؤں اور اُن کے راجکماروں کے لئے فارسی کی تعلیم ضروری سمجھی جاتی تھی، نہ صرف جے پور، جودھ پور، گوالیار، کپور تھلہ اور پٹیالہ جیسی کٹر غیر مسلم ریاستوں میں سرکاری طور پر فارسی تعلیم کا انتظام تھا بلکہ نیپال تک کے شاہی خاندان کے لئے فارسی اور اردو کی باقاعدہ تعلیم ضروری خیال کی جاتی تھی اور اِسے مہذب ہونے کی سند اور ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن تقسیم کے بعد یہ صورت باقی نہ رہ سکی۔مرحوم راجہ محمود آباد کے بقول
’’مغل سلطنت کے خاتمہ کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے پاس دولت، حکومت، تجارت اور سیاسی قوت میں سے کوئی چیز باقی نہ رہی اور ایک کلچر کے سوا کوئی ایسا اثاثہ نہ بچا ، جس کی بنا پر وہ برادرانِ وطن پر اپنی برتری ثابت کرسکتے تھے۔یہ امتیاز بھی تقسیم کے بعد ختم ہوگیا۔ اِس نقصان کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ کتنا بڑا خسارہ ہے۔‘‘
آج ملک بھر میں جس اخلاقی انحطاط کا ماتم برپا ہے اور نئی نسل کے اندر روز افزوں وحشت کے رجحانات تشویشناک بنے ہوئے ہیں۔ تعلیم گاہوں اور دانش کدوں میں اخلاقی تعلیم کو از سر نو جاری کرنے کا جو شدید احساس دکھائی دے رہا ہے۔ وہ دراصل میں اسی کمی کا نتیجہ ہے جو فارسی کلچر کے زوال اور فارسی تعلیم کی منسوخی کے باعث پیدا ہوگئی ہے، جس قوم کے بچوں کے ذہن کا مرقع گلستاں اور بوستاں کی موعظت، پندنامہ عطار کی حکمت و اخلاق، حافظ کی ژرف نگاہی، مثنوی مولانا روم کی آفاقیت اور روحانی تاثیر، نظیری اور عرفی کے قصائد کی شوکت خیال اور فردوسی کے شاہنامہ کی بنائی ہوئی رنگا رنگ اور پرشکوہ تصویروں سے مزین اور آراستہ ہو وہ کم ظرفی، وحشت مزاجی، بداخلاقی اور بدکرداری کو آسانی کے ساتھ قبول کرنے پر تیار نہیں ہوسکتا۔ یہ کتابیں جو صدیوں تک ہمارے اسلاف کے ذہنوں اور اجتماعی کردار پر سایہ ڈالتی رہی ہیں۔ رفتہ رفتہ غیر مروج ہوکر نایاب ہوگئیں اور عرصہ ہوا ہندوستان کے لوگ اِن کے بیش قیمت فوائد سے محروم ہوگئے ہیں۔ اِس نقصان کا ایک نتیجہ تو اس وحشت انگیزی اور بداخلاقی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جو نئی نسلوں کے افعال و کردار میںگویا سرایت کر گیا ہے۔ دوسرا نتیجہ جس کا تعلق خالص لسانی اور تہذیبی دائرے سے ہے وہ اسلوب و افکار کے تنوع اور وسعت سے محرومی کا ہے۔ سعدی نظیری، مولانا روم، حافظ اور فردوسی کے مذکورہ افکار و خیالات، تعلیم اور تربیتی عناصر کے ساتھ ہمارے تہذیبی رشتوں کا خاتمہ جنہوں نے صدیوں تک نہ صرف ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و تمدن کے باغ کو سینچنے بلکہ دنیا کے ادبِ عالیہ کو متاثر کرنے کو بے مثال قوت کا مظاہرہ کیا۔ یقینا ایک ایسا نقصانِ عظیم ہے جس کی تلافی کی کوشش ایسی عظیم خدمت کہی جاسکتی ہے جس سے زیادہ تحسین و تعریف کی مستحق کوئی دوسری خدمت نہیں ہوسکتی۔
اس لئے ہندوستان میں آج جو جامعات، کالج یا دوسری درسگاہیں فارسی زبان و ادب کی تعلیم کا نظام چلا رہے ہیں، اُن کی ملک و قوم کو قدر اور حکومت کو اُن کی بقاکی فکر کرنا چاہئے۔

 

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے