किया अप भी अपने न्यूज़ पेपर की वेब साईट बनाना चाहते है या फिर न्यूज़ पोर्टल बनाना चहाते है तो कॉल करें 9860450452 / 9028982166 /9595154683

غزہ میں ہولوکاسٹ، صہیونی ریاست کا نازی طرز پر اجتماعی قحط اور نسل کشی کا گھناؤنا کھیل

غزہ:29؍مئی:غزہ کی خستہ حال سرزمین پر ایک بار پھر ظلم و سفاکیت کی ایسی داستان رقم ہو رہی ہے جسے دیکھ کر نازی دور کے نام نہاد ہولوکاسٹ کی بھیانک یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ وہی ہتھکنڈے، وہی اذیت، وہی انسانیت سوز مناظر۔ فرق صرف چہروں کا ہے مگر درندگی وہی نازی سوچ کی پیداوار ہے۔ اس بار کردار قابض صہیونی ٹولہ ہے، اور اس کا نیا ہتھیار "بھوک ہے۔صہیونیوں کا دعوی ہے کہ وہ انسانی امداد بانٹ رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ "غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کے پردے میں اس نے ایسی ذلت آمیز امدادی کارروائی شروع کی ہے جو نازی دور کے عقوبت خانوں کی ایک نئی شکل دکھا رہی ہے۔
قتل جیسا منظر
انسانی حقوق کی تنظیم "یورومیڈ مانیٹر کے سربراہ رامی عبدہ کے مطابق ہولوکاسٹ کے عقوبت خانوں اور آج کے غزہ میں فرق محض وقت کا ہے۔ باقی ہر منظر وہی ہے: باقاعدہ منصوبہ بند بھوکا رکھنا، خوراک کا قطرہ قطرہ فراہم کیا جانا اور محصور انسانوں کو ذلت آمیز طریقے سے موت کے دہانے پر چھوڑ دینا بھوک کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی اب بھی زندہ ہے۔انہوں نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا جو پولینڈ کے "تشیبینیا کیمپ کی تھی اور کہا کہ آج غزہ میں ہم اسی طرح کے مناظر دوبارہ دیکھ رہے ہیں۔عبدہ نے اس امریکی-اسرائیلی کمپنی کی جانب اشارہ کیا جو اس ساری کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ قابض اسرائیل پہلے عوام کو بھوکا مارتا ہے، پھر انہی بھوکوں کو پیدل چلوا کر، ذلت آمیز طریقے سے کچھ امدادی سامان لینے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کا مقصد واضح ہے: نئی "نازی کیمپوں کی تشکیل۔
غزہ کے گھیٹو اور عالمی خاموشی
معروف اسکالر ڈاکٹر صریح صالح القاز نے کہا کہ یہ امداد نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف جرم ہے، جسے "غزہ کے گھیٹو اور حراستی کیمپوں میں بدلا جا رہا ہے۔ یہ سب بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ عالمی برادری اب بھی محض بیانات تک محدود ہے۔
توہین و تذلیل کا منظم منصوبہ
یورومیڈ مانیٹر کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی سکیورٹی فورسز کے تحفظ میں ہونے والی امداد کی تقسیم دراصل ایک ذلت آمیز تجربہ ہے، جس میں بھوکے شہریوں کو درجنوں کلومیٹر پیدل چلوا کر ایک خطرناک سکیورٹی زون میں لایا جاتا ہے۔ وہاں ان سے انسانی عزت و وقار کو روندتے ہوئے، خاردار تاروں میں بند گذرگاہوں سے گزارا جاتا ہے اور پھر انہیں محدود خوراک کے پیکٹ دیے جاتے ہیں۔اسرائیل نے جان بوجھ کر تقسیم کے مقام کو ذلت آمیز اور غیر انسانی حالات سے آراستہ کیا، جہاں ہزاروں لوگ اس امید میں آتے ہیں کہ شاید چند نوالے انہیں نصیب ہو جائیں۔ مگر جو منظر سامنے آتا ہے وہ صہیونی درندگی کی ایک اور بھیانک شکل ہے۔
ناکامی اور نسل کشی کی گواہی
غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ سب اس قحط اور بحران کی گواہی ہے جو اسرائیل نے خود پیدا کیا۔ بھوک، محاصرہ اور بمباری سب ایک ہی منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد فلسطینی قوم کی اجتماعی نسل کشی ہے، جیسا کہ 1948 کی اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بیان شدہ نسل کشی کی تعریف میں آتا ہے۔”گھیٹوہ نما کیمپوں میں محدود امداد کی تقسیم دراصل فلسطینی معاشرے کو توڑنے، اجتماعی سزا نافذ کرنے اور اسرائیلی سکیورٹی مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک سنگدل منصوبہ ہے۔دفتر نے کہا کہ یہ منظر دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور خاموشی دراصل اس جرم میں شراکت داری ہے۔ ہم دنیا کو خبردار کرتے ہیں اور امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور اسرائیل کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
غزہ کو خالی کرنے کی کوشش
فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے بھی اس ذلت آمیز امدادی نظام کو "انسانیت کی توہین قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد شمالی و وسطی غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر کیمپوں میں محدود کر کے منصوبہ بند جبری ہجرت کو عملی جامہ پہنانا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ امدادی کاموں کو اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے ذریعے "فوجی شکل دینا اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ اداروں کے کردار کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ امداد کی تقسیم انصاف، انسانیت اور غیر جانب داری کے اصولوں پر کی جائے اور یہ ذمہ داری انروا جیسے معتبر اداروں کو دی جائے۔
دانستہ فاقہ کشی: زبردستی ہجرت کی شروعات
اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل نے گذشتہ 90 دن سے تمام راستے بند کر رکھے ہیں، جس کے باعث 2.4 ملین فلسطینی بھوک کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل امریکی سرپرستی میں امداد کی تقسیم کے نام پر ایسی جعلی تنظیموں کو استعمال کر رہا ہے جو صرف اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہیں: فلسطینیوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ جان بچانے کے لیے الگ تھلگ علاقوں میں چلے جائیں اور یوں بے وطن ہو جائیں۔2 مارچ سے اسرائیل کی یہ منظم بھوکا مارنے کی پالیسی جاری ہے۔ انسانی امداد سرحدوں پر سڑ رہی ہے، اور اندر لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی درندگی نے 177,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کر دیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ ہزاروں لاپتہ اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

Shaikh Akram

Shaikh Akram S/O Shaikh Saleem Chief Editor aitebar news, Nanded (Maharashtra) Mob: 9028167307 Email: akram.ned@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے